Jasarat News:
2025-11-21@08:52:53 GMT

غزہ کا منظر نامہ اور ملین مارچ

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم و نسل کشی، صمود فلوٹیلا پر حملے کے خلاف اور نہتے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کے تحت شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ’’غزہ ملین مارچ‘‘ منعقد ہوا جس میں شہر بھر سے لاکھوں مردو وخواتین، مختلف طبقات و مکتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ غزہ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ فلسطین کا کوئی دو ریاستی حل قبول نہیں، ریاست صرف ایک فلسطین اور قیادت صرف ایک حماس کی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اہل پاکستان کی رائے دیکھ لیں، حماس کے موقف کو تسلیم کریں، حماس کے ترجمان بنیں اور کسی بھی قسم کے بیرونی دبائو کو قبول کیے بغیر پاکستان میں حماس کا دفتر کھولنے کا اعلان کریں۔ دیگر اسلامی ممالک میں بھی حماس کا دفتر کھولا جائے۔ اپوزیشن و دیگر حکمران پارٹیاں بھی حماس اور اہل غزہ کی حمایت کریں اور کھل کر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں، عمران خان بلاشبہ سیاسی قیدی ہیں، ان کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ جیل سے دیگر اعلانات کی طرح حماس کی حمایت اور امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔ اسرائیل کے نام کی کوئی بھی چیز ہے وہ مقبوضہ فلسطین ہے، پاکستان کا قومی موقف وہی ہے جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اختیار کیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حکمران امریکی غلامی اختیار اور امریکا و اسرائیل سے قربت پیدا نہ کریں، اسرائیل کو تسلیم کرنے یا ابراہم ایکارڈ کی طرف جانے کی جس نے بھی کوشش کی عوام اس کا ناطقہ بند کردیں گے۔ حماس کی بصیرت، بصارت، مزاحمت، جد وجہد قربانیوں اور سفارتی کوششوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ ملین مارچ میں حافظ نعیم الرحمن نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف پوری امت مسلمہ بلکہ خود فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کا بھی ترجمان ہے، انہوں نے اپنے خطاب میں پیش آمدہ صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، ایک جانب جہاں انہوں نے فلسطین کے درینہ موقف کا اعادہ کیا، حکومت اور اپوزیشن کے کردار پر تنقید کی وہیں انہوں نے اس لائن آف ایکشن کا بھی ذکر کیا جس سے انحراف سنگین مضمرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں جس طرح بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاری ہے اور جس بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی جارہی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، اب تک 67 ہزار افراد شہید اور ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد افراد زخمی کیے جاچکے ہیں، غزہ پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، بائیس لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کو جبری طور پر نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے، غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے قحط کی سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں کھل کر کہہ رہی ہیں کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اقوام متحدہ کی کمیشن آف انکوائری بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر اسرائیل پر پابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ عالمی عدالت ِ انصاف نے صہیونی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں، مگر اس کے باوجود غزہ میں اسرائیلی درندگی کا کھیل جاری ہے اور بد قسمتی سے امریکا مسلسل اسرائیل کی حمایت اور سرپرستی کر رہا ہے۔ غزہ امن پلان کے تحت ایک ایسے منصوبے پر کام کیا جارہا ہے جو فلسطینی عوام کی خواہشوں اور دیرینہ مطالبات کے برعکس ہیں، غزہ میں قیام امن کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے منصوبے کو عرب اور اسلامی دنیا کے لیے امن کا عظیم منصوبہ قرار دے رہے ہیں ساتھ ہی ان کی دھمکیاں بھی جاری ہیں، کہتے ہیں کہ غزہ کا کنٹرول نہ چھوڑا تو حماس کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے جب کہ بن یامین نیتن یاہو نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر حماس نے جنگ بندی معاہدے کو قبول نہ کیا تو غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مزید تیز کر دی جائیں گی، جب کہ حماس نے اس منصوبے کے کچھ نکات کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انتہائی ہوشیاری اور چابکدستی کے ساتھ فلسطینیوں کے اصل بیانیے کو پس ِ پشت ڈال دیا گیا ہے اور ایسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ کسی طرح دنیا فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کرلے۔ مگر حقیقت وہی ہے جس کا اظہار جماعت اسلامی کے امیر نے کیا ہے کہ اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ ناجائز ہے، دو ریاستی فارمولا فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں، فلسطینیوں کو حق ِ خود ارادیت دیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کے امن منصوبے کو کسی بھی طور نہتے فلسطینیوں کے امنگوں کا ترجمان قرار نہیں دیا جاسکتا، مذکورہ امن معاہدے میں فلسطینیوں سے مزاحمت کا حق بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ خطے میں اسرائیل کو مکمل طور پر کھل کھیلنے کا موقع مل جائے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ غزہ میں امن کے نام پر جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے وہ حقیقی امن کے قیام کے لیے نہیں بلکہ امن کے نوبل انعام کی خواہش کی تکمیل اور اسرائیل کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہے، اگر امریکی صدر ٹرمپ خطے میں حقیقتاً امن کے قیام کے خواہش مند ہوتے تو غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت نہ کرتے، اگر امریکا ویٹو نہ کرتا تو اب تک غزہ میں امن قائم ہوچکا ہوتا۔ اب تو ڈونلڈ ٹرمپ یہ بات کھل کر کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں جارحیت کی وجہ سے اسرائیل پوری دنیا میں اپنی حمایت کھو چکا ہے، غزہ امن منصوبہ اسرائیل کا کھویا ہوا اعتماد بحال کردے گا۔ المیہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل مل کر شیطانی چال چل رہے ہیں مگر اس باب میں مسلم حکمران مسئلہ فلسطین کے دیرینہ موقف پر ڈٹے رہنے اور فلسطینی عوام کا مقدمہ لڑنے کے بجائے جارح قوتوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، جو سراسر عاقبت نا اندیشی اور اصولی موقف سے انحراف ہے۔ گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد کی منظوری کے بعد کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا جسے نہ امریکا نے تسلیم کیا اور نہ ہی اسرائیل نے حالانکہ دو ریاستی حل بھی فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ امریکا کے بیس نکاتی امن فامولے پر غور کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور ثالثوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے جس پر سفارتی حلقے جنگ بندی کے حوالے سے پر امید ہیں تاہم اس حقیقت سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فوری جنگ بندی اور ناکہ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بغیر امن کی کوئی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی، مزاحمتی قوتوں پر جنگ بندی کے لیے یک طرفہ شرائط عاید کرنا خطے میں قیام ِ امن کو بھیانک خواب بنادے گا۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دو ریاستی فلسطین کے ملین مارچ کو تسلیم بندی کے رہے ہیں امن کے کہ غزہ کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم کے خلاف دسمبر میں وکلا کے لانگ مارچ کی تیاریاں شروع

