مصرمیں امن منصوبہ مذاکرات : حماس نے کئی شرائط رکھ دیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قاہرہ/واشنگٹن /لندن/ پیرس (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔جس میں حماس نے اہم رہنماؤں اورہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سمیت کئی شرائط رکھ دیں ہیں۔مصری اور قطری ثالث فریقین سے ملاقاتیں کرکے امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فریقین کے درمیان غزہ میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ہزاروںفلسطینی قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حماس نے مجوزہ منصوبے کے بعض حصوں پر اتفاق کیا تھا مگر غیر مسلح کیے جانے جیسے مطالبے پر ردعمل نہیں دیا تھا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت خالد الحیہ کر رہے ہیں جنھیں اسرائیل نے دوحہ میں نشانہ بنانے کی ناکام کی کوشش کی تھی۔الحیہ غزہ کے باہر حماس کے سب سے سینئر رہنما ہیں۔الحیہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کے نائب تھے جو 2024 ء میں قابض اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے تھے۔یہ مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت ہو رہے ہیں جس کا مقصد2 سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔فلسطینی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات کئی دن جاری رہ سکتے ہیں، مزید کہنا تھا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات مشکل اور پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ قابض قوت کی نیت اپنی جارحیت جاری رکھنے کی ہے۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے جاری غزہ امن مذاکرات کی براہ راست خود نگرانی کروں گا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ امن منصوبے پر “تیزی سے آگے بڑھیں” اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد کو اسی ہفتے مکمل کرلیا جائے تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا پہلے مرحلے سے ان کی مراد کیا ہے؟ البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود واپسی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے اس پہلے مرحلے کے دوران فریقین غزہ میں موجود 20 زندہ یرغمالیوں سمیت 28 مرہ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کے لیے بھی بات چیت کریں گے۔علاوہ ازیں یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود پیمانے پر واپسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔قبل ازیں حماس نے غزہ امن منصوبے پر مذاکرات کے لیے قاہرہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کرنے آئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق حماس یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیںتاہم اسرائیل نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ نیتن یاہو کی اتحادی جماعتیں بھی معاہدے کے خلاف ہیں۔خیال رہے کہ امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اتنے منفی‘‘ نہ ہوں۔ نیتن یاہو نے حماس کے جواب کو مسترد کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ٹرمپ نے اسے مثبت قرار دیا۔ اسرائیلی آرمی چیف ایال ضمیر نے اسرائیلی کمانڈرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں آپریشنل صورتحال میں تبدیلی ہورہی ہے، سیاسی کوشش کامیاب نہ ہوئی توہم لڑائی میں واپس آجائیں گے۔ایال ضمیر نے کہا کہ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں حقیقت بدل رہا ہے۔مزید برآں اسرائیل کے خلاف کئی ملکوں میں احتجاج کیا گیا، برطانیہ، فرانس،ا سپین، پرتگال، اٹلی، بنگلا دیش سمیت کئی ملکوں میں عوام سڑکوں پر آگئے۔اسپین میں 10 ہزار سے زاید افراد نے اسرائیل کیخلاف مارچ کیا، مظاہرین نے فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کا مطالبہ کیا، پیرس میں ہزاروں افراد نے احتجاج اور شدید نعرے بازی کی، غزہ میں بمباری فوری رکوانے کا مطالبہ کیا۔قبل ازیں غزہ پر اسرائیل کے 131فضائی حملے میں مزید94فلسطینی شہیدہوگئے ۔اسرائیلی وزارت دفاع نے آج 7اکتوبر کو غزہ جنگ کے 2 سالوں میں ہونے والے فوجی جانی نقصان کیاعداد و شمار جاری کردیے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ہلاک فوجیوں میں سیتقریباً 42 فیصد کی عمریں 21 سال سے کم تھیں۔اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہلاک اسرائیلیوں کا تعلق فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اورکارپورلز سے ہے۔اسرائیلی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ریاست اپنے کندھوں پرغزہ جنگ کی بھاری قیمت اٹھا رہی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی اسرائیلی فوج امریکی صدر کے مطابق کی رہائی حماس کے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کے اعلان کے بعد غزہ کے شہریوں میں خوشی کی لہر
غزہ، واشنگٹن، دوحا (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد غزہ کے شہریوں میں خوشی کی لہر، اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کی بھی جنگ بندی اپیل، دوسری طرف حماس آمادگی اور بمباری روکنے کےٹرمپ مطالبےکے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے جاری رہے جن میں مزید 66 فلسطینی شہید کردئیے گئے۔
المواسی، نصیرات اور تُّفّاح میں خواتین و بچے نشانہ، سیکڑوں زخمی، خوراک ادویات ناپید، اسپتال تباہ، بے گھر فلسطینی ملبے پر خیمے گاڑنے پر مجبور، امیدیں روشن، مگر اسرائیلی بمباری جاری، حماس کی امن منصوبے پر آمادگی کا عالمی خیر مقدم، اردوان نے امن کا موقع قرار دیدیا، یو این اور ڈبلیو ایچ او کی بھی حمایت، ٹرمپ کا منصوبہ حماس کیلئے ہتھیار ڈالنے کے مترادف، اسرائیل نے 137فلوٹیلا کارکنوں کو ترکی بھیج دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان اور حماس کی مشروط آمادگی کے باوجود اسرائیل کی غزہ پر بمباری اور فائرنگ بدستور جاری ہے، جسکے نتیجے میں صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 66 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جنگ میں شہادتوں کی تعداد 67 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ایک لاکھ 69 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔
ٹرمپ نے حماس کے بیان کے بعد کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس “دائمی امن” کیلئے تیار ہے اور اسرائیل کو بمباری فوراً روکنی چاہیے، لیکن اسرائیل نے نہ صرف حملے جاری رکھے بلکہ المواسی، نصیرات اور تُّفّاح سمیت کئی علاقوں میں بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا۔
المواسی کو اسرائیلی فوج نے “محفوظ انسانی زون” قرار دیا تھا، مگر وہاں بھی بمباری میں دو بچے شہید اور آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔ ادھر قطر یونیورسٹی کے پروفیسر عدنان حیجنہ نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ تقریباً حماس کیلئے “ہتھیار ڈالنے” کے مترادف ہے، اسی لیے تنظیم اپنے یرغمالیوں کو آخری سودے بازی تک محفوظ رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ طویل مذاکرات متوقع ہیں جو قاہرہ میں امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی موجودگی میں ہوسکتے ہیں۔ سیکورٹی ماہر راشد المہنادی کے مطابق امریکا ہی واحد طاقت ہے جو نیتن یاہو پر عملی دباؤ ڈال سکتی ہے تاکہ منصوبے کا پہلا مرحلہ نافذ ہو سکے۔