ایف بی آر نے"ہائی رسک" کیش ٹرانزیکشنز پرنگرانی کا عمل مزید سخت کردیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
کلیم اختر: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے "ہائی رسک" کیش ٹرانزیکشنز پر نگرانی مزید سخت کر دی ہے۔ فنانس ایکٹ 2025 کے تحت دو لاکھ روپے سے زائد کی نقد رقوم کی منتقلی پر خودکار طریقے سے ٹریکنگ اور نگرانی کی جائے گی۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق 2 لاکھ روپے سے زائد کی کیش جمع کروانے پر 20.79 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوگا۔
بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مشکوک یا مقررہ حد سے زائد کیش ٹرانزیکشنز کی رپورٹ ایف بی آر کو فراہم کریں۔ ضرورت پڑنے پر جمع کروانے والے سے ثبوت اور وضاحت بھی طلب کی جا سکتی ہے۔
سکولوں کی انسپکشن کرنے والے افسران کی آن لائن مانیٹرنگ کا فیصلہ
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ نیا سخت نگرانی کا خودکار نظام فعال کر دیا گیا ہے، جو ٹیکس چوری اور غیر قانونی لین دین کی روک تھام میں مدد دے گا۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ایف بی آر
پڑھیں:
موٹروے ٹول ٹیکس میں 100 فیصد سے زائد اضافے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موٹرویز پر ٹول ٹیکس میں 100 فیصد سے بھی زائد اضافہ کیا گیا ہے، جس پر ارکان کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا۔
چیئرمین نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ 6 سال سے ٹول ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا، اسی لیے اب یکدم ٹول کی قیمتیں بڑھائی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹول ٹیکس سے حاصل ہونے والا ریونیو 32 کروڑ روپے سے بڑھ کر 64 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے، جو صرف ٹول ریٹس میں اضافے کی وجہ سے ممکن ہوا۔
اس پر سینیٹر پرویز رشید نے تنقیدی انداز میں سوال کیا کہ “جب آپ نے ٹول بڑھا دیا تو موٹروے پر عوام کو سہولت کے نام پر کیا دیا؟”
اجلاس کے دوران ایم 6 منصوبے سے متعلق ایک اور سنگین معاملہ بھی سامنے آیا، جہاں دو اضلاع میں ساڑھے چار ارب روپے کی مبینہ خوردبرد کی گئی۔
چیئرمین این ایچ اے نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ سندھ حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ دو ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے یہ رقم ہڑپ کی گئی، تاہم منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے سندھ حکومت نے خود یہ رقم جمع کرانے کی پیشکش کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی تجویز دی گئی کہ رقم متعلقہ ڈپٹی کمشنرز سے وصول کر کے ریکوری مکمل کی جائے۔
یہ تمام انکشافات موٹرویز اور ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں، جبکہ عوام پر ٹیکس کے اضافی بوجھ کے باوجود سہولیات کا فقدان مزید خدشات پیدا کر رہا ہے۔