Express News:
2025-11-18@22:41:24 GMT

سروائیکل کینسر

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

سروائیکل کینسر دنیا بھر میں خواتین کی صحت کے لیے ایک نمایاں خطرہ ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں اس کی شرح اموات تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً 6 لاکھ نئی خواتین اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں اور 3 لاکھ سے زائد اس کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

ان اموات میں سے 90% سے زیادہ کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں، جو صحت کے شعبے میں عالمی عدم مساوات کی عکاس ہیں۔ پاکستان میں، سروائیکل کینسر خواتین میں کینسر کی دوسری سب سے عام قسم ہے، جہاں ہر سال تقریباً 5,000 نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور 2,000 سے 2,500 خواتین اس موذی مرض کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتی ہیں۔ یہ اعدادوشمار نہ صرف اس مرض کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس کی روک تھام اور علاج کی فوری ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔

ایچ پی وی ویکسین، سائنسی ترقی کی کام یابی

سروائیکل کینسر کی بنیادی وجہ ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) ہے، جو ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔ یہ وائرس تقریباً تمام سروائیکل کینسر کے کیسز کا ذمے دار ہے۔ HPV ویکسینیشن اس مرض کی روک تھام کا سب سے مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ یہ ویکسین HPV کے ان مخصوص تناؤ کے خلاف حفاظت فراہم کرتی ہے جو سروائیکل کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی 2030 کی 'Cervical Cancer Elimination Strategy' کے تین ستون ہیں: 90% لڑکیوں کی ویکسینیشن، 90% خواتین کی اسکریننگ، اور 90% مریضوں کو علاج تک رسائی۔ پاکستان نے 2025 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی ایمونائزیشن پروگرام میں شامل کیا ہے، اور اس طرح یہ دنیا کا 151 واں ملک بن گیا ہے جو اس تاریخی قدم کو اٹھانے میں کام یاب ہوا ہے۔

ویکسین کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ

ویکسینیشن کے حوالے سے عوامی اعتماد ایک بڑا چیلینج ہے۔ پاکستان میں، پولیو کے خلاف مہم کے دوران پھیلائی گئی افواہوں نے عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ HPV ویکسین کے حوالے سے بھی ایسی ہی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جیسے کہ یہ ویکسین بانجھ پن کا سبب بنتی ہے یا یہ ایک مغربی سازش ہے۔ حقیقت میں، دو دہائیوں کی سائنسی تحقیق اور کروڑوں خواتین کے ویکسین لگوانے کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ HPV ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے۔ عالمی ادارہ صحت، سی ڈی سی امریکا، یورپی میڈیسن ایجنسی اور دیگر معتبر ادارے اس ویکسین کی حفاظت کی تصدیق کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، معمولی اور وقتی اثرات جیسے بخار یا انجیکشن کی جگہ پر درد کے سوا کوئی بڑا نقصان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان میں سروائیکل کینسر کی صورت حال، اعداد و شمار کی عکاسی

عالمی سطح پر پاکستان میں

سالانہ نئے کیسز 6 لاکھ 5,000+

سالانہ اموات 3 لاکھ+ 2,000-2,500

ویکسین کوریج 150+ ممالک 2025 میں قومی مہم کا آغاز

اسکریننگ کی سہولیات شہری اور دیہی علاقوں میں محدود شہری مراکز تک محدود

ماخذ: عالمی ادارہ صحت اور دیگر مطالعات، اسکریننگ اور تشخیص: بروقت عمل کی اہمیت

سروائیکل کینسر کی روک تھام صرف ویکسین تک محدود نہیں ہے۔ اسکریننگ کا عمل بھی ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ پیپ سمیر ٹیسٹ اور HPV ٹیسٹ سروائیکل کینسر کی ابتدائی تشخیص کے لیے انتہائی مؤثر ہیں۔ پیپ سمیر ٹیسٹ کے دوران، صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والا گریوا کے خلیات جمع کرتا ہے تاکہ کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کا پتا لگایا جا سکے۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں یہ سہولیات زیادہ تر شہری علاقوں تک محدود ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین شرم، لاعلمی یا وسائل کی کمی کی وجہ سے اسکریننگ نہیں کرواتیں۔ ایسے میں، VIA (ویژول انسپیکشن با ایسیٹک ایسڈ) اور تھرمل ایبلیشن جیسے طریقے کم وسائل والے ممالک کے لیے موزوں ہیں، جنہیں عالمی ادارہ صحت نے بھی تسلیم کیا ہے۔

