Express News:
2025-10-04@20:14:56 GMT

خودشناسی

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

لیڈرشپ بغیر ویژن کے ایسے ہی ہے جیسے جسم رُوح کے بغیر۔ ویژن کے بغیر لیڈر عہدہ، طاقت، اختیار اور منصب تو رکھ سکتا ہے، لیکن حقیقی لیڈرشپ کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیونکہ لیڈرشپ کی بنیاد ہی ویژن پر ہوتی ہے۔ جس لیڈر کا ویژن جتنا بڑا ہوتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا لیڈر بنتا ہے۔ قوموں کی تاریخ اور عظیم شخصیات کی زندگیوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وہ لیڈر جس کا ویژن عظیم تھا، وہ آج بھی دُنیا میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

آج کے دُور میں، چاہے وہ کارپوریٹ لیڈرشپ ہو، سیاسی یا مذہبی قیادت، کسی سماجی ادارے یا خاندان کا سربراہ ہو یا کسی بھی ایسے عہدے پر فائز ہو جہاں لوگوں کی دیکھ بھال اور راہ نمائی کی ذمے داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ لیڈرشپ کی اس بنیادی رُوح کو سمجھے اور ازسرِنو جائزہ لیتے ہوئے اپنی زندگی پر غور کرے۔

ڈیجیٹل میڈیا کے شور میں، جہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں لیڈرز کے لیے ایک بڑی مشکل بھی کھڑی کردی ہے۔ کیا وہ ہجوم میں رہتے ہوئے اپنے ویژن پر فوکس رکھ سکتے ہیں؟ کیا ان کا ویژن عوامی رائے، معاشرتی رجحانات اور دوسروں کی کام یابیوں کی وجہ سے منفی طور پر متاثر تو نہیں ہورہا ہے؟

آج کے اس مضمون میں ہم لیڈرشپ کی اس اہم اور بنیادی خوبی یعنی ’’خودشناسی‘‘ پر بات کریں گے کہ کس طرح لیڈر آج کے سوشل میڈیا کے دور میں اس صلاحیت کو مزید نکھار کر اپنی لیڈرشپ کو زیادہ مؤثر بنا سکتے ہیں۔

نام ور برانڈنگ اور کلچر ایکسپرٹ، مارٹن لنڈاسٹرم لکھتے ہیں ’’جو لیڈر خود کو ہجوم سے الگ نہیں کر سکتے، وہ صحیح معنوں میں لیڈ نہیں کر سکتے۔ کیا آپ نوٹیفیکیشنز کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں؟ تو آپ قیادت نہیں کر رہے، آپ صرف آگ بجھا رہے ہیں۔ کیا آپ ہمیشہ آن لائن رہتے ہیں؟ تو آپ تخلیقی سوچ نہیں رہے، بس ردِعمل دے رہے ہیں۔ یہ ایک پھندا ہے۔ سلیک، ای میلز، ٹیکسٹس ، یہ 24/7 نوٹیفیکیشنز اور ردِعمل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ 9 سال پہلے میں نے اپنا فون چھوڑ دیا۔ ٹیکنالوجی سے نفرت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ اصل بصیرت اُس وقت آتی ہے جب آپ کے پاس سوچنے کے لیے جگہ ہو۔ توجہ کے لیے فاصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاموشی میں میں نے اپنے بہترین فیصلے کیے۔ فاصلے میں، میں نے اپنی سب سے گہری بصیرتیں پائیں۔ جب دُنیا اتنی توجہ بٹانے والی ہو تو تخلیقی ہونے کے لیے آپ کا پسندیدہ طریقہ کیا ہے؟‘‘

لیڈرشپ کی اس بنیادی مہارت اور خوبی کو مزید نکھارنے کے لیے چند اقدامات کی اشد ضرورت ہے، تاکہ لیڈر اپنے مقصد اور ویژن کے ساتھ انصاف کر سکیں اور اس پر بھرپور توجہ دے سکیں۔

جدائی نہیں، تنہائی ضروری ہے

آپ لیڈرشپ کے کسی بھی مقام یا منصب پر فائز ہوں، اگر آپ بالکل اکیلے ہیں تو آپ کہیں نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اگر آپ ہر وقت ہجوم میں گھرے رہتے ہیں، تو بھی آپ کہیں نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح اگر آپ ہر وقت خبروں اور فائلوں کے گرد گھومتے یا دبے رہتے ہیں، تو آپ اپنی لیڈرشپ کو خود ہی کم زور کررہے ہیں۔ اس لیے لیڈرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنہائی اور اپنے ساتھ وقت گزارنے کی اہمیت کو سمجھیں، کیوںکہ یہی اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور اپنے مقصد کا ازسرِنو جائزہ لینے کا بہترین طریقہ ہے۔

