Islam Times:
2025-11-21@13:50:37 GMT

طوفان الاقصیٰ کے دو سال

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

طوفان الاقصیٰ کے دو سال

اسلام ٹائمز: اس بات سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی محور کی جنگ برسوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، تاکہ اس راستے میں صیہونی محاذ کو مزاحمتی قوتوں کی طرف سے ایسی ضربیں لگائی جائیں، جس طرح وہ مزاحمتی بلاک کو مارتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمتی محور کو انجانے میں پوری طرح سے دھچکا لگا ہوتا اور پچھلے دو سالوں میں جتنا نقصان ہوا ہے، اس سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمتی محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہے۔ مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

آپریشن طوفان الاقصیٰ کو آج دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اس دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد اس آپریشن کے بارے میں بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ مذاکراتی عمل میں نئے حالات اور حماس کے ٹرمپ پلان کے ساتھ ابتدائی معاہدے نے یہ سوال مزید شدت سے اٹھایا ہے کہ کیا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کے مفاد کے لیے تھا یا نہیں۔؟ یہ سوال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے، جب ہم غور کرتے ہیں کہ دو سال کی لڑائی کے بعد غزہ کے 70,000 سے زیادہ شہری شہید، 200,000 سے زیادہ زخمی اور غزہ کا 90% سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس شہر کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

مزید برآں، ایک اور نقطہ نظر سے، حزب اللہ، جو حماس کی حمایت میں اس جنگ میں داخل ہوئی، ستمبر 2024ء میں شدید ترین حملوں کا نشانہ تھی، جس کی انتہاء لبنانی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر منتج ہوئی۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 18 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد حکومت کا زوال بھی اسی آپریشن کا نتیجہ تھا اور دمشق کا سقوط اور حزب اللہ پر حملے بھی اسی وجہ سے ہوئے ہیں۔ 7 اکتوبر کا آپریشن غلط حساب کتاب کا نتیجہ تھا، اس کو دو زاویوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور اسے ایک مختلف زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کارروائی خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا ردعمل تھا اور حماس نے یہ اقدام خود کو بتدریج موت سے بچانے کے لیے کیا۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد صیہونی حکومت کی طرف سے کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور مزاحمتی قیادت کی حکومت کے ساتھ لڑائیوں کا تجربہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انہیں کس طرح کی مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دو دہائیوں کی جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی کو برداشت کرنے کے بعد آہستہ آہستہ مرنے کے بجائے، حماس نے ایک جرات مندانہ اقدام کے ساتھ کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کم از کم اب تک، تمام تر مصائب کے باوجود، اس نے یہ مقصد حاصل کیا ہے اور مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

اب نہ صرف سماجی سطح پر، شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیاء تک دنیا کے مختلف ممالک کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کی آماجگاہ بن چکی ہیں، بلکہ یورپ کی کئی حکومتوں نے، جو صیہونی حکومت کے روایتی اتحادی ہیں، ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ اس حال میں ہے کہ 7 اکتوبر سے پہلے زیادہ تر ممالک صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسری طرف اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ صہیونی اب بھی طوفان الاقصیٰ کے مہلک نفسیاتی دھچکے سے متاثر ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ طوفان الاقصی لاقصیٰ نے دنیا کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور وائٹ ہاؤس کو اس جنگ کا انچارج متعارف کرایا ہے۔

فوجی اور سکیورٹی نقطہ نظر سے، طوفان الاقصیٰ فلسطینی سیاسی منصوبے کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ حیرت ناک جارحیت سے پہلے ایک حملہ تھا۔ اگرچہ حماس کے عہدیداروں نے انٹرویوز میں اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت جلد از جلد حماس کی قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس تشخیص پر غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے تبادلہ خیال بھی کیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاملہ غزہ اور حماس سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ صیہونی حکومت نہ صرف غزہ میں حماس کے تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی تھی بلکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایک مہلک دھچکے سے نمٹنے کے لیے ایک خاص لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔

