میڈونا کی پوپ سے اپیل؛ اس سے قبل بہت دیر ہوجائے، غزہ کے بچوں کو بچائیں
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
عالمی شہرت یافتہ امریکی گلوکارہ میڈونا نے پوپ آف ویٹیکن پوپ لیو سے غزہ کا دورہ کرنے اور جنگ سے متاثرہ بچوں کے لیے امدادی راستے کھلوانے کے لیے کردار ادا کرنے اپیل کی ہے۔
موسیقی کی دنیا کی 66 سالہ اسٹار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" (سابقہ ٹوئٹر) پر جذباتی پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ آپ ہمارے درمیان وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں کوئی غزہ جانے سے روک نہیں سکتا۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ ہمیں اب مکمل طور پر انسانی امداد کے دروازے کھلوانے ہوں گے تاکہ غزہ کے معصوم بچوں کو بچا سکیں۔ اب ہمارے پاس وقت نہیں بچا ہے۔
امریکی گلوکارہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اپنے بیٹے روکّو رچی کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر غزہ میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں کو عطیات دیں گی۔
Politics Cannot affect Change.
Only consciousness Can. Therefore I am Reaching out to a Man of God.
Today is my Son Rocco’s birthday.
I feel the best gift I can give to him as a Mother - is to ask everyone to do what they can to help save the innocent children caught in the… pic.twitter.com/y2B3BsXAMt — Madonna (@Madonna) August 11, 2025
انھوں نے مزید لکھا کہ بطور ماں، میرے لیے یہ سب سے خوبصورت تحفہ ہوگا کہ میں دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کروں کہ وہ غزہ کے بچوں کی مدد کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کردار ادا کریں۔
میڈونا کے اس پیغام پر عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ڈائریکٹر جنرل نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت اور امن کی بات کرنا آج کے دور میں بہت ضروری ہے۔ میڈونا، آپ کی ہمدردی اور متاثرہ بچوں کے ساتھ یکجہتی بہت معنی رکھتی ہے۔
میڈونا کی اس اپیل پر موجودہ پوپ لیو کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم انھوں نے متعدد بار اپیل کی ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کو یقینی بنانے اور طاقت کے استعمال گریز کیا جائے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بچوں کی جسمانی تربیت کو محفوظ کیسے بنائیں
بچوں کی نشوونما کے لیے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں۔ یہ مضبوط ہڈیوں اور پٹھوں کی تعمیر میں مدد کرتی ہیں،قلبی صحت کو بہتر بناتی ہیں۔جسمانی سرگرمی بچوں میں خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے یہ تناؤ اور اضطراب کے لیے ایک قدرتی راستہ ہے اس کے علاوہ جذباتی بہبود کو فروغ دیتی ہے۔
ایک ہی عمر کے بچوں کی مہارتیں اور ذہنی پختگی مختلف ہو سکتی ہیں۔ عام طور پر، وہ بچے اور نو عمر لڑکے لڑکیاں جو کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوں، وہ کسی نہ کسی قسم کی ورزش شروع کر سکتے ہیں۔ چھوٹے بچے وزن کے بغیر جسمانی وزن پر مبنی ورزشیں، جیسے کہ چھلانگیں لگانا، شروع کر سکتے ہیں۔
بچوں کے لیے جسمانی سرگرمیوں کی تربیت محفوظ ہے یا نہیں؟
بچوں کا طاقت بڑھانے کا پروگرام بڑوں کی ورزش کا چھوٹا ورژن نہیں ہونا چاہیے۔ بچوں کو درست طریقہ سیکھنا چاہیے، ان کی نگرانی کی جانی چاہیے، ان کے لیے مناسب سائز کے آلات ہونے چاہئیں، اور انہیں یہ سکھانا چاہیے کہ آلات کو محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے۔
اسکولوں، جم اور ویٹ رومز میں کام کرنے والے ٹرینرز تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور انھیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کس فورس کو کیسے استعمال کرنا ہے، مگر کوشش کریں کہ ایسا ماہر ملے جس کے پاس بچوں اور نو عمر افراد کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ اور باقاعدہ سرٹیفیکیشن ہو۔
اگر درست طریقے سے بچوں کو ورزش یعنی طاقت کی تربیت دی جائے تو وہ محفوظ ہوسکتی ہے اور بڑھتی ہڈیوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ اپنے بچے کو طاقت کی تربیت شروع کروانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ اگر بچے کو کچھ خاص طبی مسائل ہوں جیسے کہ قابو سے باہر ہائی بلڈ پریشر، مرگی،دل کی بیماریاں یا دیگر مسائل تو ڈاکٹر کی اجازت ضروری ہے۔
تربیت کے دوران حفاظت کے نکات:
بچوں کو قریبی نگرانی میں اور درست تکنیک کے ساتھ ورزش کروائی جائے۔
ویٹ یا کیٹل بیل اٹھانے سے پہلے بغیر وزن کے مشقیں کر کے تکنیک سیکھنی چاہیے۔
جب بچہ کسی مشق کو صحیح طریقے کے ساتھ آرام سے 8–12 بار کر سکے، تو وزن اٹھانے کے اوزار آہستہ آہستہ شامل کیے جا سکتے ہیں۔
بچوں کو بڑوں کے لیے بنے آلات ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔
زیادہ تر چوٹیں اس وقت ہوتی ہیں جب بچہ مذاق یا کھیل تماشے میں لگا ہو یا اس کی نگرانی نہ ہو۔ سب سے عام چوٹ پٹھوں کے کھچاؤ کی ہوتی ہے۔
طاقت بڑھانے کے لیے بچوں اور نو عمر افراد کو ہلکے وزن یا کم مزاحمت سے شروع کرنا چاہیے اور ایک یا دو سیٹ میں 8–12 بار ورزش کرنی چاہیے، نہ کہ بھاری وزن تھوڑے وقفوں کے ساتھ اٹھانا۔وزن بچے کی عمر، قد، تکنیک، تجربے اور جسمانی طاقت پر منحصر ہونا چاہیے۔اگر کوئی بچہ کسی وزن کو صحیح طریقے سے آٹھ بار نہیں اٹھا سکتا، تو وہ وزن اس کے لیے بہت زیادہ ہے۔
ایسے پروگرام منتخب کریں جہاں انسٹرکٹر بچوں پر مکمل توجہ دے سکے۔ چھوٹے بچوں کو زیادہ توجہ درکار ہوگی جبکہ تجربہ کار نوجوان کھلاڑی نسبتاً خود مختار ہو سکتے ہیں۔