 مخلص اور ذہین لوگوں کی رفاقت، لیڈرز کی اصل طاقت

کسی بھی لیڈر کے لیے یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ اس کا زیادہ تر وقت کن لوگوں کے ساتھ گزرتا ہے، کیوںکہ رفاقت ہمارے نظریات، شخصیت اور فیصلوں پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ ایک مشہورقول ہے۔’’اگر آپ کمرے میں بیٹھے لوگوں میں سب سے ذہین شخص ہیں، تو آپ غلط کمرے میں ہیں‘‘ کیوںکہ اگر آپ اپنے سے کم ذہین اور کم قابل لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو آپ کی صلاحیتیں اور سوچ وسیع ہونے کے بجائے محدود ہوجائیں گی۔ لہٰذا اپنے حلقہ احباب اور رفاقت میں ایسے ذہین اور قابل لوگ شامل کریں جو آپ کو آپ کی موجودہ صلاحیتوں اور سوچ سے آگے بڑھنے اور زیادہ گہرائی سے غوروفکر کرنے پر آمادہ کریں۔

گذشتہ دنوں معروف جریدے ’’فوربس‘‘ کے ایک مضمون ’’کیوں خود آگاہی، آج کے اے آئی دور میں سب سے اہم لیڈرشپ مہارت ہے‘‘ میں مصنف ایٹے کن ٹینک نے اس موضوع کو نہایت عمدگی سے واضح کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سوفٹ اسکلز کو اکثر کم تر سمجھا جاتا ہے۔

مصنف اور وارٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم گرانٹ نے اس اصطلاح کو ’’الم ناک غلط نام‘‘ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اُنہوں نے ورلڈ اکنامک فورم میں بتایا، یہ اصطلاح پہلی بار امریکی فوج نے 1960 کی دہائی میں استعمال کی۔ اُس وقت سپاہیوں کی مہارتوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ’’ہارڈ‘‘ مہارتیں، جو مشینوں، ہتھیاروں اور ٹینک جیسے دھات سے متعلق کاموں کے لیے تھیں؛ اور ’’سوفٹ‘‘ یعنی باقی تمام مہارتیں۔

اگرچہ یہ مہارتیں ثانوی نہیں تھیں بلکہ نہایت ضروری تھیں، مگر لفظ ’’سوفٹ‘‘ نے رفتہ رفتہ کم زوری کا تاثر پیدا کیا اور ان کی اہمیت گھٹتی گئی۔ لیکن آج کے دور میں یہی مہارتیں پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہیں۔ خصوصاً ’’خود آگاہی‘‘ آئندہ نسل کے بڑے راہ نماؤں کو متعین کرے گی۔ دُنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے اور جس طرح مصنوعی ذہانت (AI) کام کی دُنیا کو تبدیل کر رہی ہے، راہ نماؤں کے لیے اپنی ذات کی پہچان لازمی ہے کہ وہ جانیں وہ کون ہیں، کس بات پر قائم ہیں، اور یہ سب اُن کے عمل میں کیسے جھلکتا ہے۔ میں، بطور اپنی کمپنی کا سی ای او، یہ دیکھ چکا ہوں کہ اپنی اقدار پر قائم رہنا، اپنی طاقت اور کم زوری کو جاننا، اندھی جگہوں (blind spots) کا سامنا کرنا اور دوسروں پر اپنے اثرات سے آگاہ رہنا کس طرح ہماری تنظیمی ثقافت اور برانڈ کو تشکیل دیتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس نے ہمیں بڑی ٹیک کمپنیوں کے مقابلے میں بھی برتری دی ہے۔ یہاں وہ حکمتِ عملیاں ہیں جو میں نے اپنائیں اور جن سے ہر لیڈر اس اہم مہارت کو پروان چڑھا سکتا ہے۔

حقیقت پسندی مگر حدود کے ساتھ (Authenticity With Boundaries)

آج ’’حقیقت پسندی‘ قیادت کا سب سے زیادہ چلن والا لفظ بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نئی نسل خالص سچائی کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہے، چاہے پیغام کتنا ہی کچا کیوں نہ ہو۔ لیکن کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہے، اور حقیقت پسندی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔

جب راہ نما اپنی بات چیت میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں تو اُن کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے اور غیر یقینی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ فرض کریں ایک سی ای او کسی سیکیوریٹی مسئلے کے دوران ملازمین کو بتائے کہ وہ دو راتوں سے سو نہیں سکا اور کمپنی کے گرنے کا خوف ہے۔ جب تک خطرہ حقیقی نہ ہو، ایسی بات بہتر ہے کہ کسی قریبی مشیر یا معالج تک محدود رکھی جائے۔