علاج کے اختیارات، ابتدائی تشخیص کی صورت میں

اگر سروائیکل کینسر کا بروقت پتہ چل جائے، تو اس کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ سرجری، ریڈی ایشن تھراپی، اور کیموتھراپی علاج کے اہم اختیارات ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں، کریوسرجری، لیزر سرجری، یا کنائزیشن جیسے طریقوں سے ٹیومر کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ advanced مرحلے میں، زیادہ پیچیدہ سرجری کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جلد تشخیص ہونے پر سروائیکل کینسر کے علاج کے نتائج نہایت مثالی ہوتے ہیں اور مکمل صحت یابی کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں۔

عالمی کام یابیاں، روشن مثالیں

دنیا کے کئی ممالک نے HPV ویکسینیشن اور اسکریننگ کے ذریعے سروائیکل کینسر کے خلاف جنگ میں قابل رشک کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ آسٹریلیا، برطانیہ، اور کینیڈا جیسے ممالک میں اس مرض کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ آسٹریلیا کو توقع ہے کہ وہ 2035 تک دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا جہاں سروائیکل کینسر عملاً ختم ہوجائے گا۔ یہ کامیابیاں پاکستان کے لیے ایک نمونہ ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ اگر ویکسینیشن اور اسکریننگ دونوں پر یکساں توجہ دی جائے تو اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے چیلینجز اور ممکنہ حل

پاکستان کو سروائیکل کینسر کے خلاف جنگ میں متعدد چیلینجز درپیش ہیں۔ عوامی اعتماد کی کمی، وسائل کی قلت، اور دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات تک ناکافی رسائی اس میں شامل ہیں۔ عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے، ضروری ہے کہ مذہبی علما، سماجی راہ نما، اسکول اساتذہ، اور مقامی صحت کارکنوں کو اس مہم میں شامل کیا جائے۔ وسائل کے معاملے میں، عالمی ادارے جیسے Gavi پاکستان کی معاونت کر رہے ہیں، لیکن مستقل حل کے لیے حکومت کو اسے اپنے مستقل پروگرام میں شامل کرنا ہوگا۔ دیہی علاقوں میں اسکریننگ کی سہولیات کو بہتر بنانے اور عوامی آگاہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔

مستقبل کے امکانات، ایک روشن مستقبل کی جانب

طبی تحقیق میں مسلسل ترقی کے ساتھ، سروائیکل کینسر کے خلاف جنگ کے نتائج روشن ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہے کہ اب تحقیق ثابت کر رہی ہے کہ ویکسین کی ایک خوراک بھی دو خوراکوں کے برابر مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر یہ گائیڈ لائنز عالمی سطح پر منظور ہو جاتی ہیں، تو پاکستان جیسے ممالک کے لیے ویکسینیشن مہم چلانا مزید آسان ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ، ویکسینیشن اور اسکریننگ دونوں پر یکساں توجہ دے کر، پاکستان آئندہ 15-20 سال میں سروائیکل کینسر کے کیسز کو نصف سے بھی کم کر سکتا ہے، جس سے ہزاروں جانیں بچائی جا سکیں گی۔

احتیاطی تدابیر، روک تھام ہی بہترین علاج

سروائیکل کینسر سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں شامل ہیں:

٭  ایچ پی وی ویکسین حاصل کریں: یہ ویکسین 9 سے 14 سال کی لڑکیوں کے لیے انتہائی مؤثر ہے۔

٭  باقاعدہ اسکریننگ کروائیں: 21 سال کی عمر کے بعد ہر 3 سال بعد پیپ سمیر ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

٭  محفوظ جنسی عمل کریں: پروٹیکشن کا استعمال HPV کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

٭  تمباکو نوشی سے پرہیز کریں: تمباکو نوشی مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہے، جس سے HPV انفیکشن کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے۔

٭  صحت مند طرز زندگی اپنائیں: متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، اور حفظان صحت کی اچھی عادات اپنا کر مدافعتی نظام کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

خواتین کی صحت، معاشرتی ذمے داری

سروائیکل کینسر کے خلاف جنگ صرف ایک طبی معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ خواتین کے وقار، مساوات اور حق زندگی کی ضمانت ہے۔ ایک صحت مند عورت ہی صحت مند خاندان اور بالآخر صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ اس مہم کو سیاست، وسائل کی کمی، اور پروپیگنڈے کی نذر ہونے سے بچانا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ سچائی، شفافیت، اور مستقل آگاہی کے ذریعے ہی اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

