یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستان WhatsAppFacebookTwitter 0 8 October, 2025 سب نیوز


تحریر: بشیراللہ خان انقلابی


8 اکتوبر 2005 کا دن آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ صبح 8 بج کر 52 منٹ پر آنے والا زلزلہ انسانی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا، جس نے پلک جھپکتے ہی ہزاروں قیمتی جانیں نگل لیں، بستیاں اجاڑ دیں، خواب مٹی میں ملا دیے، اور زمین کو اشکبار کر دیا۔اس سانحہ میں صرف اموات ہی نہیں ہوئیں، بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ملبوں کے نیچے دبے بچے، چیختی مائیں، اور بے یار و مددگار بزرگ وہ مناظر تھے جو آج بھی آنکھوں میں نمی لے آتے ہیں۔

لیکن یہ دن صرف درد، غم اور تباہی کی داستان نہیں، بلکہ قومی یکجہتی، بھائی چارے، اور جذبۂ انسانیت کی بھی بے مثال مثال ہے۔زلزلے کی خبر سنتے ہی پورے پاکستان میں ایک عجیب جذبہ بیدار ہوا۔ کراچی سے خیبر تک، گلگت بلتستان سے بلوچستان تک ہر فرد، ہر طبقہ، ہر ادارہ متاثرین کی مدد کو اُمڈ آیا۔ کسی نے خون دیا، کسی نے کمبل، کسی نے پیسے، تو کسی نے اپنا وقت۔

یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستانی قوم نے یکجہتی، ایثار اور محبت کی نئی تاریخ رقم کی۔میدان میں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں افواج پاکستان تھیں۔ خطرناک پہاڑی علاقوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ریسکیو مشن، سرد موسم، لینڈ سلائیڈنگ، اور تباہ حال سڑکوں کے باوجود امدادی کاموں میں مصروف جوانوں نے وہ کارنامے انجام دیے جنہیں دنیا بھر نے سراہا۔ آرمی میڈیکل کور، انجینئرنگ ونگ، اور سپاہیوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہزاروں زندگیاں بچائیں۔برادر اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، ایران اور انڈونیشیا نے دل کھول کر مدد کی۔ مغربی ممالک، اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے لاکھوں ڈالر امداد اور ہزاروں رضاکار فراہم کیے۔ اس عالمی ہمدردی نے ثابت کیا کہ انسانیت رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر درد کو بانٹتی ہے۔


اجڑی ہوئی بستیاں آج جدید شہروں میں بدل چکی ہیں۔ سکول، ہسپتال، سڑکیں، پل، پانی کی فراہمی، اور دیگر بنیادی سہولیات پر مشتمل انفراسٹرکچر عالمی معیار کے مطابق تعمیر ہوا۔ ان سب میں حکومتِ پاکستان، این ڈی ایم اے، ایرا، سیرا، اور درجنوں غیر سرکاری اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔اس دن کی مناسبت سے ہم ان شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنا کل، ہمارے آج پر قربان کر دیا۔ ان کے ورثاء کے صبر، حوصلے، اور قربانی کو بھی سلام۔ 8 اکتوبر ہمیں صرف زلزلے کی تباہی نہیں، بلکہ اُس جذبے کی یاد دلاتا ہے جس نے ہمیں دوبارہ جینے کا حوصلہ دیا آج جب وطن کو کئی اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں پھر اسی اتحاد، ایثار اور اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے۔

زلزلے کے بعد پیدا ہونے والی یکجہتی اگر ہم نے جاری رکھی، تو کوئی طوفان ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ ہمیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاری، عوامی آگاہی، اور مضبوط ادارہ جاتی نظام کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ شہدائے زلزلہ کے درجات بلند فرمائے، ان کے لواحقین کو صبر عطا کرے، اور وطن عزیز کو ہر قسم کی آفات، دشمنوں کی سازشوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔
آمین۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران خان نے علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کردیے اب ہم عزت کے قابل ٹھہرے نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

گلدستہ پاکستان اور سیاست کا کھیل

مملکت ِ پاکستان چند اکائیوں پر مشتمل ایک ایسا حسین گلدستہ ہے جس میں کھلتے ہوئے پھولوں کی خوشبو سے یہ وطن مہکتا ہے۔ کشمیر کی جنت نظیر وادیاں ہوں یا گلگت بلتستان کے برف پوش بلند و بالا پہاڑ، بلوچستان کے نیلگوں ساحل ہوں یا خیبر پختونخوا کی بل کھاتی وادیاں اورشور مچاتے چشمے، سندھ کی قدیم تہذیب کو اجاگر کرتی ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد ہو یا مکلی کا تاریخی قبرستان اور پنجاب کے سرسبز لہلہاتے کھیت ،یہ سب اس مملکت خداداد کے وہ پھول ہیں جن کی ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے آبیاری کی۔کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی یہ ریاست ہمیشہ دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی رہی ہے۔

