Islam Times:
2025-10-07@05:35:29 GMT

طوفان الاقصیٰ کے دو سال

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

طوفان الاقصیٰ کے دو سال

اسلام ٹائمز: اس بات سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی محور کی جنگ برسوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، تاکہ اس راستے میں صیہونی محاذ کو مزاحمتی قوتوں کی طرف سے ایسی ضربیں لگائی جائیں، جس طرح وہ مزاحمتی بلاک کو مارتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمتی محور کو انجانے میں پوری طرح سے دھچکا لگا ہوتا اور پچھلے دو سالوں میں جتنا نقصان ہوا ہے، اس سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمتی محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہے۔ مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

آپریشن طوفان الاقصیٰ کو آج دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اس دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد اس آپریشن کے بارے میں بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ مذاکراتی عمل میں نئے حالات اور حماس کے ٹرمپ پلان کے ساتھ ابتدائی معاہدے نے یہ سوال مزید شدت سے اٹھایا ہے کہ کیا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کے مفاد کے لیے تھا یا نہیں۔؟ یہ سوال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے، جب ہم غور کرتے ہیں کہ دو سال کی لڑائی کے بعد غزہ کے 70,000 سے زیادہ شہری شہید، 200,000 سے زیادہ زخمی اور غزہ کا 90% سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس شہر کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

مزید برآں، ایک اور نقطہ نظر سے، حزب اللہ، جو حماس کی حمایت میں اس جنگ میں داخل ہوئی، ستمبر 2024ء میں شدید ترین حملوں کا نشانہ تھی، جس کی انتہاء لبنانی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر منتج ہوئی۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 18 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد حکومت کا زوال بھی اسی آپریشن کا نتیجہ تھا اور دمشق کا سقوط اور حزب اللہ پر حملے بھی اسی وجہ سے ہوئے ہیں۔ 7 اکتوبر کا آپریشن غلط حساب کتاب کا نتیجہ تھا، اس کو دو زاویوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور اسے ایک مختلف زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کارروائی خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا ردعمل تھا اور حماس نے یہ اقدام خود کو بتدریج موت سے بچانے کے لیے کیا۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد صیہونی حکومت کی طرف سے کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور مزاحمتی قیادت کی حکومت کے ساتھ لڑائیوں کا تجربہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انہیں کس طرح کی مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دو دہائیوں کی جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی کو برداشت کرنے کے بعد آہستہ آہستہ مرنے کے بجائے، حماس نے ایک جرات مندانہ اقدام کے ساتھ کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کم از کم اب تک، تمام تر مصائب کے باوجود، اس نے یہ مقصد حاصل کیا ہے اور مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

اب نہ صرف سماجی سطح پر، شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیاء تک دنیا کے مختلف ممالک کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کی آماجگاہ بن چکی ہیں، بلکہ یورپ کی کئی حکومتوں نے، جو صیہونی حکومت کے روایتی اتحادی ہیں، ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ اس حال میں ہے کہ 7 اکتوبر سے پہلے زیادہ تر ممالک صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسری طرف اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ صہیونی اب بھی طوفان الاقصیٰ کے مہلک نفسیاتی دھچکے سے متاثر ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ طوفان الاقصی لاقصیٰ نے دنیا کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور وائٹ ہاؤس کو اس جنگ کا انچارج متعارف کرایا ہے۔

فوجی اور سکیورٹی نقطہ نظر سے، طوفان الاقصیٰ فلسطینی سیاسی منصوبے کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ حیرت ناک جارحیت سے پہلے ایک حملہ تھا۔ اگرچہ حماس کے عہدیداروں نے انٹرویوز میں اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت جلد از جلد حماس کی قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس تشخیص پر غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے تبادلہ خیال بھی کیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاملہ غزہ اور حماس سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ صیہونی حکومت نہ صرف غزہ میں حماس کے تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی تھی بلکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایک مہلک دھچکے سے نمٹنے کے لیے ایک خاص لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔

صہیونی چینل 12 پر پیجر آپریشن کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق ستمبر 2023ء میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل متعلقہ آلات لبنان میں داخل کئے گئے تھے اور یہ سارا آپریشن کئی مہینوں تک حکومت کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر حزب اللہ غزہ کے حمایتی محاذ میں داخل نہ ہوتی تو بھی مجرم اسرائیلی حکومت کے حملے سے محفوظ نہ رہتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ متاثرہ وائرلیس فون کی موجودگی کے پیش نظر زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی جو بعد میں پیش آئی۔

اس بات سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی محور کی جنگ برسوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، تاکہ اس راستے میں صیہونی محاذ کو مزاحمتی قوتوں کی طرف سے ایسی ضربیں لگائی جائیں، جس طرح وہ مزاحمتی بلاک کو مارتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمتی محور کو  انجانے میں پوری طرح سے دھچکا لگا ہوتا اور پچھلے دو سالوں میں جتنا نقصان ہوا ہے، اس سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمتی محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ  لڑائی میں مصروف ہے۔ مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت کے ساتھ آپریشن طوفان الاقصی مزاحمتی محور اور مزاحمتی سے زیادہ حزب اللہ یہ ہے کہ اس بات کو ایک ہے اور کے بعد کے لیے کی طرف

پڑھیں:

صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے خلاف عالمی نفرت

اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی فوج کی جانب سے صمود فلوٹیلا میں شریک تمام افراد کو گرفتار کر لینے کے بعد یورپ سمیت پوری دنیا میں صیہونی رژیم کے خلاف وسیع احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اسپین کی حکومت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ صمود فلوٹیلا میں شریک افراد کی سلامتی یقینی بنائے۔ اٹلی میں عظیم احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں بیس لاکھ کے قریب مظاہرین نے شرکت کی۔ اسی طرح کے مظاہرے برسلز، ایتھنز اور برلن میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ عالمی رائے عامہ کے دباو میں آکر برطانوی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن صیہونی رژیم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر صمود فلوٹیلا میں شامل افراد کو آزاد کر دے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی صمود فلوٹیلا پر صیہونی فوج کے حملے کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
جمعرات کے دن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی جانب گامزن انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل کشتیوں پر جارحیت کر کے اس میں شریک تمام امدادی کارکنوں اور اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس حملے نے ماضی میں حنظلہ کشتی پر صیہونی جارحیت کی یاد تازہ کر دی ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے امدادی سامان لے کر غزہ جا رہی تھی۔ صیہونی رژیم کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ صمود فلوٹیلا میں شامل تمام افراد مقبوضہ فلسطین میں قید ہیں اور ان کی صحت بالکل درست ہے۔ لیکن صیہونی وزارت خارجہ کا یہ بیان عالمی سطح پر انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے پائے جانے والے غم و غصے کو کم نہیں کر سکا اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے انجام پا رہے ہیں۔ مظاہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ جاری رکھے جانے پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
 
مزاحمتی فلوٹیلا کی آواز
بدھ کی شام انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا جو غزہ کے ساحل سے تقریباً 139 کلومیٹر دور تھا صیہونی فوج کی یلغار کا نشانہ بن گیا۔ اس میں پانچ سو کے قریب افراد سوار تھے جن میں چند اراکین پارلیمنٹ، وکیل اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی شامل تھے۔ اخبار گارجین کے مطابق اس فلوٹیلا کا مقصد غزہ کا محاصرہ توڑنا تھا اور وہ اپنے ساتھ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے۔ صیہونی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے سرگرم کارکن گرتا تونبرگ کو دیکھا جا سکتا ہے جو "آلما" نامی کشتی کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور صیہونی فوجیوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا۔ صمود فلوٹیلا میں شامل کچھ کشتیاں تو غزہ سے چودہ یا پندرہ کلومیٹر فاصلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن آخرکار صیہونی فوج نے انہیں روک دیا۔
 
آزادی کی لہروں پر
ابتدائی رپورٹس کے مطابق صمود فلوٹیلا میں شامل "میکنو" نامی کشتی غزہ ساحل کے قریب فلسطینی پانیوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ صمود فلوٹیلا میں شامل افراد نے بتایا کہ میکنو کشتی سے ہمیں یہ پیغام ملا کہ "ہمیں ساحل دکھائی دے رہا ہے۔" فلوٹیلا میں ترکی سے تعلق رکھنے والے کارکن رمضان تونچ نے بتایا: "میں آپ کو یہ اچھی خبر سنانا چاہتا ہوں کہ شدید رکاوٹوں کے باوجود ہماری ایک کشتی غزہ پہنچ گئی ہے اور اس نے وہ کام کر دکھایا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔" بعد میں موصول ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے غزہ ساحل سے تقریباً 17 کلومیٹر دور صیہونی فوج نے روک دیا اور اس میں سوار افراد کو کتسیعوت جیل منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک بڑا جیل ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
 