پاکستان بھر کے وکلا نے 27ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا اعلان کر دیا ہے۔

صدر لاہور ہائی کورٹ بار ملک آصف نسوانہ کا کہنا ہے کہ دسمبر 2025 میں لاہور اور کراچی سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لاہور ہائیکورٹ بار کا جنرل ہاؤس اجلاس، وکلا کی ریلی، 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ بار کے جاوید اقبال آڈیٹوریم میں آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت سینیئر وکیل منیر اے ملک نے کی جبکہ چیئرمین پاکستان بار کونسل منیر اے ملک، سابق صدر سپریم کورٹ بار اعتزاز احسن، حامد خان، لطیف کھوسہ، اشتیاق احمد خان، شفقت محمود چوہان، سابق جج لاہور ہائی کورٹ جسٹس (ر) شاہد جمیل سمیت ملک بھر سے سینئر وکلاء نے شرکت کی۔

اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف مزاحمتی لائحہ عمل طے کیا گیا۔ شرکا نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ہر جمعرات کو ارجنٹ کیسز کے علاوہ مکمل عدالتی بائیکاٹ کیا جائے، بارز کے جنرل ہاؤس اجلاسوں کے بعد احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی اور آئندہ دنوں لاہور اور کراچی میں وکلا کنونشن منعقد ہوں گے جن میں حتمی لائحہ عمل طے ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے: 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

صدر لاہور ہائی کورٹ بار ملک آصف نسوانہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک صرف وکلا کی نہیں بلکہ ججز کی بھی ہے۔ 27ویں ترمیم سے سب سے زیادہ نقصان ججز کا ہوا ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ججز بھی ہماری ہڑتال کی حمایت کریں گے۔ فی الحال کراچی بار، لاہور بار، پشاور بار، کوئٹہ بار سمیت ملک کی تمام بڑی بارز اس موقف پر متفق ہیں کہ 27ویں آئینی ترمیم فوری واپس لی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اعتزاز احسن، حامد خان، لطیف کھوسہ اور منیر اے ملک سمیت تمام سینیئر قیادت اس بات پر متفق ہے کہ ایک بڑی، منظم اور پرامن وکلا تحریک چلائی جائے گی۔ آل پاکستان وکلا لانگ مارچ دسمبر میں ہو سکتا ہے ۔آئینی عدالتوں کے ممکنہ بائیکاٹ کے حوالے سے بھی مشاورت جاری ہے مگر اس کا فیصلہ تمام بارز کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: کیا ہم ایک اور وکلا تحریک کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

وکلا قیادت نے واضح کیا کہ 27ویں ترمیم عدلیہ کی آزادی، ججز کی تقرری کے شفاف نظام اور آئین کی بالادستی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اسے کسی  قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ تمام سینیئر قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سب نے اجلاس میں اپنی تجویز دیں جس پر مشاورت عمل جاری ہے۔

آئندہ چند دنوں میں وکلا کنونشنز کے بعد حتمی شیڈول اور لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم احتجاج بائیکاٹ وکلا تحریک

متعلقہ مضامین

  • شادی کا دعوت نامہ وائرل: کھانے کا اہتمام نہیں، معذرت قبول کریں
  • فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت
  • کھانے کا اہتمام نہیں ہوگا، معذرت قبول کریں، شادی کا دعوت نامہ وائرل
  • پاکستان کو کسی صورت فوج غزہ نہیں بھیجنی چاہیے، حافظ نعیم الرحمان
  • نام نہاد غزہ امن فورس اور پاکستان
  • 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف دسمبر میں وکلا کے لانگ مارچ کی تیاریاں شروع
  • اسرائیل نے جنگ بندی معاہدےکی دھجیاں اڑادیں، آج پھر لبنان پر حملہ کردیا، 13 افراد جاں بحق
  • جنوبی لبنان میں صیہونی فورسز کا فضائی جارحیت، 13 افراد شہید، متعدد زخمی
  • حماس نے سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق منظور قرارداد کو یکسر مسترد کردیا ہے
  • ’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی