data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حماس نے آج (ہفتہ) کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات کو “حوصلہ افزا” قرار دیا، جن میں انہوں نے اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کی اپیل کی تھی۔

عالمی خبررساں ادارے کے مطابق حماس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے فوراً مذاکرات شروع کرنے کو تیار ہے۔

حماس کے ترجمان طاہر النونو نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو میں کہا: صدر ٹرمپ کے غزہ پر اسرائیلی بمباری فوراً روکنے کے مطالبات حوصلہ افزا ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: حماس قیدیوں کے تبادلے، جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے لیے فوراً مذاکرات شروع کرنے کو تیار ہے۔

اپنی جانب سے حماس کے رہنما محمود مرداوی نے جمعہ کے روز کہا کہ امریکی صدر کی جانب سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کی تجویز “مبہم اور غیر واضح” ہے اور اس کی بعض شقوں پر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب حماس نے اس منصوبے پر اپنا جواب دیا، لیکن اس میں اپنے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کا ذکر نہیں کیا۔

مرداوی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو میں کہا: امریکی تجویز مبہم، غیر واضح اور غیر مربوط ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس پر ثالثوں کے ذریعے مزید مذاکرات کیے جائیں۔

امریکی صدر نے جمعہ کی شام اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ پر بمباری “فوراً” روک دے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب حماس نے اعلان کیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ میں موجود تمام قیدیوں کی رہائی پر آمادہ ہے، جس کا مقصد جنگ کا خاتمہ ہے۔

ٹرمپ نے اپنے “ٹروتھ سوشل” اکاؤنٹ پر لکھا: “حماس کے جاری کردہ بیان کی بنیاد پر میرا خیال ہے کہ وہ مستقل امن کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فوراً غزہ پر بمباری روک دے تاکہ ہم قیدیوں کو محفوظ اور تیزی سے نکال سکیں! فی الحال ایسا کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ ہم پہلے ہی ان تفصیلات پر بات کر رہے ہیں جن پر اتفاق ہونا ضروری ہے۔ یہ معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق اُس دیرینہ امن سے ہے جس کا مشرقِ وسطیٰ طویل عرصے سے منتظر ہے۔”

اس سے قبل جمعہ کی شام کو حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ تمام قیدیوں کو رہا کر کے غزہ انتظامیہ کی غیر جانبدار شخصیات پر مشتمل کمیٹی کے سپرد کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ دونوں نکات ٹرمپ کے اُس منصوبے کا حصہ ہیں جسے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم، حماس نے زور دیا کہ منصوبے میں شامل “غزہ کے مستقبل” سے متعلق نکات پر مزید مذاکرات ضروری ہیں۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ٹرمپ کے کے لیے

پڑھیں:

حماس نے  قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا بدلے جنگ بندی کی شرط مان لی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مقبوضہ بیت المقدس: حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اپنا باقاعدہ جواب ثالثی کے ذریعے جمع کرا دیا ہے۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس پیکیج کے کئی اہم نکات بڑی حد تک تسلیم کرتے ہیں بشرطِ یہ کہ اس کے بدلے میں فوری اور مکمل اسرائیلی انخلا اور تمام قیدی رہا کیے جائیں۔

تنظیم کی جانب سے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ غزہ میں جاری عسکری کارروائیوں کے خاتمے اور محاصرے کے اٹھائے جانے کو اپنی اولین شرط قرار دیتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے تفصیلی مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ غزہ کا انتظام ایک آزاد، غیرجانبدار اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل تنظیم کے حوالے کیا جانا چاہیے، جسے قومِ فلسطین کے وسیع اتفاقِ رائے اور عرب و اسلامی حمایت کے ساتھ قائم کیا جائے۔

یہ مطالبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس چاہتی ہے کہ غزہ کی آئندہ حکمرانی مقامی نمائندوں اور شفاف قومی فورم کے ذریعے مرتب کی جائے، نہ کہ بیرونی یا یکطرفہ منصوبوں کے تحت۔ تنظیم نے زور دیا کہ غزہ کے مستقبل اور فلسطینی حقوق کے مسائل کو بین الاقوامی قوانین اور سابقہ اقوامِ متحدہ قراردادوں کے مطابق ایک جامع قومی ڈھانچے کے تحت حل کیا جائے۔

حماس نے پیکیج کے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے، خاص طور پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے مجوزہ کردار کو قبولیت سے خارج کر دیا گیا ہے۔

مزاحمتی تحریک کے سینئر رہنما موسی ابو مرزوق نے واضح کیا کہ اسرائیلی قبضہ ختم ہوئے بغیر حماس غیرمسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے حوالے میں 72 گھنٹے کے اندر کسی طرح کی فوری تبدیلی یا رہائی کا مطالبہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ حقیقی امن اسی وقت قائم ہوگا جب محاصرے اور جارحیت کا خاتمہ ہو، نہ کہ محض عارضی یا سطحی انتظامی تبدیلیوں سے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر نے حماس کو ایک سخت ڈیڈ لائن دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ معاہدے کی عدم توثیق کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ حماس کی جانب سے جوابی مراسلہ اور ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شرکت کا اعلان اس کشیدہ منظرنامے میں ایک مثبت رخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا پیچھے محض دباؤ یا ایک طرفہ رضامندی نہ ہو بلکہ اس کے بدلے واضح، قابلِ پیمائش اور بین الاقوامی ضمانت یافتہ اقدامات ہوں۔

فلسطینی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حماس کے فیصلے نے ایک اہم پیغام دیا ہے کہ جنگ بندی اور شہریوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیحات ہیں، مگر وہ اس کی قیمت اپنے قومی اصولوں اور حق خود ارادیت کو قربان کرکے ادا کرنا نہیں چاہتے۔

موجودہ پیش رفت اس امید کو جلا دے سکتی ہے کہ اگر ثالثی حقیقی ضمانتوں اور تمام فریقین کی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھے تو ایک دیرپا اور قانونی طور پر باضابطہ حل ممکن ہے۔

اب بین الاقوامی برادری، عرب ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات کو شفاف، منصفانہ اور فلسطینی قومی مفاد کے مطابق بنائیں۔ اگر مذاکرات حقیقی قومی نمائندوں اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر ہوں تو یہ مرحلہ محصور عوام کے لیے ریلیف اور مستقل امن کی جانب اولین قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے ٹرمپ کا غزہ پر حملے روکنے کا مطالبہ بمباری میں اُڑا دیا، مزید 66 فلسطینی شہید کر دیئے
  • یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیرپر امن منصوبے کی شرائط ختم کرنےکےلیے ٹرمپ کی حماس کو دھمکی
  • حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے، اسرائیل کا حماس کی جانب سے ٹرمپ کے منصوبے کی جزوی منظوری کے بعد اعلان
  • اسرائیل غزہ پر حملے روک دے، امریکی صدر ٹرمپ
  • حماس امن کیلئے تیار ہے، اسرائیل غزہ پر بمباری فوری طور پر روک دے، ٹرمپ
  • حماس کا مثبت ردعمل: ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کا مطالبہ
  • امن منصوبے پر حماس کا جواب؛ اسرائیلی فوج غزہ میں بمباری فوراً روک دے، ٹرمپ کا مطالبہ
  • حماس نے  قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا بدلے جنگ بندی کی شرط مان لی
  • حماس کا جواب، ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ میں فوری حملے روکنے کا مطالبہ