صیہونزم کی قید میں
انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل وہ افراد جو صیہونی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور حتی مغربی شہری بھی اس فلوٹیلا میں موجود تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کی وجہ سے اسرائیل سے نفرت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ صمود فلوٹیلا کے گرفتار شدگان میں آئرلینڈ کے 9 شہری بھی شامل ہیں جن میں شین فن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس ایندروز بھی ہیں۔ اسی طرح اٹلی کے دو رکن پارلیمنٹ، فرانس سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اما فورو، پولینڈ کے رکن پارلیمنٹ فرانسسک استرچفسکی اور برطانوی فضائیہ کے ریٹائرڈ 72 سالہ پائلٹ میلکم داکر بھی اس فلوٹیلا میں شامل تھے۔ میلکم داکر صمود فلوٹیلا میں شامل "ایل این" نامی کشتی چلا رہے تھے۔
 
20 سالہ محاصرے پر خاموشی کا اختتام
غاصب صیہونی رژیم نے 2007ء میں غزہ کے الیکشن میں حماس کی فتح کے بعد غزہ کی پٹی کے خلاف محاصرے کا آغاز کیا تھا اور 2009ء میں محاصرے کی شدت بڑھا دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ اب تک کئی بار اس محاصرے کی مذمت کر چکی ہے اور اسے "انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی" قرار دے چکی ہے۔ صمود انٹرنیشنل فلوٹیلا میں شامل افراد اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ان کا اقدام غیر مسلح اور غیر فوجی اقدام ہے اور صرف انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔ یاد رہے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا جرم جانا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کئی کوششیں انجام پا چکی ہیں۔ 2010ء میں غزہ کی جانب گامزن مرمرہ کشتی پر صیہونی فوج کے کمانڈوز نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دسیوں ترک شہری شہید ہو گئے تھے۔
 
صیہونیوں کے خلاف عالمی احتجاج
غاصب صیہونی فوج کی جانب سے صمود فلوٹیلا میں شریک تمام افراد کو گرفتار کر لینے کے بعد یورپ سمیت پوری دنیا میں صیہونی رژیم کے خلاف وسیع احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اسپین کی حکومت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ صمود فلوٹیلا میں شریک افراد کی سلامتی یقینی بنائے۔ اٹلی میں عظیم احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں بیس لاکھ کے قریب مظاہرین نے شرکت کی۔ اسی طرح کے مظاہرے برسلز، ایتھنز اور برلن میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ عالمی رائے عامہ کے دباو میں آکر برطانوی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن صیہونی رژیم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر صمود فلوٹیلا میں شامل افراد کو آزاد کر دے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی صمود فلوٹیلا پر صیہونی فوج کے حملے کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • طوفان الاقصیٰ کے 2برس مکمل: حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر اسرائیل کیخلاف آج ملک گیر احتجاج کیا جائے گا
  • طوفان الاقصیٰ کے دو سال، حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر کل ملک گیر احتجاج ہوگا
  • فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے عالمی نگرانی میں ہتھیار ڈالنے پر اتفاق کرلیا
  • جامعۃ الازھر غزہ کی بلڈنگ صیہونی حملے میں تباہ
  • صیہونی فوج کا نیا حربہ، دھماکا خیز ریموٹ کنٹرول گاڑیوں سے غزہ میں دھماکے
  • پشاور، صمود فلوٹیلا پر حملہ کیخلاف جماعت اسلامی کی ریلی
  • حماس کا ردعمل مزاحمت کے مضبوط موقف کی عکاسی کرتا ہے، جہاد اسلامی
  • صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے خلاف عالمی نفرت
  • ہتھیار ڈالنا مزاحمتی لغت میں نہیں ہے، شیخ نعیم قاسم