کن سیاسی رہنماؤں نے اے این پی کی اے پی سی کے اعلامیے پر دستخط نہیں کیے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
ایمل کانسی—فائل فوٹو
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اعلامیے پر کئی سیاسی رہنماؤں نے دستخط نہیں کیے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی، وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری اور پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی زیرِ صدارت ہونے والے آل پارٹیز کانفرنس کا جب اعلامیہ پڑھا جا رہا تھا تو تینوں رہنما اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ جی ڈے اے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے قاٸدین کو بھی مدعو کیا تھا، 19 سیاسی جماعتوں کے قائدین آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوئے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ ہمارے نہیں آپ کے مطالبات اور آپ کا مؤقف ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی زیرِ صدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، پیکا ایکٹ جیسے قوانین ختم کیے جائیں، مولانا خانزیب کی شہادت پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
ایمل ولی نے سیلابی صورتِحال کے تناظر میں 23 تاریخ کا امن مارچ مؤخر کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اے این پی
پڑھیں:
میرجمہوریت، غوث بخش بزنجو
72 سالہ زندگی میں سے 25 سال اذیت خانوں اور پاکستان کی مختلف جیلوں میں عوامی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے لیے صعوبتیں برداشت کرنے والے میر غوث بخش بزنجو دسمبر 1917میں کوئٹہ سے 300 کلومیٹر دور ریاست قلات کے کچے گھروں اور جھونپڑیوں والے گاؤں شانک، ضلع آواران میں میر سفر خان کے گھر اور ماں در بی بی کی گود میں پیدا ہوئے۔
یہ ایک تاریخی دور تھا جب دنیا کے نقشے پر سوویت یونین میں مزدوروں کی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سامراج سے آزادی کی قومی تحریکیں مظلوم اور محکوم عوام کو متاثر کر رہی تھیں۔ میر غوث بخش ابھی دودھ پیتے بچے ہی تھے کہ طاعون کی وبا پھیلی، جس کے باعث ان کا خاندان ضلع خضدار منتقل ہوگیا اور باقی عمر وہیں گزارنے کے بعد وہیں مٹی کے سپرد ہوئے۔
بزنجو لفظ ’’بِیزَن‘‘ سے نکلا ہے جو فردوسی کی کتاب شاہنامہ کے مشہور داستانی ہیرو کا نام ہے۔ یہ صرف نام نہیں بلکہ ایک خطاب تھا جو میر صاحب کے کسی دادا کو ملا تھا اور یوں یہ پورے قبیلے پر لاگو ہوگیا۔ میر غوث بخش کے دادا سردار فقیر محمد بزنجو 1839 میں محراب خان کی حکومت میں مکران کے گورنر تھے۔
میر بزنجو کی عمر ابھی ایک سال ہی تھی کہ ان کے والد میر سفر خان کا انتقال ہوگیا۔ ماں کے سوا کوئی سہارا نہ تھا۔ اس یتیم کی جائیداد پر لالچی اور مکار لوگ قبضہ کرنے لگے یہاں تک کہ وہ نوبت آگئی کہ میر دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے، لیکن ماں در بی بی نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل جدوجہد کر کے ان لٹیروں سے جائیداد واپس لینے کی کوشش کرتی رہیں۔
چھوٹی عمر ہی میں میر نے اپنے وطن میں غلامی کا راج دیکھا۔ شادی کے موقع پر دلہن کو جہیز کے ساتھ غلام اور باندی دینا عام تھا۔ غلام رکھنا، بیچنا اور تحفے میں دینا ایک رواج تھا۔ غلامی اپنی کلاسیکی شکل میں موجود تھی۔ آقا اور غلام کے ساتھ ساتھ ہاری اور زمیندار کا نظام بھی موجود تھا۔
ہاری نیم غلامی کی زندگی گزارتے، زمیندار ان کی محنت کا زیادہ تر حصہ ہڑپ کر جاتے اور ہاری ہمیشہ مقروض رہتے۔ 1922کے قریب انگریز حکومت کے پولیٹیکل ایجنٹ کرنل کیس اور بلوچستان میں مشنری تحریک کے رہنما ڈاکٹر ہنری ہالینڈ غلامی کے خاتمے کے لیے آئے۔
کرنل کیس مکران جاتے ہوئے جھاؤ سے گزرے تو ماں در بی بی نے ننھے غوثی کو سامنے پیش کیا اور ان کی قبضہ شدہ زمین اور جائیداد کے بارے میں بتایا۔ کرنل کیس نے عدالت قائم کر کے زمین عدالت کے قبضے میں لے لی، یوں اس یتیم بچے کی جائیداد بچ گئی اور غلامی کا انسان دشمن قانون بھی ختم ہوا۔
کرنل کیس نے حکم دیا کہ زمین کی آمدنی بچے اور اس کے خاندان پر خرچ کی جائے اور غوثی کے خاندان کو کوئٹہ منتقل کر دیا۔ سردار اکبر بگٹی اور سردار خیر بخش مری کی جائیداد بھی اسی عدالت میں تھی۔ میر بزنجو کو سینڈمین اسکول میں داخل کیا گیا جہاں انھوں نے فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔
ساتویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے وہ ایشیا کی بہترین ٹیم ’’سینڈمین ٹیم‘‘ کے رکن بن گئے۔ 1935 میں کوئٹہ میں خطرناک زلزلہ آیا جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، اجتماعی قبریں کھودنی پڑیں۔ اس صورتحال میں میر کا خاندان کراچی منتقل ہوا اور میر غوث بخش نے سندھ مدرسہ میں داخلہ لیا۔
بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی گئے جہاں میٹرک مکمل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا جاگیرداری سے نکل کر صنعتی دور میں داخل ہو رہی تھی اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔ اس وقت میر بزنجو بھی آزادی کی ان تحریکوں سے متاثر ہوئے۔
1937میں انھوں نے کانگریس اور پھر کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بلوچستان میں سرگرم ہوئے۔ قادر بخش نظامانی، امین کھوسو اور میر محمد حسین عنقا جیسے رہنماؤں سے تعلق قائم ہوا۔ 1939 میں قلات نیشنل پارٹی کے کنونشن میں بطور بلوچ لیگ کے نمایندے شریک ہوئے۔
نیشنل پارٹی میں شمولیت ان کی سیاست کا اہم قدم تھی، لیکن 6 جولائی 1939 کو ان پر حملہ کیا گیا، بعد ازاں پارٹی پر پابندی لگا دی گئی، رہنماؤں کو گرفتار کر کے جلا وطن کیا گیا، گھروں کو جلایا گیا اور کھیت اجاڑ دیے گئے۔
آزاد ہونے کے بعد انھوں نے بلوچستان کے مختلف حصوں میں لوگوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا، لیکن 1940 کے اوائل میں قلات نیشنل پارٹی پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پارٹی پر سے پابندی ہٹی تو انھوں نے دوبارہ سرگرمیاں شروع کیں۔ 1941میں انھوں نے پارٹی کو آل انڈیا اسٹیٹس پیپلز کانفرنس میں شامل کرایا اور نہرو، شیخ عبداللہ اور دیگر بڑے رہنماؤں سے ملے۔
1947 میں گول میز کانفرنس میں قلات کی نمایندگی خان احمد یار خان نے کی اور پاکستان نے قلات کی آزاد حیثیت تسلیم کی، لیکن 27 مارچ 1948 کو قلات پاکستان میں ضم کر دیا گیا اور میر بزنجو کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند اور اذیت خانوں میں گزرا۔ انھوں نے کمیونسٹ پارٹی، استمان گل، نیشنل عوامی پارٹی، این ڈی پی اور پاکستان نیشنل پارٹی جیسے پلیٹ فارمز سے جدوجہد جاری رکھی۔
1973میں بلوچستان کے گورنر بنے، بلوچستان یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی، مگر بعد میں حکومت ختم کر دی گئی اورآپریشن شروع کیا گیا۔
زندگی کے آخری ایام تک وہ پاکستان نیشنل پارٹی کے صدر رہے اور ایم آر ڈی تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اگست 1989 میں ان کا انتقال ہوا اور انھیں ان کے آبائی گاؤں نال میں دفنایا گیا۔