Express News:
2025-11-18@22:12:11 GMT

غزہ ، صدر ٹرمپ پلان

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

29ستمبر2025 کی شام امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے درمیان ایک ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

اس پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انھوں نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ روکنے کے لیے ایک پلان تجویز کیا ہے جس پر اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے بھی ہاں کر دی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ ایک بیس نکاتی فارمولا ہے جسے اسلامی اور عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر حماس اس پلان پر راضی ہو جاتا ہے تو یہ جنگ بہت جلد بند ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ اس جنگ میں دو فریق آپس میں متحارب تھے یعنی اسرائیل اور حماس۔صدر ٹرمپ نے اس مجوزہ پلان کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بجائے مسلمان اور عرب ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے اور ان کو اپنے پلان پر رضا مند کرنے کے بعد وزیرِ اعظم اسرائیل سے ملاقات کی۔چونکہ اسرائیل کی اکثر شرائط اس پلان کا حصہ ہیں اس لیے اسرائیل نے بخوشی اس پر رضامندی ظاہر کر دی۔

اسرائیل بنیادی طور پر یہ چاہتا ہے کہ حماس تنظیم کا مکمل خاتمہ ہو۔ اس پلان کے ذریعے یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔جنگ کے دوسرے فریق حماس کو صدر ٹرمپ نے ان مذاکرات سے دور رکھا اور حماس کی رضامندی کی ذمے داری مسلمان اور عرب ملکوں کے سپرد کر دی گئی۔مسلمان اورعرب ممالک نے عندیہ دیا ہے کہ یہ ان کا منظور کردہ پلان نہیں۔بظاہر اس پلان سے فلسطین میں دو ریاستی حل ایک خواب بن جائے گا۔

صدر ٹرمپ کے پلان پر بات کے لیے آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ فلسطینیوں اور عربوں نے اس معاملے میں اپنے ساتھ جو کیا اس کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔

ایک وقت تھا کہ سارا جزیرۃالعرب اور فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔سلطنتِ عثمانیہ گو ایک عرب سلطنت نہیں تھی لیکن وہ ایک ایسی مسلمان سلطنت تھی جس کی رہبر قوم یعنی ترک بہت اچھی مسلمان قوم تھی۔عثمانی سلطان حجازِ مقدس اور القدس الشریف یروشلم سے محبت کی حد تک عقیدت رکھتے تھے۔

سلطنتِ عثمانیہ میں عربوں کو بہت عزت حاصل تھی لیکن عربوں اور فلسطینیوں کی بغاوت کے نتیجے میں ترکوں کی عرب اور فلسطین سے عملداری تو ختم ہو گئی لیکن فلسطین پر مغربی استعمار کا قبضہ ہو گیا ۔پہلی جنگِِ عظیم کے دوران برطانیہ اور فرانس نے طے کیا کہ جنگ کے خاتمے پر سلطنتِ عثمانیہ کے جو علاقے ان کے قبضے میں آئیں گے وہ آپس میں تقسیم کر لیں گے۔

1916میں ایک معاہدے کے مطابق فلسطین کو برطانیہ ، لبنان اور شام کو فرانس جب کہ یروشلم کو اتحادی انتظامیہ کے ماتحت کر دیا گیا۔1916میں ہی شریف حسین آف مکہ نے برطانیہ کی مدد سے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔

1917میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودی قومی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔اس اعلامئے کے لیے ڈاکٹر وائزمین نے کام کیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر ایک بظاہر امن کانفرنس پیرس فرانس میں منعقد ہوئی۔

اس کانفرنس میں سلطنتِ عثمانیہ کے بیشتر حصے فاتح اقوام نے آپس میں بانٹ لیے۔اس میں برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ اسے فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا مینڈیٹ دیا جائے۔1920میں برطانیہ کو یہ مینڈیٹ مل گیا اور ایک جیوش ایجنسی فار فلسطین قائم ہو گئی۔

آگے چل کر یہی جیوش ایجنسی یہودیوں کی ڈی فیکٹو حکومت کے طور پر کام کرنے لگی۔اس مینڈیٹ میں یہودیوں کو صیہونی تحریک کی اپنی ڈیمانڈ سے بڑھ کر علاقے دے دئے گئے۔

1922میں برطانیہ نے سعودی عرب کی شدید ناراضگی کو دیکھتے ہوئے اعلان کیا کہ فلسطین کی سرحد دریائے اردن کے مغربی کنارے تک ہو گی۔ 1930کے عشرے میں پورے یورپ سے یہودیوں نے فلسطین کی طرف نقل مکانی کی۔

فلسطینیوں نے باہر سے آنے والے یہودیوں کی بہت خدمت کی اور اپنی زمینیں ان کے ہاتھ بیچیں۔ایسے میں یہودیوں نے اپنی زیرِ زمین فوجی تنظیم قائم کی اور اسے خوب مضبوط کیا، یہودی خفیہ ایجنٹوں کو فلسطینیوں نے پناہ دی۔

