میں اپنے ملک کو نہیں پہچان پارہی’، انجلینا جولی نے ایسا کیوں کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے کہا ہےکہ وہ اپنے ملک سے محبت کرتی ہیں تاہم اس وقت وہ اپنے ملک امریکا کو پہچان نہیں پارہی ہیں۔
اسپین میں منعقد ہونے والے سین سیبسٹن فلم فیسٹیول کے دوران جب ہوسٹ نے انجلینا جولی سے سوال کیا کہ ایک اداکارہ اور ایک امریکی کی حیثیت سے آپ کو کس چیز سے خوف آتا ہے؟ اس پر انجلینا جولی نے کہا یہ بہت مشکل سوال ہے۔
انجلینا جولی کا کہنا تھا کہ میں اپنے ملک سے پیار کرتی ہیں مگر اس وقت میں اسے نہیں پہچان پارہی، میرا عالمی نظریہ مساوی، متحد اور بین الاقوامی ہے۔
“I love my country, but at this time, I don’t recognize my country.
— Angelina Joliepic.twitter.com/Xz6lBqrbee
— ❂ Yübbîę Umoh ❂ (@Yubbie007) September 22, 2025
آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ نے مزید کہا کہ کوئی بھی چیز جو تقسیم کرتی ہے یا آزادی اظہار رائے کو محدود کرتی ہے تو یہ بہت خطرناک ہے اور بہت بھاری ہے۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انجلینا جولی اپنے ملک
پڑھیں:
امریکا، برطانیہ: عالمی سیاست کا رخ متعین کرتی ملاقات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250923-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی حالیہ ملاقات نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ دورہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کی علامت ہے بلکہ موجودہ عالمی بحرانوں کے تناظر میں بڑی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی کی اشد ضرورت کو بھی واضح کرتا ہے۔ دفاعی و ترویراتی شراکت داری کے معاہدوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ اپنی باہمی تجارت و صنعت کو نئی جہتوں سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی پروسپرٹی ڈیل (TPD) میں شامل کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت اور ایٹمی توانائی جیسے حساس شعبے اس بات کا اظہار ہیں کہ مستقبل کی معیشت اور سلامتی انہی عناصر پر استوار ہوگی۔ برطانیہ کی دفاعی خریداری میں 80 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور امریکا میں برطانوی کمپنیوں کے 30 بلین ڈالر کے منصوبے صرف معاشی تعاون نہیں بلکہ اسٹرٹیجک اعتماد کی علامت بھی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدے صرف برطانیہ اور امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یورپی منڈیوں اور ناٹو کے دفاعی ڈھانچے پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوں گے۔
عالمی تنازعات پر دونوں رہنماؤں کے بیانات بظاہر امن و استحکام کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں، مگر عملی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ یوکرین میں جنگ کے طول پکڑنے سے یہ واضح ہے کہ مغربی طاقتیں درپردہ عسکری دباؤ کو ترجیح دیتی ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے متعدد حلقے اس پرامن تصفیے کے لیے مذاکراتی راہ ہموار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اسی طرح غزہ میں انسانی بحران پر امریکا اور برطانیہ کی محدود سفارت کاری نے عالمی سطح پر ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا کہ محض ’’تحمل کی اپیل‘‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس تناظر میں دونوں ممالک کی پالیسیوں کو دوہرے معیار کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ چا بہار بندرگاہ کے مسئلے پر ایران پر پابندیوں کی تجدید نے خطے میں طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارتی ماہرین معیشت کے مطابق اس اقدام سے بھارت کی وسطی ایشیا اور یورپ سے تجارتی روابط متاثر ہوں گے۔ پاکستان اور چین کے لیے یہ صورتحال ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ گوادر پورٹ اور سی پیک کے منصوبوں کو زیادہ پرکشش اور فعال بنا کر خطے میں اپنی اقتصادی پوزیشن مستحکم کریں۔ ماہرین کے نزدیک خطے کی جغرافیائی سیاست اب دو دھڑوں میں بٹتی جا رہی ہے، جہاں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری طرف چین، روس اور ایران جیسے ممالک ایک نئے تجارتی و عسکری بلاک کی تشکیل میں مصروف ہیں۔
برطانیہ کے اندرونی حالات بھی اس ملاقات کے پس منظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ برطانوی عوام کا ایک بڑا طبقہ امریکی پالیسیوں سے ناخوش ہے۔ امیگریشن، موسمیاتی تبدیلی اور اسرائیل نواز رویہ ایسے نکات ہیں جن پر عوامی دباؤ اسٹارمر حکومت کو محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایپسٹین اسکینڈل جیسے پرانے تنازعات کا دوبارہ موضوع بحث بننا اس ملاقات کے تاثر کو مزید متنازع بنا گیا ہے۔ مستقبل کے امکانات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکا برطانیہ کی بڑھتی ہوئی قربت عالمی فورمز جیسے ناٹو، جی 7 اور جی 20 میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ یہ اتحاد چین کی بڑھتی ہوئی معیشت اور روس کے عسکری دباؤ کے مقابلے میں ایک مضبوط مغربی بلاک کے طور پر سامنے آئے گا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ بلاک حقیقی طور پر عالمی امن، انصاف اور پائیدار ترقی کے تقاضوں کو پورا کرے گا یا محض طاقت کے توازن کی روایتی کشمکش کو مزید شدت دے گا۔
یوں ٹرمپ اور اسٹارمر کی ملاقات بظاہر سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کی گئی ہے، لیکن اصل امتحان اس وقت ہوگا جب یہ معاہدے زمینی حقائق میں ڈھلیں گے۔ اگر امریکا اور برطانیہ عالمی برادری میں اپنی ساکھ کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یوکرین، غزہ اور دیگر تنازعات میں غیر جانب دارانہ اور عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ بصورت دیگر یہ ملاقات ایک عارضی مظاہرہ ہی ثابت ہوگی، جو تاریخ کے اوراق میں محض ایک رسمی صفحہ بن کر رہ جائے گی۔ لہٰذا ٹرمپ اور کیئر اسٹارمر کی ملاقات محض دو طاقتور ممالک کی رسمی گفت و شنید نہیں بلکہ اس نے عالمی سیاست کی نئی ترجیحات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ معاشی تعاون، دفاعی شراکت داری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معاہدے اگر اپنی عملی صورت اختیار کر جائیں تو یہ عالمی معیشت اور سیکورٹی پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ معاہدے صرف بیانات اور اعداد وشمار تک محدود رہیں تو ان کی حیثیت وقتی سیاسی مظاہرے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ یوکرین، غزہ اور مشرق وسطیٰ جیسے بحرانوں میں امریکا اور برطانیہ کا رویہ اصل پیمانہ ہوگا جس سے دنیا فیصلہ کرے گی کہ آیا یہ شراکت عالمی امن کے لیے ہے یا صرف طاقت کے توازن اور معاشی مفادات کے لیے۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے فیصلے صرف اپنے مفادات تک محدود رہیں تو ان کے نتائج دیرپا نہیں ہوتے۔ اگر ٹرمپ اور اسٹارمر واقعی ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں طاقت کی سیاست سے آگے بڑھ کر انصاف، انسانیت اور عالمی امن کو اپنی پالیسیوں کا مرکز بنانا ہوگا، ورنہ یہ ملاقات بھی ماضی کی سفارتی تقریبات کی طرح تاریخ کے ہنگامہ خیز دھارے میں گم ہو جائے گی۔