ماہرِنفسیات ٹوماس چامورو-پریموزک اپنی کتاب Don't Be Yourself میں خبردار کرتے ہیں کہ طاقت اکثر ہم دردی، انکساری اور خودآگاہی کو ماند کر دیتی ہے۔ ماہرنفسیات ڈاچر کیلٹن اسے ’’پاور پیراڈوکس‘‘ کہتے ہیں۔ جو راہ نما خدمت اور ایثار کے ذریعے آگے بڑھتے ہیں، اقتدار ملنے کے بعد یہی اوصاف کھو بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا حقیقت پسندی کو بھی حدود درکار ہیں، جو غوروفکر سے پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ کہنے سے پہلے لمحہ بھر رُکیں، خود کو سنبھالیں اور اپنے الفاظ کے اثرات سوچیں۔ قیادت ہر جذبہ فوراً بیان کرنے کا نام نہیں، بلکہ وہ بات کہنا ہے جو ٹیم، مشن اور موقع کے لیے فائدہ مند ہو۔

 روزانہ خود احتسابی کی عادت

مصنفہ جوآن ڈڈیون کہتی ہیں ’’میں صرف یہ جاننے کے لیے لکھتی ہوں کہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔‘‘ روزانہ ڈائری لکھنے والے اس احساس سے متفق ہوں گے۔ زندگی کی دوڑ میں ہم اکثر رُک کر اپنے جذبات اور رویّوں کا جائزہ نہیں لیتے۔ لیکن تحریر اندرونی کیفیت سننے کا ایک پائے دار طریقہ ہے۔ جو راہ نما اپنے احساسات، کم زوریوں اور تعصبات کو سمجھتے ہیں وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ تحقیق بھی یہی بتاتی ہے کہ زیادہ خود آگاہ راہ نما زیادہ کام یاب سمجھے جاتے ہیں۔ صبح کے وقت چند صفحات لکھنا مجھے روزمرہ کے شور سے الگ کر کے اپنی اصل سوچ سننے میں مدد دیتا ہے۔ آپ صبح یا رات کسی بھی وقت، بس خاموش جگہ پر بیٹھ کر جو دِل میں آئے لکھیں۔ نہ مٹائیں، نہ ایڈٹ کریں۔ مقصد ریکارڈ رکھنا نہیں بلکہ اندر کے خیالات باہر لانا ہے۔ بعد میں ذہن ہلکا اور صاف محسوس ہوتا ہے اور دن کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کا بھرپور، مگر درست استعمال

میں اکثر آٹومیشن اور اے آئی ٹولز کی حمایت کرتا ہوں کیوںکہ یہ ہمیں تھکا دینے والے کاموں سے آزاد کرتے ہیں اور وہ جگہ فراہم کرتے ہیں جہاں صرف انسان کی ضرورت ہے، جیسے غوروفکر اور ہم دردی کے ساتھ قیادت۔ بظاہر عجیب لگ سکتا ہے، مگر ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری آپ کی نرم مہارتوں اور خود آگاہی کو بڑھا سکتی ہے، جو آخرکار آپ اور آپ کی تنظیم کی اصل پہچان بنے گی۔

اوپر دیے گئے فوربس میگزین کے تین اہم نکات سے میں مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ نکات لیڈرشپ میں خود احتسابی اور خودشناسی کے لیے نہایت اہم ہیں۔

 ہمیشہ سیکھنے کی جستجو

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لیڈرشپ کے مقام اور عہدے پر پہنچنے والے لوگ اکثر خود کو عقلِ کل سمجھنے لگتے ہیں، اور ان کے ارد گرد کے لوگ بھی انہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ اب انہیں مزید سیکھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری رائے میں، جیسے جیسے لیڈرلیڈرشپ کی سیڑھی پر اوپر بڑھتے جاتے ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی ضرورت اور طلب ہونی چاہیے، کیوںکہ لیڈرشپ کا رجحان اور رویہ ہی قوموں کی پہچان بنتا ہے۔

 اپنی ذات، کائنات اور قدرت کے ساتھ تعلق

دُنیا کے کسی بھی شعبے کا لیڈر اُس وقت تک کام یاب اور مؤثر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی ذات سے آگاہ نہ ہو اور قدرت و خالق کے ساتھ وفادار نہ ہو۔ یہ بات سننے میں اگرچہ عام سی لگتی ہے، لیکن حقیقت میں قوموں اور لیڈرشپ کی کام یابیوں کا بنیادی نکتہ یہی ہے۔ وہ لیڈر جو اپنے ادارے، ملک، معاشرے یا خاندان میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں، انہیں اپنی ذات کے بارے میں مسلسل جاننے اور کائنات و قدرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی جستجو ہمیشہ قائم رکھنی چاہیے۔ یاد رکھیں، لیڈرشپ ایک سفر اور ذمے داری ہے، اور اس سفر میں کام یابی صرف اُنہی کو نصیب ہوتی ہے جو کام یابی کے بنیادی اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