اس خفیہ عسکری تنظیم کے سربراہ منہم بیگن تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنے۔1930میں ایک کمیشن قائم ہوا جسے Peel Commissionکا نام دیا گیا۔اس کمیشن نے آبادی کے تناسب سے ایک چھوٹی یہودی ریاست اور ایک نسبتاً بڑی فلسطینی ریاست کی سفارش کی۔

سعودی عرب نے اس تقسیم اور سفارش کو رد کر دیا جس کی وجہ سے یہ کمیشن ناکام ہو گیا۔اس کے بعد اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے فلسطین نے سفارش کی کہ فلسطین کو دو ریاستوں یعنی فلسطینی اور یہودی ریاست میں تقسیم کر دیا جائے۔

یہ سفارش بھی کی گئی کہ یروشلم کو بین الاقوامی اتھارٹی کے ماتحت کر دیا جائے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ پلان 29 نومبر1947کو منظور کیا جسے یہودیوں نے منظور اور عربوں نے نا منظور کر دیا۔اس بیک گراؤنڈ جائزے کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دو ریاستی حل ملتا رہا مگر عرب اسے نامنظور کرتے رہے اور آج وہی حل ایک خواب بن چکا ہے۔

امریکی صدر جناب ٹرمپ کا مجوزہ پلان ایک حکمنامے کی حیثیت رکھتا ہے،اس کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ترتیب دیا اور صدر ٹرمپ نے اسے نافذ ہونے کے لیے جاری کر دیا ۔عرب ممالک جو اس سے پہلے ہر دو ریاستی حل کو مسترد کرتے آئے ہیں،اب اس کے حامی ہیں۔

عربوں کے پاس کوئی آپشن نہیں۔دراصل پچھلی چھ سات دہائیوں میں امریکا اتنی غالب قوت بن چکا ہے کہ اس کے پلان کے خلاف جانے کا عرب سوچ بھی نہیں سکتے۔

اسرائیل امریکا پر چھایا ہوا ہے اور کوئی بھی امریکی حکومت اسرائیلی مفادات کے خلاف نہیں جا سکتی۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں اگر اس مجوزہ پلان کا جائزہ لیا جائے تو یہ فقط اسرائیلی بالا دستی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

یہ اسرائیل کے عسکری و سیاسی اثر و رسوخ کی تنظیم ِ نو کا فارمولا ہے۔اس کے صرف آخری دو پیراگراف فلسطینی ریاست کی طرف ایک موہوم سا اشارہ کرتے ہیں۔یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے فلسطینیوں کو نہتا کر کے مارا جائے گا۔ اسرائیلی افواج کسی نہ کسی بہانے غزہ پر قابض رہیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں برطانیہ نے عرب ممالک اور عرب اس پلان کر دیا کیا کہ کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان

ملک پھر دہشت گردی کی زد میں ہے۔ دہشت گردوں نے اسلام آباد کو نشانہ بنایا ہے۔ اسلام آباد میں عدالت کے باہر پولیس گاڑی پر خودکش حملے میں 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوئے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل وانا کیڈٹ کالج دہشت گردوں کے نرغے میں آگیا۔کیڈٹ کالج کے طلبہ 14 سے زیادہ گھنٹے ان دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہے۔ سیکیورٹی فورسز نے تمام طلبہ اور اساتذہ کو بازیاب کیا۔ 2 سیکیورٹی اہلکار اس حملے میں شہید ہوئے۔ اس صدی کے 25 ویں سال پھر وانا سے لے کر اسلام آباد غیر محفوظ علاقہ بن گیا۔

اسلام آباد کے سیکیورٹی کے لیے لگائے گئے، اربوں روپے کی لاگت سے نصب ہونے والے کیمرے اور سیف سٹی پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اگرچہ وزیرداخلہ محسن نقوی نے یہ بیانیہ اختیارکر کے کچہری کے دروازے پر تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کی چابک دست سے خودکش حملہ اورکچہری میں قائم عدالتوں تک نہیں پہنچ سکا، اس بات کی دلیل دیتے ہوئے اپنی وزارت کے ماتحت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا دفاع کیا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ کسی خودکش حملہ آور کا اسلام آباد میں داخل ہونا ہی بہت بڑی ناکامی ہے۔

ادھر پشاور میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ایماء پر پختون قومی جرگہ منعقد ہوا۔ اس جرگے میں صوبے کے گورنر سمیت صوبے کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس جرگے کے اعلامیہ کے مندرجات یوں ہیں کہ وفاقی حکومت افغان خارجہ پالیسی کے پی حکومت کے مشورے سے بنائے۔ اس اعلامیے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت اب اس بات پر متفق ہوگئی ہے کہ دو دہائیوں سے خیبر پختون خوا میں ہونے والی دہشت گردی ختم ہونی چاہیے۔ جرگے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاکستان افغانستان سرحد کے تمام تجارتی راستوں کو کھولا جائے۔

یہ راستے گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں اور طالبان فوج کے جوابی حملوں کی بناء پر بند ہیں ، اگرچہ استنبول مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہے مگر اب طالبان حکومت اپنے تاجروں کو یہ ہدایات دے رہی ہے کہ افغان تاجر پاکستان سے تجارت کی امید ہی چھوڑ دیں اور اس مقصد کے لیے دیگر ممالک کی طرف رخ کریں۔ پشاور میں ہونے والے جرگہ کے اعلامیہ کے تجزیے سے قبل یہ تجزیہ ضروری ہے کہ ماضی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔

 اسلام آباد میں 20 دسمبر 2008 کو ایک خود کش حملہ آور نے گولہ بارود سے لیس ایک ڈمپر ایک ہوٹل کی دیوار سے ٹکرا دیا تھا۔ اس سانحے میں کم ازکم 54 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 266 کے قریب افراد جن میں سے بیشتر پاکستانی تھے، زخمی ہوئے۔ طالبان دہشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والے بعض صحافیوں نے یہ مفروضہ گڑھ لیا تھا کہ متاثرہ ہوٹل میں امریکی موجود تھے ۔ ایسی خبروں کی تردید بھی ہوئی لیکن ان خبروں کی اشاعت کا مقصد یقیناً طالبان دہشت گردوں سے ہمدردی پیدا کرنا تھا۔ جب میاں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے توکچھ عرصے بعد تحریک انصاف کے بانی نے حکومت کے خاتمے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھا تو 16 اگست 214 کو ظالم دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول کے طالبہ کا قتل عام کیا تھا۔ اس سانحے میں 150 افراد جاں بحق ہوئے جن میں اسکول کی پرنسپل کے علاوہ 134 طلبہ بھی شامل تھے۔

عمران خان نے یہ دھرنا ختم کیا تو حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکو مدعو کر کے ایک کانفرنس منعقد کی تھی، فوج کے سربراہ بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ اس کانفرنس میں 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے ہوا تھا، یہ ایک جامع پلان تھا۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں تھے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام،کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی، نفرت انگیز مواد پر پابندی، دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے سمیت مدارس کی اصلاحات، دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کی بندش، نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی کا قیام، قومی سلامتی کمیٹی کی تمام معاملات میں نگرانی وغیرہ شامل تھے مگر بعد میں حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایسے عناصر موجود تھے جو مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ نواز شریف حکومت پاناما لیکس کے اسکینڈل میں پھنس گئی تھی۔ نواز شریف حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ایک نئی انتہا پسند تنظیم بنوائی گئی،جس پرگزشتہ دنوں پابندی عائدکی گئی ہے۔

 تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ تحریک انصاف کے بانی ہمیشہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران تحریک انصاف کے جیالوں نے پشاور جانے والی موٹر وے پر دھرنا دے کر اتحادی افواج کی سپلائی لائن رکوا دی تھی۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری فخر سے اس کامیابی کا ذکرکرتی تھیں۔ بہرحال تحریک انصاف کو اسلام آباد میں حکومت مل گئی،کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے طالبان فوج کی کابل پر قبضہ کی بھرپور مدد کی تھی۔ بی بی سی اردو ویب سائٹ کی 16 اگست 2016 کو وائرل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے یکساں نصاب کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کابل پر طالبان کے قبضے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔

انھوں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا تھا کہ غلام ذہن کبھی بھی بڑے کام نہیں کرسکتا۔ اس رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتوںنے طالبان کی کامیابی کا جشن منایا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں طالبان کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ ان طالبان نے سابقہ قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختون خوا کے کئی شہروں میں متوازی حکومتیں قائم کر لیں۔

کے پی میں مختلف شہروں میں عوام نے طالبان کے خلاف دھرنے دیے ، مگر وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان جنگجوؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوام کی سرپرستی نہیں کی۔ اب کے پی کے عوام ایک طرف طالبان کے حملوں کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف حکومتی آپریشنزدیکھتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ کے پی کے عوام اس آپریشن کوکوئی آفت قرار دیتے ہیں۔ پشاورکے جرگہ کا یہ مطالبہ اہم ہے کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تیاری میں کے پی حکومت کا مشورہ شامل ہونا چاہیے مگر کے پی کی حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ طالبان جنگجوؤں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اگر اب ریاست نے واضح طے کرلیا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنا ہے تو پھر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ابراہم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فلسطین کا دو ریاستی حل یقینی بنانا ہوگا، سعودی ولی عہد
  • دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
  • ہم فلسطین اور اسرائیل کیلئے امن اور ابراہیم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، محمد بن سلمان
  • ’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی
  • سلامتی کونسل اجلاس، حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کی قرارداد کے مسودے کو مسترد کر دیا
  • سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے غزہ پلان کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی
  • سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے غزہ پلان کی قراردار بھاری اکثریت سے منظور کر لی
  • سلامتی کونسل اجلاس، حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کی قرارداد کے مسودے کو مسترد کردیا
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان