محمود اچکزئی قومی اسمبلی، علامہ ناصر عباس سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) تحریک انصاف کی سینٹ و قومی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ پارلیمانی پارٹی نے محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سینٹ میں علامہ ناصر عباس کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی منظوری دیدی۔ اپوزیشن آج قومی اسمبلی اور سینٹ سیکرٹریٹ میں اپوزیشن لیڈرز کے نام جمع کرائے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی
پڑھیں:
بیانات ‘ پی پی کا سینٹ ‘ قومی اسمبلی سے واک آئوٹ ‘ معافی کا مطالبہ
اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا اور زیریں میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر بیانات پر معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجا واک آؤٹ کیا۔ شیری رحمٰن نے کہاکہ اس وقت وفاق کو استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ ملک میں سیلاب سے 65لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر پنجاب سے ہیں۔ اس وقت بھی بہت سے لوگ پانی سے متاثر ہیں اور ہمیں یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک میں آفت ہے تو ہم لوگوں کو مدد فراہم کرنے کی بجائے الفاظ کی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مشکل وقت میں متحد رہیں مگر جب پنجاب کارڈ کھیلا جائے اور یہ کہا جائے کہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اور اس کی بہن آصفہ بھٹو نے خارجہ پالیسی میں کوئی کام نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں ہماری نمائندگی ہے، بلاول بھٹو نے صرف یہ کہا تھا کہ بی آئی ایس پی کو استعمال کیا جائے تاکہ بے یا رو مدد گار لوگوں کو امداد فراہم کی جائے مگر اس کو پنجاب میں مداخلت سمجھی گئی۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے کبھی بھی دوسروں کی تذلیل کرکے اتحاد نہیں چلایا ہے۔ معافی مانگنے سے کسی کی تذلیل نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان پر 80 ٹریلین قرضہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمیں کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ سیلاب سے جنوبی پنجاب شدید طور پر متاثر ہے۔ فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ جب آپ کی ریڈ لائن کراس ہو جائے اور ہماری لیڈر شپ پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تو اس موقع پر پنجاب کارڈ کھیلا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں ہے ہم سب پاکستانی ہیں، اس وقت ملک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور ہر شخص امداد کا مستحق ہے۔ اگر بلاول بھٹو سے معافی نہیں مانگی جاتی ہے تو ہم ایوان بالا میں کسی قسم کی سپورٹ فراہم نہیں کریں گے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی نے ایوان سے احتجاجا واک آئوٹ کیا۔ وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور حکومت کے مابین گرما گرمی پر اپویشن کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور حالات دوبارہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ جمہوریت میں اونچ نیچ ہوتی ہے اور یہ سیاست کا اصول ہے۔ دو صوبوں کے عہدیداروں کے بیانات سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اگر کسی کو دل آزاری ہوئی ہے تو اس پر مجھے بھی تکلیف ہے۔ رانا ثناء اللہ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے، پانی کی تقسیم ارسا کے تحت ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور صدر نے بھی نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیں گے۔ سینیٹر علی ظفر نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی فوری امداد اور آبیانہ معافی کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کو سیاسی تسلط سے آزاد کیا جائے اور اہم اداروں کو بحال کیا جائے۔ ہمیں تاریخی مقابلے دیکھنے میں آ رہے ہیں اور یہ کوئی کرکٹ کا میچ نہیں بلکہ دو اتحادی جماعتوں کے مابین مقابلہ ہے اور یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہے کہ کس نے سیلاب میں عوام کی زیادہ خدمت کی ہے۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ ہم نے سندھ کو سیلاب سے بچایا ہے مگر یہ صرف کتابوں میں ہے حقیقت میں نہیں ہے۔ اسی طرح پی ایم ایل این بھی کہتی ہے کہ ہم نے ٹرکوں اور کشتیوں کے ذریعے امداد دی ہے مگر یہ عجیب و غریب امداد ہے جو سیلاب زدگان کی بجائے ان کی جیبوں میں پہنچی ہے۔ اس وقت سکورنگ یہ ہورہی ہے کہ کس نے زیادہ پریس کانفرنسز کی ہیں انہوں نے کہاکہ پاسکو کو ختم کر دیا گیا ہے اس کی وجہ سے سیلابی موسم شروع ہونے سے پہلے ہی گندم کے ذخیرے صفر ہوگئے۔ حکومت تمام مرحلوں پر ناکام رہی ہے۔ بی آئی ایس پی کی رقوم میں توسیع کی جائے، بندوں کی فوری مرمت کی جائے، صاف پانی عوام تک پہنچائیں۔ سینٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ اپوزیشن کی دال کسی صورت نہیں گلے گی اور ان کی خواہشیں دل میں ہی رہیں گی۔ اپوزیشن حکومت کے مشورے دینے کی بجائے خیبر پی کے میں جو ہوا ہے اس کو دیکھیں، انہوں نے کہاکہ ہم کیوں اس طرح کی سیاست کرتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ پوری دنیا ہماری معیشت کو بہتر بتا رہی ہے مگر اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ ایوان بالا میں وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری کے ریمارکس پر اے این پی کے سینیٹر ارباب عمر فاروق کاسی نے کہاکہ جس طرح وزیر مملکت برائے داخلہ نے باتیں کی ہیں یہ ایک سیاسی کارکن کا طریقہ کار نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے تین سینیٹر ہیں اور انہوں نے کہاکہ کونسلر بننے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔ ہم ثابت کریں گے کہ ملک کی خدمت جمہوریت کیلئے قربانیاں ہم نے دی ہیں۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بلوچستان کے ضلع خاران میں دہشت گردوں کی جانب سے قاضی کی عدالت کو جلانے اور پریذائیڈنگ آفیسر کو اغوا کرنے کے واقعے کا نوٹس لینے کامطالبہ کیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال ناصر اور پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایون مہمند کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی، ڈپٹی چیئرمین نے پی ٹی آئی رکن کو شٹ اپ کال دیدی، اجلاس جمعرات تک 9اکتوبر ملتوی کردیا گیا۔ کورم کی نشاندھی کے موقع پر بات کرنے کی اجازت دینے پر پی ٹی آئی کے رکن سینیٹر ہمایون مہمند اور ڈپٹی چیرمین سیدال ناصر کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی، پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایوں مہمند بولنے کی اجازت مانگتے رہے مگر ڈپٹی چیرمین نے اجازت نہیں دی اور کہا کہ کافی دیر سے آپ کو برداشت کر رہا ہوں۔ پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر قومی اسمبلی سے بھی واک آؤٹ کیا اور اس کے ارکان ایوان میں واپس نہیں آئے۔ وقفہ سوالات کے دوران راجا پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض پر وقت مانگ لیا جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ طے ہے کہ وقفہ سوالات کے دوران پوائنٹ آف آرڈر نہیں ہو سکتا، تاہم ارکان کے اصرار پر سپیکر نے پرویز اشرف کو فلور دے دیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں جانتا ہوں وقفہ سوالات میں بات نہیں ہو سکتی، تاہم اس وقت ایک اہم مسئلہ ہے جس سے ہمارے لوگ دوچار ہیں، ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور صرف وفاق پاکستان کے لیے ہم نے حکومت سے اتحاد کیا۔ سیلاب سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے، بلاول بھٹو تمام متاثرہ علاقوں میں گئے اور مجھے دکھ ہوا ہے کیوں کہ بلاول بھٹو تو حکومت پنجاب اور وزیر اعلیٰ کی تعریف کر رہے تھے جب کہ معرکہ حق میں بھی انہوں نے ملک کی نمائندگی کی اور بے نظیر کا بیٹا، بھٹو کا نواسہ ہونے کا حق ادا کیا۔ ہم بھی الجھنا نہیں چاہتے اور نہ ہم وفاق کو کمزور کرنا اور صوبائیت پھیلانا نہیں چاہتے، ہم وفاق کمزور کرنے والے نہیں، پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں، ہم صوبوں اور ملک کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں اور آپ کے علم میں تمام معاملہ ہے۔ کشمیر کا معاملہ ہوا تو میں بھی وفد کا حصہ بن کر گیا، جو غیر ذمہ دارانہ بیانات آ رہے ہیں اس سے صرف پیپلزپارٹی کارکنان نہیں پورے ملک میں پریشانی ہے۔ ایسے میں ہمارے خلاف جو زبان استعمال ہوئی میں دہرا بھی نہیں سکتا، اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ جب تک پنجاب سے کوئی بات نہیں ہوتی اور کوئی ذمہ دار یہاں یقین دہانی نہیں کروائے گا، ہمارا ایوان میں بیٹھنا ممکن نہیں، جب تک ہمیں کوئی مطمئن نہیں کرتا ہم واک آؤٹ کریں گے۔ پنجاب اسمبلی میں ہمارے پارلیمانی لیڈر کی سکیورٹی واپس لے لی گئی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے باتیں کی گئیں، ہمارے چہرے پر خراشیں ڈالی جا رہی ہیں ہم جوابا ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری ایسی سیاسی تربیت نہیں۔ اس دوران اسد قیصر نے پیپلزپارٹی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے فرینڈلی فائر کو خوش آمدید کہتے ہیں، اگر یہ سنجیدہ ہیں تو عدم اعتماد لائیں ہم ساتھ دیں گے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے ارکان بھی باہر چلے گئے اور کورم کی نشاندہی کی۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف بیانات جاری رہنے پر کسی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پیپلز پارٹی نے واک آؤٹ کے ساتھ ساتھ کورم کی بھی نشاندہی کردی کہ کورم پورا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی کورم کی نشاندہی کر دی جس پر ڈپٹی سپیکر نے گنتی کی ہدایت کر دی، ارکان پورے نہ ہونے پر قومی اسمبلی کورم ٹوٹ گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی معطل کر دی۔ اجلاس کچھ دیر بعد دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی سپیکر نے اراکین کی دوبارہ گنتی کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی جمعرات 5 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