ایتھوپیا میں زیر تعمیر عمارت گرگئی: 36افراد ہلاک،200زخمی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ادیس ابابا : ایتھوپیا کے وسطی علاقے میں ایک مذہبی تہوار کے دوران زیرتعمیر عمارت گرنے سے کم از کم 36 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔
حادثہ ارارتی کے علاقے میں واقع مینجار شینکورا آریرٹی مریم چرچ میں اس وقت پیش آیا جب بڑی تعداد میں زائرین سالانہ ورجن مریم فیسٹیول میں شرکت کے لیے جمع تھے۔ چرچ کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی اور اندر موجود عارضی لکڑی کا ڈھانچہ زائرین کے وزن کے باعث زمین بوس ہو گیا۔
پولیس چیف احمد گیبیہو نے سرکاری نشریاتی ادارے فانا براڈکاسٹنگ سے گفتگو میں بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 36 ہو چکی ہے، جبکہ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جس کے باعث اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ حادثے کے ایک عینی شاہد تادیسے تسفائے نے بتایا ”جب اسکیفولڈنگ گر گئی تو اس نے نیچے موجود افراد کو کچل کر رکھ دیا۔ کچھ لوگ جو کناروں پر موجود تھے، وہ بھاگ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے، مگر درمیان میں موجود افراد ہلاک ہو گئے۔“
واقعے کے بعد جائے حادثہ پر جوتے، چپلیں، ٹوٹے ہوئے لکڑی کے ڈنڈے اور ملبہ بکھرا ہوا نظر آیا، جبکہ چرچ کے گنبد کے نیچے اب بھی اسکیفولڈنگ کی مڑی ہوئی باقیات موجود ہیں۔
مقامی عہدیدار أتنافو آباتے کے مطابق کچھ افراد تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ شدید زخمیوں کو دارالحکومت ایڈیس ابابا کے اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
مقامی ایڈمنسٹریٹر تیشالے تیلاہون نے اس واقعے کو پوری کمیونٹی کے لیے ایک عظیم سانحہ قرار دیا ہے۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور حکام واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی میں موت کا رقص جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-03-3
سندھ حکومت ای چلان کے علاوہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے اور کراچی میں موت کا رقص جاری ہے، یہ شہر، جو کبھی روشنیوں اور زندگی کی علامت تھا، آج ایسی بے بسی کی تصویر بن چکا ہے جہاں شہریوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ ہر روز کوئی نہ کوئی حادثہ، کوئی قتل، کوئی دل دہلا دینے والی خبر… اور حکمرانوں کی طرف سے مکمل خاموشی، بے حسی اور غیر موجودگی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شہر اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، جسے نہ کوئی سنبھالنے والا ہے نہ پوچھنے والا ہے۔ تازہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ کراچی میں ٹریفک مافیا ہو یا جرائم پیشہ عناصر، دونوں شہریوں کی زندگیوں کے مالک بن چکے ہیں۔ رزاق آباد میں ایک بے قابو ڈمپر نے مسافر وین اور رکشے کو کچل ڈالا۔ چند لمحوں میں رحیم بخش کھوسو جیسی ایک اور قیمتی جان اس شہر کی بدانتظامی کی نذر ہوگئی۔ زخمیوں کی چیخیں، تباہ شدہ گاڑیوں کے ملبے میں پھنسے انسان، اور اردگرد کھڑے بے بس لوگ… یہ منظر کراچی کے شہریوں کی روزمرہ کی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ دوسرا حادثہ کورنگی چمڑا چورنگی کے قریب پیش آیا، جہاں ایک راہ گیر ٹریلر کی زد میں آ کر ہلاک ہوگیا۔ صرف حادثات نہیں، قتل و غارت بھی پوری بے رحمی سے جاری ہے۔ ابو الحسن اصفہانی روڈ پر چلتی موٹر سائیکل پر نوجوان کو ٹارگٹ کر کے قتل کر دیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ہولناک مناظر سامنے آئے، نوجوان کو گرانے کے بعد چند ہی لمحوں میں دو مسلح افراد آئے اور مزید گولیاں مار کر اسے ختم کر دیا۔ قاتل نہایت اطمینان کے ساتھ فرار ہوئے، جیسے شہر میں قانون نام کی کوئی چیز موجود ہی نہ ہو۔ پولیس کی پراسراریت بھی پریشان کن ہے۔ ایک طرف وہ کہتی ہے کہ یہ رنجش کا معاملہ لگتا ہے، دوسری طرف عینی شاہدین کار میں موجود ایک شخص کی نشاندہی کررہے ہیں جو حملہ آور کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ جب ایسے واضح شواہد موجود ہوں اور پولیس پھر بھی کنفیوژن کا شکار ہو، تو سوال یہی اٹھتا ہے کہ کیا پولیس خود غیرمحفوظ ہے یا کسی دباؤ میں؟