بھارت کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روس سے سستا تیل جاری رکھنے کا اعلان، نیویارک ٹائمز
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کو کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی فوج کے ہاتھوں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اب بھارت پر ٹیرف میں اور بھی اضافہ کرنے جا رہا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روس سے سستا تیل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ہفتہ کو بھارتی حکام نے کہا تھا کہ وہ روس سے سستا تیل خریدنا جاری رکھیں گے، حالانکہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد ہونے والی ممکنہ سزاؤں کا خطرہ موجود ہے۔ یہ وہ تازہ ترین موڑ ہے جو اس مسئلے میں آیا ہے جسے نیو دہلی نے سمجھا تھا کہ وہ اس کو حل کر چکا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر گودی میڈیا اور صحافی تلملا اٹھے۔ ٹرمپ کی بھارت کے خلاف سخت معاشی پالیسیوں پر بھارتی میڈیا کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اضافی ٹیرف کی وجہ بھارت کی روس سے تیل کی خریداری بنی جس سے ڈونلڈ ٹرمپ شدید برہم ہوئے اور انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر بیان جاری کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت نہ صرف بڑی مقدار میں روس سے تیل خرید رہا ہے بلکہ اسے فروخت کرکے منافع بھی کما رہا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کو کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی فوج کے ہاتھوں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اب بھارت پر ٹیرف میں اور بھی اضافہ کرنے جا رہا ہوں۔ ٹرمپ کے ٹیرف نافذ کرنے کے اعلان کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کا سخت رد عمل سامنے آیا جس میں انہوں نے ”امریکہ اپنی نیوکلیئر انڈسٹری کے لیے روس سے یورینیم کمپاؤنڈ خریدتا ہے، اسے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر بھارت روس سے رعایتی تیل لے تو اعتراض شروع ہو جاتا ہے؟“
بھارتی حکام کے مطابق ہماری توانائی کی ضروریات، معیشت اور صارفین کے مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ پر، بھارت کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ بھارت نے یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد روس سے تیل درآمد کرنا اس وقت شروع کیا جب روایتی سپلائیز یورپ کی طرف منتقل کر دی گئی تھیں۔ امریکہ نے اس وقت خود بھارت کو روسی درآمدات کی ترغیب دی تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جاسکے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نیویارک ٹائمز اور عمران خان کی رہائی پر 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر کا مضمون
حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون ‘عمران خان کو رہا کرو’ صحافت نہیں بلکہ ایک خالصتاً سیاسی اشتہار ہے، جو مبینہ طور پر غیر ملکی لابنگ ایجنٹس کی مالی معاونت سے شائع کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق نیویارک ٹائمز نے یہ مضمون 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر کی ادائیگی کے بعد شائع کیا جو ایک سزا یافتہ سیاسی شخصیت کی ساکھ کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔
یہ اشتہار ایک سنگین سوال کو جنم دیتا ہے اور وہ یہ کہ صحافت اور کرائے کے سیاسی سرگرم کارکنوں میں فرق کب مٹ جاتا ہے اور ایک عالمی میڈیا ادارہ کس حد تک جانے کو تیار ہے جب اُسے ایک خودمختار ریاست کے اداروں کو بدنام کرنے کے لیے ادائیگی کی جائے؟
یہ بھی پڑھیے:ایک گھنٹے میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، اسد قیصر نے بڑا دعویٰ کردیا
زیرِ بحث مضمون محض گمراہ کن نہیں بلکہ ایک مثال ہے کہ کس طرح کسی مخصوص بیانیے کو دھو کر اسے ایک معزز پلیٹ فارم کے ذریعے قابلِ قبول بنایا جاتا ہے۔ اس میں پاکستان کی عدلیہ، سلامتی کے اداروں اور آئینی نظام کو بغیر کسی توازن یا تحقیق کے نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ مضمون نہ تو کسی شفاف تحقیق پر مبنی ہے، نہ اس میں حقائق کا توازن موجود ہے اور نہ ہی کوئی سیاق و سباق۔ یہ صحافتی معیار کی ایک بدترین مثال ہے جہاں عوامی مفاد کے بجائے مالی فائدے کو ترجیح دی گئی۔
واضح رہے کہ عمران خان کی قانونی مشکلات کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ نہیں۔ ان پر کرپشن، ریاستی تحائف سے غیر قانونی منافع کمانے اور ریاستی رازوں کے افشا جیسے سنگین الزامات میں شفاف عدالتی کارروائی ہوئی۔ ان فیصلوں میں نہ کوئی عسکری دباؤ تھا، نہ ہی کوئی سیاسی مداخلت، یہ تمام مقدمات آزاد عدلیہ کے تحت طے پائے۔
یہ بھی پڑھیے: عمران خان کی رہائی، امریکا سے مدد کی اپیل، قاسم خان کا انٹرویو، امریکا کا بھارت کیخلاف اعلان جنگ
نیویارک ٹائمز نے سچائی کے بجائے پیسہ چن کر نہ صرف اپنی صحافتی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے بلکہ یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اب غیرجانبدار رپورٹنگ کے بجائے غیر ملکی ایجنڈے فروخت کرنے والا ادارہ بن چکا ہے۔
پاکستان برائے فروخت نہیں اور نہ ہی اس کی عدلیہ۔ یہ مہنگے اشتہارات نہ تو عدالتی فیصلوں کو پلٹ سکتے ہیں، نہ ہی ایک سزا یافتہ فرد کے جرائم کو دھو سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رہائی عمران خان نیویارک ٹائمز