یاد رکھیں لیڈرشپ ایک سفر اور ذمے داری ہے، اور اس سفر میں کام یابی صرف اُنہیں کو حاصل ہوتی ہے جو کام یابی کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ لیڈرشپ کے لیے خودشناسی کسی ایک دن، ٹریننگ سیشن، کتاب کے مطالعے یا کسی نشست کا نچوڑ نہیں بلکہ یہ ایک جاوداں زندگی اور مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے۔ ہر لیڈر کے لیے اپنی ذات کا شعور ایک روزانہ کا عمل ہے جو ایک ارتقائی مرحلے سے گزرتا ہے۔ یہ لمحوں کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ اسی لیے اہلِ نظر کہتے ہیں،’’اپنی ذات کا عرفان، قدرت کا سب سے بڑا انعام ہے۔‘‘

حقیقی کام یابی اپنی ذات کی پہچان اور اپنے باطن کی قوت کو جاننے میں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لیڈرشپ کی اپنی ذات کام یابی اور اپنے کی ضرورت رہتے ہیں کے لیے ا نہیں کر راہ نما ہوتی ہے کسی بھی کے ساتھ اگر ا پ ا نہیں لیڈر ا نے اور ا گاہی

پڑھیں:

ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز کئے بغیر برآمدات نہیں بڑھ سکتیں ‘ خادم حسین

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اکتوبر2025ء)فائونڈر ز گروپ کے سرگرم رکن ،پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ، سینئر نائب صدر فیروز پور روڈ بورڈاورسابق ممبر لاہور چیمبر آف کامرس خادم حسین نے کہا ہے کہ جب تک ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی ہماری برآمدات نہیں بڑھ سکتیں ،بنگلہ دیش کپاس کی درآمد شدہ 80 لاکھ گانٹھوں کو ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں تبدیل کر کے سالانہ 50ارب ڈالر سے زائد زرِمبادلہ حاصل کر رہا ہے ۔

اپنے بیان میں انہوںنے کہا کہ پاکستان ہر سال 1.2 سے 1.5کروڑ گانٹھیں، مقامی پیداوار اور درآمدات ملا کر استعمال کرتا ہے مگر گزشتہ کئی برسوں سے ٹیکسٹائل برآمدات 15سے 20ارب ڈالر سالانہ کی سطح پر ہیں،اس فرق کی وجہ محض مقدار نہیں بلکہ معیار اور پروسیسنگ ہے، پاکستان کی کپاس کے معیارات بین الاقوامی سطح پر ناقابل قبول ہیں ،فرسودہ جننگ نظام سے ریشے کی لمبائی، مضبوطی اور صفائی شدید متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی 90فیصد سے زائد کپاس ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے لیے موزوں نہیں رہتی، عالمی برانڈز کی طلب کے مطابق ہائی اینڈ فیشن اور ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز کی بجائے پاکستان کا ٹیکسٹائل شعبہ گھریلو ٹیکسٹائلز تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان واقعی عالمی ٹیکسٹائل سپلائی چین میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر کپاس کی جینیاتی بہتری، معیاری بیج کی فراہمی اور جدید جننگ ٹیکنالوجی کے نفاذ جیسے بنیادی شعبوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ یہ فرق صرف کپاس کی مقدار کا نہیں بلکہ ویلیو ایڈیشن اور پالیسی ترجیحات کا بھی ہے، بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل شعبے نے عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کو بروقت سمجھا، اپنی مصنوعات کے لیے برانڈ ویلیو تخلیق کیںاور بین الاقوامی سطح پر ایک مسابقتی مقام حاصل کیا اس کے برعکس پاکستان کی صنعت نے اپنی توجہ سستی توانائی، گیس اور ٹیکس چھوٹ پر مرکوز رکھی جبکہ کپاس کی تحقیق، کسانوں کی معاونت اور بیج و پیداوار کے مسائل حل کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ چیلنجز صرف تکنیکی نہیں بلکہ پالیسی سے جڑے ہوئے بھی ہیں جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری
  • ایران اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، سابق صیہونی وزیر جنگ
  • ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز کئے بغیر برآمدات نہیں بڑھ سکتیں ‘ خادم حسین
  • ایمریٹس نے اپنی پروازوں میں پاور بینک ساتھ رکھنے کی پابندی کیوں لگائی؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • امریکا: پاکستانی نوجوان کو ڈاکٹر آف پولیٹیکل لیڈرشپ کی ڈگری تفویض
  • کوالالمپور : شارق جمال کو گلوبل یوتھ کانفرنس میں ڈاکٹر آف پولیٹیکل لیڈرشپ کی اعزازی ڈگری دی جاری ہے
  • شارق جمال کو ڈاکٹر آف پولیٹیکل لیڈرشپ کی اعزازی ڈگری تفویض کردی گئی
  • سینیٹر مشتاق احمد، اسیرِ راہِ حق