امید کی کرن

سروائیکل کینسر ایک قابل روک تھام اور قابل علاج بیماری ہے، بشرطے کہ اس کی بروقت تشخیص اور مناسب علاج کرایا جائے۔ پاکستان نے اس کے خلاف جنگ میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے HPV ویکسین کو قومی پروگرام میں شامل کیا ہے۔ اگر اس مہم کو تسلسل، شفافیت، اور عوامی مشارکت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، تو آنے والی نسلیں اس موذی مرض کے خوف سے آزاد ہو سکتی ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ناصرف ایک صحت عامہ کی کامیابی ہوگی، بلکہ عالمی برادری میں ایک مثالی مثال قائم کرنے کا بھی ایک موقع ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سروائیکل کینسر کے خلاف جنگ سروائیکل کینسر کی دیہی علاقوں میں عالمی ادارہ صحت عوامی اعتماد پاکستان میں جا سکتا ہے HPV ویکسین روک تھام عوامی ا صحت کی اور اس کے لیے

پڑھیں:

بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، جنگ مسلط کرنے والوں کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جیسا مئی میں دیا۔ وفاقی دارالحکومت میں اردن کے شاہ دوم کے ظہرانے کے موقع پر ایوان صدر میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے غزوہ احد سے متعلق بات کرتے ہوئے قرآنی آیات کا حوالہ دیا اورکہا کہ مسلمان جب اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ دشمن پر پھینکی مٹی کو بھی میزائل بنا دیتا ہے، بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ پاکستان نے اپنے دشمن کو دھول چٹائی ہے۔

 پاکستان کے ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو نشانِ امتیاز عطا کیے جانے کی تقریب بظاہر ایک سفارتی روایت تھی، لیکن اس موقع پرآرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکے خیالات نے اسے ایک نئی معنویت عطا کی۔ ان کے الفاظ نہ صرف پاکستان کی عسکری سوچ کا اظہار ہیں بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا اور ہمارے قومی اعتماد کا اشاریہ بھی ہیں۔

جب وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو جواب اسی انداز میں دیا جائے گا جیسا کہ مئی میں دیا گیا، تو یہ بیان دراصل دشمن کے لیے پیغام اور عوام کے لیے یقین دہانی دونوں رکھتا ہے۔ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی نزاکت ایسی ہے کہ ہر لفظ کے اثرات سفارتی سرحدوں سے پار جاتے ہیں اور ہر بیان عالمی فضا میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔

آج جب ہم خطے کی تزویراتی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی بھی سادہ نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک مستقل رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ سرحدوں پرکشیدگی، سیاسی بیانات، جارحانہ پالیسیاں اور پراپیگنڈا جنگیں ہمیشہ سے تعلقات کو پیچیدہ بناتی رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستانی قیادت کا یہ کہنا کہ بھارت کی جارحیت کا جواب دیا گیا اور آیندہ بھی دیا جائے گا، یہ صرف عسکری پالیسی کا اعلان نہیں بلکہ سیاسی ترجیحات کی نشاندہی بھی ہے۔

وہ مئی جس کا آرمی چیف نے ذکرکیا، اس میں جوکچھ ہوا، وہ خطے کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اگرچہ عسکری کارروائیوں کی تفصیلات عمومی طور پر منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دفاعی سطح پر اپنی صلاحیت دکھائی اور دشمن کو جواب دیا۔

 لیکن اس موقع پر ایک اہم پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے جنگ سے گریز کی اپنی دیرینہ پالیسی کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشتیں جنگ سے کمزور ہوتی ہیں، معاشرے بکھرتے ہیں اور قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کبھی کمزور ثابت نہیں ہوئی۔

دوسری جانب حالیہ دنوں میں جب افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے گئے، تو اس نے نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا۔ پاکستانی قیادت کے مطابق یہ حملے محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہری بھارتی سازش کا نتیجہ ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور افغان سرزمین کو بھارت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پراکسی وارکا حامی رہا ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں تخریب کاری ہو، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی یا افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ، بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ہمیشہ ایسے عناصر کو سہارا دیا جو پاکستان کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہے۔

اب جب کہ بھارت کو خطے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا محاذ درکار تھا، تو اس نے افغان طالبان حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے افغان حکام کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان عالمی تنہائی کا شکار ہے، لہٰذا پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔

سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لے کر طالبان کے اقتدار کے خاتمے تک، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کے لیے تعلیمی، طبی اور معاشی سہولیات فراہم کیں۔ آج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے ہر عالمی فورم پر افغانستان کے حق میں آواز بلند کی۔ چاہے طالبان حکومت کی بحالی کی بات ہو یا افغانستان کی تعمیرِ نو، پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک کی مدد کو اپنا اخلاقی اور انسانی فریضہ سمجھا، لیکن افسوس کہ آج وہی افغانستان پاکستان کے احسانات کو بھول کر دشمن کی زبان بول رہا ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیمیں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اور افغان حکومت انھیں روکنے کے بجائے نظر انداز کر رہی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے جو برادر ملک سے ہرگز متوقع نہ تھی۔ افغان طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے تسلیم کیے جانے کے لیے پاکستان کی حمایت چاہتی ہے، لیکن دوسری طرف وہ پاکستان مخالف گروہوں کو خاموشی سے سہارا دے رہی ہے۔

طالبان قیادت جانتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ان کا معاشی اور سفارتی وجود ممکن نہیں، مگر اس کے باوجود وہ داخلی دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اپنے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بیرونی دباؤ میں نہیں ہیں، لہٰذا وہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر اپنی داخلی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف افغانستان کے مفاد کے خلاف ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

 یہ صورتحال خطے کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے، مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے جو ایک طرف افغانستان کو اشتعال دلا رہا ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان حقیقت پسندانہ سوچ اپنائے، اگر افغان طالبان واقعی اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں، تو انھیں بھارت کی چالوں کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ آج کا افغانستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کا آلہ کار بننا چاہتا ہے یا ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اپنے برادر ہمسائے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔

افغانستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی چالوں سے ہوشیار رہے کیونکہ بھارت کبھی افغانستان کا خیر خواہ نہیں رہا، اس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، اگر افغانستان نے پاکستان کے احسانات کو بھلا کر دشمن کے ایجنڈے پر چلنا جاری رکھا تو نقصان اسی کا ہوگا، کیونکہ پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے عوام، اور اپنے وقار کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔افغان طالبان رجیم اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس امرکو ظاہرکرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے پاکستان مخالف عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا، خصوصاً ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت دریائے کنڑ پر بھارتی تعاون سے ڈیم تعمیرکرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور مختلف ڈیموں جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری برتری کا سوال ہمیشہ سے میڈیا اور عوامی مباحث میں چھایا رہتا ہے۔ بھارت دفاعی بجٹ میں خطے کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جب کہ پاکستان محدود وسائل کے باوجود ایک مؤثر دفاع قائم کیے ہوئے ہے۔

اس کا سبب نہ صرف ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری ہے بلکہ ہماری عسکری حکمتِ عملی، جدید تربیت اور انٹیلی جنس آپریشنز کی کامیابیاں بھی ہیں۔ پاکستان جانتا ہے کہ اس کے وسائل بھارت کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن جنگ صرف وسائل سے نہیں جیتی جاتی۔ عزم، حکمت اور اتحاد بھی اسی طرح اہم ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اظہار آرمی چیف کے بیان میں نمایاں تھا۔ حرف آخر، یہ کہنا مناسب ہے کہ پاکستان کا دفاع عوام کے اتحاد میں پوشیدہ ہے، اگر ہم اندر سے مضبوط ہوں گے، تو کوئی بیرونی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا بھگت سنگھ حسن ناصر
  • جاپان کا پاکستان انسداد پولیو پروگرام کیلئے 35 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان
  • جاپان کا پاکستان کیلیے 3.5 ملین ڈالر پولیو گرانٹ کا اعلان
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • کراچی: ایڈا ریو ویلفیئر میں ’خسرہ و روبیلا اور پولیو ویکسین مہم 2025‘ کا افتتاح
  • ملک میں خسرہ، روبیلا اور پولیو سے بچاؤ کی قومی ویکسینیشن مہم کا آغاز
  • ’کینسر کی کوئی علامت نہیں تھی‘، تشخیص کیسے ہوئی، بھارتی اداکارہ ماہیما چوہدری نے بتادیا
  • الٹرا پروسیسڈ غذاؤں سےخواتین میں آنت کے کینسر کے خطرات
  • الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کثرت، خواتین میں آنتوں کا کینسر بڑھنے کا انکشاف
  • الٹرا وائلٹ شعاعیں سوزش کو بڑھا کر جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں: تحقیق