Daily Ausaf:
2025-07-03@16:17:35 GMT

حق کی تلوار اور ظلم کا تخت

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

انسانی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے کردار، قربانی، فضیلت اور غیر متزلزل اصولوں کی بدولت ایسا ابدی مقام حاصل کیا ہے کہ ان کی بازگشت صرف وقت کے گزرنے سے نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر میں گہرائی تک سنائی دیتی ہے۔ ان نادر اور عظیم ہستیوں میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام نمایاں ہے، جو نبی کریم ﷺ کے پیارے نواسے ہیں۔ ان کا نام نہ صرف تاریخِ اسلام کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر سچائی، مزاحمت اور اخلاقی جرات کی علامت کے طور پر نقش ہو چکا ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کربلا کا واقعہ صرف تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی ایک لازوال گواہی ہے، جو زندگی کی قربانی دے کر بھی سچائی پر قائم رہنے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، نہ ہی وقتی مصلحتوں کو اپنے اخلاقی نظریے پر حاوی ہونے دیا۔ آپ کا موقف کسی اقتدار یا دنیاوی خواہش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مقدس امانت کا تقاضا تھا۔حق کا علم بلند رکھنا، اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کی میراث کا تحفظ کرنا، اور اسلام کو ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانا۔ جب ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیاور تمام وسائل ختم ہو گئے، تب بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خوف کے آگے جھکنے کے بجائے سر بلند کیا۔ اسی استقامت کے صلے میں آپ کو شہادت کا عظیم رتبہ اور دائمی عزت نصیب ہوئی۔
قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق دئیے جا رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران، 3:169)
یہ آیت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کو موت نہیں بلکہ ایک مقدس بلندی، ایک روحانی عروج قرار دیتی ہے۔ یہ شہادت ایک افسوسناک انجام نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جاں نثاری کا ابدی اعزاز ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا لہو جو کربلا کی ریت پر بہا، وہ ہرگز رائیگاں نہیں گیا۔ یہ لہو ضمیر کی فتح، عزت کی سر بلندی اور ظلم کے مقابل ڈٹ جانے کی عظیم علامت بن گیا۔ اگرچہ اُس المناک دن کو صدیاں بیت چکی ہیں، مگر کربلا آج بھی زندہ ہے۔مایوسی کی داستان کے طور پر نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف جرات کی ایک بلند نشان کے طور پر۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’سب سے بہترین جہاد وہ ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہی جائے۔‘‘
اور اس قولِ مبارک کی سب سے روشن مثال کوئی ہے تو وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔آپ ﷺ کے پیارے نواسے، جنہوں نے سچائی کو جان سے عزیز رکھا۔
ظلم و جبر کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، مگر ان کا اصل چہرہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ حالیہ دور میں، غزہ میں معصوم بچوں کا قتلِ عام، کشمیر میں جاری بے رحمانہ ظلم، افغانستان اور شام میں عزتِ انسانی کا انکار اور روہنگیا مسلمانوں کا نسل کشی سے بچ کر دربدر ہونا،یہ سب کربلا کی روح کی بازگشت ہیں۔
تاریخ آج بھی یزیدیت کے نئے چہروں کی گواہی دیتی ہے۔
تاہم، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ ہر سال جب محرم کا مقدس مہینہ لوٹتا ہے، تو دنیا بھر کے مسلمان یومِ عاشورہ کو مایوسی یا بے بسی کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک نئے عزم اور تجدیدِ وفا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
یہ آنسو صرف غم نہیں ہوتے،یہ وفاداری کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسینؓ آج بھی زندہ ہیں،ہر اُس دل میں جو ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، ہر اُس روح میں جو اصول کو غلامی پر ترجیح دیتی ہے۔
حسینیت کی یہ روح نہ سرحدوں کی محتاج ہے، نہ مسلک کی، نہ زبان کی۔ یہ صرف شیعہ یا سنی، عرب یا عجم تک محدود نہیں۔ یہ ہر اُس جگہ زندہ ہے جہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔
چاہے وہ فلسطینی بچے کی جرات ہو، کشمیری ماں کی دعا ہو، یا کسی بھی مظلوم کی وہ پکار جو اقتدار کے ایوانوں کے سامنے حق کی بات کہنے کی جرات رکھتی ہے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام اُن سب کے اندر سانس لیتا ہے۔
وہ ماضی کی کوئی داستان نہیں، بلکہ ہر عدل و انصاف کی جدوجہد میں ایک زندہ و متحرک قوت ہیں۔
اور ایسے مواقع پر جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے، مظلوموں کی حمایت نہیں کرتے، اور خاموش رہتے ہیں، وہ درحقیقت یزیدیت کے حامی شمار ہوتے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں غیر جانب داری، معصومیت نہیں بلکہ شراکتِ جرم ہے۔ جو حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کرتا ہے، وہ یزید کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے۔ ظلم پر خاموشی خود ایک قسم کی غداری ہے۔
ہر اُس یزید کے مقابلے میں، جو خوف کے ذریعے سچ کو دبانا چاہتا ہے، وہاں ایک حسین رضی اللہ عنہ ضرور اُٹھے گا جو ایمان سے جواب دے گا۔ ہر اُس نظام کے مقابلے میں جو جھوٹ اور جبر پر قائم ہو، ایک ایسی آواز ضرور بلند ہوگی جو سمجھوتے کی خاموشی کے بجائے قربانی کی تلوار کو چن لے گی۔
حسینیت اور یزیدیت کی جاری اس جنگ میں غیر جانب داری دراصل شریکِ جرم ہونا ہے۔ ہر انسان کو فیصلہ کرنا ہے۔ایک باعزت زندگی کا، چاہے وہ میدانِ جنگ میں ختم ہو جائے، یا ایک آرام دہ زندگی کا جو ظلم کے قدموں میں زنجیروں سے بندھی ہو۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عزت کا راستہ چُنا، اور اس انتخاب کے ذریعے اُنہوں نے ہر اس شخص کے لیے راستہ روشن کر دیا جو وقار اور غیرت کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔
روحِ کربلا ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک شخص کا انکار بھی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ یہ کہ سچ جب جرات سے جُڑ جائے تو تمام ظالموں سے زیادہ دیرپا ثابت ہوتا ہے۔ یہ جنگ کربلا میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہر اُس سرزمین میں جاری ہے جہاں ظلم پنپ رہا ہو۔
لیکن جب تک دل سچائی کے لیے دھڑکتے رہیں گے، جب تک مظلوم سر اُٹھاتے رہیں گے، اور جب تک انسانیت بزدلی کے بجائے اخلاقی بصیرت کو چنے گی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
غم کا نام نہیں، بلکہ مزاحمت کا عَلَم بن کر
دکھ کی یاد نہیں، بلکہ انصاف کا وعدہ بن کر
اور ایک شہید کے طور پر نہیں جو گر گیا ہو، بلکہ ایک ایسی روح کے طور پر جو ہمیشہ کے لیے بلند ہو چکی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نہیں بلکہ کے طور پر کے ساتھ دیتی ہے ا ج بھی ظلم کے کا نام کہ ایک

پڑھیں:

خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، رانا ثنا اللہ

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے خیبرپختونخوا حکومت گرانے سے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی، اور نہ ہی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا معاملہ زیر غور ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کئی مرتبہ مذاکرات کی پیشکش کی، مگر پی ٹی آئی نے ہر بار بات چیت سے انکار کیا۔ پی ٹی آئی 2018 میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آئی، اور اب بھی یہی چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ اسے اقتدار میں لائے، لیکن یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔

رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جماعت نے اپنے فیصلوں اور طرز سیاست کے ذریعے خود کو اس مقام تک پہنچایا۔ اگر پی ٹی آئی نے اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کی ہوتیں، تو شاید 9 مئی کا واقعہ بھی پیش نہ آتا۔

مزید پڑھیں: مبینہ انتخابی دھاندلی: پاکستان تحریک انصاف کا 8 فروری کو ملک گیر احتجاج کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو یہاں تک پیشکش کی کہ اگر وہ وزیراعظم ہاؤس نہیں آنا چاہتے تو اسپیکر چیمبر میں مذاکرات کرلیں، وہ خود وہاں پہنچ جائیں گے۔ مگر پی ٹی آئی جمہوریت کو مذاکرات کے بجائے ڈیڈلاک کے ذریعے چلانا چاہتی ہے۔

رانا ثنا اللہ نے واضح کیا کہ مولانا فضل الرحمان سے خیبرپختونخوا حکومت کے خاتمے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، اور فی الحال پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف کسی بھی اقدام پر غور نہیں کیا جا رہا۔ ان کے بقول، علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان کی امانت کو بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی پرامن احتجاج کرے اور قانون ہاتھ میں نہ لے تو وہ ان کا جمہوری حق ہے، اور حکومت اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے بیان دیا تھا کہ جتنا زور لگانا ہے، لگا لیں، حکومت آئینی طریقے سے نہیں گرائی جا سکتی، اور اگر گر گئی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا حکومت سیاسی امور رانا ثنا اللہ مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، رانا ثنا اللہ
  • آیت اللہ خامنہ ای کی شان میں گستاخی امت مسلمہ کیلئے ناقابل برداشت ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • تخیل سے حقیقت تک،پاکستان کا خاموش سفر
  • کتے کی دم
  • معجزاتی دور اور ابدی راحت سے پہلے کا منظر
  • کراچی کے ساتھ ظلم کی تاریخ
  • سیکرڈ لیڈرشپ: قیادت کا نیا انداز
  • اسرائیل تلوار کی دھار پر