سپریم کورٹ میں 2 اہم اپیلوں کی سماعتیں آئندہ ہفتے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ میں دو اہم مقدمات کی سماعتیں آئندہ ہفتے مقرر کر دی گئیں۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 8 اکتوبر کو ہوگی۔ جسٹس امین الدین خان چیمبر میں اپیل کی سماعت کریں گے۔
یاد رہے کہ سنی اتحاد کونسل کی نظرِ ثانی درخواست رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگا کر واپس کردی تھی جس کے خلاف ایڈووکیٹ حامد خان نے چیمبر اپیل دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
دوسری جانب سپریم کورٹ الیکشن دھاندلی اور 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر اپیل پر 7 اکتوبر کو سماعت کرے گی۔ یہ سماعت بھی جسٹس امین الدین خان چیمبر میں کریں گے۔
شہری غلام محی الدین نے اس حوالے سے درخواست دائر کی تھی جسے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس کیا تھا۔ شہری نے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کر رکھی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی سپریم کورٹ سماعت مقدمات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی سپریم کورٹ مقدمات سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ ججز تبادلہ کیس: جسٹس نعیم اختر افغان کا 40 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری
سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ججز کی مستقل منتقلی کو آئین کے آرٹیکل 200 کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ٹرانسفر صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔
صدر پاکستان نے ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن بغیر شفاف معیار اور بامعنی مشاورت کے جاری کیا، جو غیر آئینی، بدنیتی پر مبنی اور غیر ضروری جلدی میں کیا گیا عمل تھا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق صدر کا یہ نوٹیفکیشن بے اثر ہے اور قانوناً اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے تھے۔
خط میں دباؤ، بلیک میلنگ، غیر قانونی نگرانی اور سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔
نوٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی ججز نے اپنے خط میں اٹھایا تھا اور چیف جسٹس سے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق ججز کے اسی خط کے بعد حکومت نے جلد بازی میں ان کی مستقل منتقلی کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی کو متاثر کرنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اختلافی نوٹ ججز تبادلہ کیس جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