پختونوں کی سرزمین پر ڈالری جنگ مسلط کرکے امن و امان کو داو پر لگادیا گیا ہے، عبد الواسع
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
صوبائی امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سیکیورٹی ادارے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی پوزیشن واضح کریں، سانحہ تیراہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں، ذمہ داران کو سزا دی جائے اور متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا وسطی کے امیر عبدالواسع نے گزشتہ رات کی تاریکی میں ضلع خیبر کے علاقہ تیراہ میں معصوم بچوں، خواتین اور بے گناہ شہریوں کی شہادت پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ تیراہ پر سیکیورٹی ادارے، وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی پوزیشن واضح کریں اور اس سفاکانہ حملوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کو سزا دی جائے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر مرکز اسلامی پشاور سے جاری کئے گئے بیان میں امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا وسطی عبدالواسع نے کہا ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا بدترین بدامنی اور مسلسل ملٹری آپریشنوں کی زد میں ہے اور صوبے کے عوام پر عرصہ دراز سے ڈالری جنگ مسلط ہے، جس سے صوبہ بھر میں بدترین بدامنی کا راج ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ خیبرپختونخوا کی عوام کب تک اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحصیل تیراہ میں گزشتہ رات 23 معصوم افراد، جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں، شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ یہ ظلم و بربریت، انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف وفاقی حکومت اس واقعے کو دہشت گردوں سے جوڑ کر سانحہ میں شہید ہونے والے افراد کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت نے سانحہ تیراہ میں شہید ہونے والے افراد کے لئے فی کس ایک کروڑ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ادارے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی پوزیشن واضح کریں، سانحہ تیراہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں، ذمہ داران کو سزا دی جائے اور متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف فراہم کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی سانحہ تیراہ نے کہا
پڑھیں:
خیبر پختونخوا حکومت کا 9 مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے 9 اور 10 مئی 2023ء کے پشاور فسادات، احتجاج اور سرکاری املاک کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی جامع تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس کمیشن کی سربراہی ایک سابق سینئر بیوروکریٹ کو سونپی جائے گی تاکہ تحقیقات غیرجانبدار اور شفاف انداز میں مکمل کی جا سکیں۔ حکومتی ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد اُن تمام عوامل کو بے نقاب کرنا ہے جن کے باعث یہ واقعات رونما ہوئے اور ان میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرانا ہے۔
صوبائی حکومت نے اس سے قبل بھی پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل انکوائری کے لیے خط لکھا تھا، مگر وہ عمل کسی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اب حکومت نے متبادل طور پر ایک نیا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شواہد، گواہیوں اور ذمہ داران کی نشاندہی کے عمل میں تاخیر نہ ہو۔
اس سلسلے میں جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق یہ کمیشن واقعے کے ہر پہلو کا جائزہ لے گا، جن میں ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو جلانے، عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والی بدامنی کے اسباب شامل ہوں گے۔
اس فیصلے کی باضابطہ منظوری صوبائی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں دی جائے گی، جس کے بعد کمیشن کی تشکیل سے متعلق اعلامیہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی پیش کیا جائے گا تاکہ اسے قانونی حیثیت حاصل ہو جائے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امن و انصاف کے قیام کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ اس کے ذریعے صوبے میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس سفارشات تیار کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے 12 نومبر کو منعقد ہونے والے امن جرگہ کے فیصلوں کو بھی قانونی تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امن جرگے میں مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے صوبے میں استحکام اور پرامن سیاسی عمل کے فروغ کے لیے تجاویز پیش کی تھیں، جنہیں اب عملی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