وہ اس گلدستے کو بکھیرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا رہتا ہے مگر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان آج بھی قائم و دائم ہے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بدقسمتی یہ رہی کہ آزادی کے بعد ہمیں ایسے حکمران میسر آئے جنھیں یہ ملک پلیٹ میں رکھا ہوا ملا، وہ اس کی قدر نہ کر سکے۔ آٹھ دہائیوں کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے یہ قافلہ چلا تھا۔ قافلے کے ساربان بدلتے رہے، مگر سفر کٹ نہ سکا۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں م ہے، تحریکِ انصاف مسلسل تین انتخابات سے خیبر پختونخوا پر حکمران ہے، پنجاب میں کچھ وقفے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پھر اقتدار سنبھال لیا ہے، جب کہ بلوچستان میں مختلف جماعتوں پر مشتمل نمایندہ حکومت موجود ہے۔ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) برسراقتدار ہے، جسے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور چند دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا سیاسی اتحاد بلاشبہ ایک غیر فطری اتحاد ہے۔ اس غیر فطری اتحاد کی واحد وجہ ایک تیسری جماعت ہے جسے اقتدار سے دور رکھنے کے لیے یہ اتحاد بنایا گیا۔ یہ اتحاد اب تک ضرورتوں کا محتاج ہے اور سر دست ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ غیر فطری اتحاد ٹوٹ کر حکومت کا شیرازہ بکھیر دے اور دونوں جماعتیںسیاسی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ یکایک عوام کی عدالت میں چلی جائیں ۔ دوسری جانب پنجاب کی پُرجوش وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف نے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر پیپلز پارٹی کی بے جا تنقید کے جواب میں خاموشی توڑ دی ہے اور پنجاب کی طرف اٹھنے والی انگلی کو توڑنے کا دوٹوک پیغام دیا ہے۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان لفظی گولہ باری اور تند و تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِاعلیٰ پنجاب سے معافی کا غیر سیاسی مطالبہ سامنے آیا ہے جس کا جواب الجواب ابھی دیا جا رہا ہے۔

وزیرِاعلیٰ پنجاب ملک کے سینئر سیاستدان میاں نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں جوخود تین بار وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی وطن سے وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر دونوں پارٹیوں کے ترجمانوں کی حالیہ بیان بازی سے صوبائیت کی بو آنے لگی ہے جو ملکی سیاست کے لیے نیک شگون نہیں۔ ریاست پہلے ہی معاشی اور دفاعی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ایسے میں صوبائی بنیادوں پر تقسیم کی باتیں خطرناک ہیں۔

عوام اس لڑائی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جب کہ دشمن ان اختلافات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری جو اپنی اپنی جماعتوں کے اصل فیصلے ساز ہیں، اب تک خاموش ہیں۔ سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا یہ محض ایک نوراکشتی ہے یا اس کے پیچھے کوئی پوشیدہ مقصد پوشیدہ ہے۔ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ یہ اتحاد فوری طور پر ٹوٹ جائے گا کیونکہ دونوں جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ انتخابات میں علیحدہ علیحدہ عوام کے سامنے جا سکیں۔البتہ یہ طے ہے کہ صوبائیت کا کارڈ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب تک محدود کر دے گا جہاں پر اس کو پہلے ہی تحریکِ انصاف کے مضبوط سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔

اگرچہ تحریکِ انصاف کے اندر اختلافات موجود ہیں مگر عوامی سطح پر پارٹی کے بانی کا اثر کم نہیں ہوا۔ایسی صورتحال میں میاں نواز شریف کو چاہیے کہ اپنی سیاسی وراثت کو صرف پنجاب تک محدود نہ کریں بلکہ اسلام آباد کے بڑے منظرنامے پر نگاہ رکھیں۔ خدانخواستہ اگر یہ چبھتی ہوئی بیان بازی اسی رفتار سے جاری رہی تو یہ عوام کے دلوں میں ایسی دراڑ ڈال سکتی ہے جس کا مداوا ممکن نہ رہے۔پہلے ہی ملک کو نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیںجو موجودہ حالات میں ریاست کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ نئے صوبوں پر مزید معروضات کسی اگلے کالم میں پیش کروں گا۔

متعلقہ مضامین

  • ’قوم نے ہر آفت کا مقابلہ اتحاد و حوصلے سے کیا‘، وزیراعظم کا قومی استقامت کے دن پر پیغام
  • گلگت بلتستان، وحدت، بصیرت اور امن کی سرزمین
  • 8 اکتوبر زلزلہ: جب قوم نے مصیبتوں کو عزم و ایمان سے شکست دی، صدر زرداری
  • 8 اکتوبر 2005 کا ہولناک زلزلہ: 2 دہائیوں بعد بھی بحالی کا کام نامکمل
  • 8 اکتوبر کا زلزلہ‘ یوم استقامت آج‘ آفت کا مقابلہ یکجہتی سے کیا: زرداری 
  • گلدستہ پاکستان اور سیاست کا کھیل
  • حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ سی ای سی کرے گی: قاسم گیلانی
  • حماس کی مزاحمت کے دو سال مکمل، جماعت اسلامی کل یوم یکجہتی منائے گی
  • بلتستان داستان (دوسرا حصہ)