صہیونی چینل 12 پر پیجر آپریشن کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق ستمبر 2023ء میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل متعلقہ آلات لبنان میں داخل کئے گئے تھے اور یہ سارا آپریشن کئی مہینوں تک حکومت کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر حزب اللہ غزہ کے حمایتی محاذ میں داخل نہ ہوتی تو بھی مجرم اسرائیلی حکومت کے حملے سے محفوظ نہ رہتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ متاثرہ وائرلیس فون کی موجودگی کے پیش نظر زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی جو بعد میں پیش آئی۔

اس بات سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی محور کی جنگ برسوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، تاکہ اس راستے میں صیہونی محاذ کو مزاحمتی قوتوں کی طرف سے ایسی ضربیں لگائی جائیں، جس طرح وہ مزاحمتی بلاک کو مارتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمتی محور کو  انجانے میں پوری طرح سے دھچکا لگا ہوتا اور پچھلے دو سالوں میں جتنا نقصان ہوا ہے، اس سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمتی محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ  لڑائی میں مصروف ہے۔ مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت کے ساتھ آپریشن طوفان الاقصی مزاحمتی محور اور مزاحمتی سے زیادہ حزب اللہ یہ ہے کہ اس بات کو ایک ہے اور کے بعد کے لیے کی طرف

پڑھیں:

مشرقی پاکستان میں بھارت اور دہشتگرد گروہ مکتی باہنی کا نام نہاد ’’آپریشن جیک پاٹ‘‘

آپریشن جیک پاٹ مشرقی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے سفاک بھارت اور دہشتگرد گروہ مکتی باہنی کا نام نہاد آپریشن تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ خطے میں دہشتگردی کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1971ء میں پاک بھارت جنگ سے قبل بھارت نے اپنی دہشتگردانہ پالیسی کے تحت مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی۔ 1971ءکی جنگ کے پس منظر میں بھارت اور مکتی باہنی کی طویل دہشتگردانہ مذموم مہم اور سازش نمایاں تھی۔

فروری 1971ء سے بھارت نے مشرقی پاکستان  میں اسپانسرڈ دہشتگردانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ بھارت نے15اگست1971ءکو دہشتگردی کے ہولناک منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نام نہاد ’’آپریشن جیک پاٹ‘‘  کا آغاز کیا  ۔

بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کو مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو پناہ اور تربیت فراہم کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس دہشتگردانہ کارروائی  سے بڑی تعداد میں تربیت یافتہ مکتی باہنی دہشتگردوں کو مشرقی پاکستان بھیج کر معصوم محب  وطن پاکستانیوں کو شہید کیا گیا۔

بھارت اور مکتی باہنی نے اس مشترکہ دہشت گردانہ منصوبے کو باضابطہ طور پر ’’آپریشن جیک پاٹ‘‘ کا نام دیا۔

متعلقہ مضامین

  • راجن پور، کچے میں پولیس کا ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن
  • مشرقی پاکستان میں بھارت اور دہشتگرد گروہ مکتی باہنی کا نام نہاد ’’آپریشن جیک پاٹ‘‘
  • صیہونی فورسز کی غزہ میں فضائی جارحیت جاری، خواتین، بچوں سمیت مزید 28 فلسطینی شہید
  • چلی میں برفانی طوفان کے باعث 5 غیر ملکی سیاح ہلاک
  • پاک بحریہ کا بڑا آپریشن، 130 ملین ڈالر مالیت کی منشیات ضبط
  • نبیہ بیری نے سلامتی کونسل میں لبنان کیلئے ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا
  • الاقصیٰ کے امام شیخ عکرمہ صبری پر ’اشتعال انگیزی‘ کا مقدمہ؛ الزامات من گھڑت قرار
  • جنوبی لبنان میں صیہونی فورسز کا فضائی جارحیت، 13 افراد شہید، متعدد زخمی
  • طوفان ملیسا سے 4 لاکھ 77 ہزار بچے متاثر ہوئے‘ اقوام متحدہ
  • ’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی