’وہ پارسل کی کال نہیں بلکہ ایک بہت بڑی مشکل کی دستک تھی’
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
تقریباً 2 ہفتے پہلے کی بات ہے کہ صبح کے مصروف وقت میں مجھے ایک کال آئی جس کے ذریعے مجھے اطلاع دی گئی کہ ’میرا پارسل آیا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں سائبر کرائم ایجنسی کی کارروائی، بلیک میلنگ اسکینڈل بے نقاب
میں آن لائن خریداری کرتی رہتی ہوں اس لیے ایک پل کے لیے مجھے لگا شاید میں نے واقعی کچھ آرڈر کیا ہوا تھا اور اب بھول گئی ہوں۔ مگر جب کال کرنے والے نے کہا کہ پارسل ’دراز‘ سے آیا ہے تو میری حیرت بڑھی۔ مجھے اپنے کسی بھی حالیہ آرڈر میں ایسی کوئی چیز یاد نہیں آئی جو میں نے دراز سے منگوانے کے لیے آرڈر کی ہو۔
یہ روداد وی نیوز کو سدرہ اسلم نے سنائی جن کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ اسلام آباد کی ایک آئی ٹی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔
انہوں نے اپنے ساتھ حالیہ ہونے والے ایک تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ 2 ہفتے قبل انہیں ایک ایونٹ پر جانا تھا۔ جس کے لیے انہوں نے آن لائن کچھ شاپنگ کر رکھی تھی۔ لیکن انہیں آن لائن آرڈر کردہ تمام چیزیں موصول ہو چکی تھیں لیکن اس کے باوجود پارسل کی کال نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جس کے بارے میں اگر وہ سوچے سمجھے بنا فیصلہ کر لیتیں۔ تو ایک بہت بڑی مشکل سے دوچار ہو سکتی تھیں۔
سدرہ کہتی ہیں کہ بات آگے بڑھی تو پتا چلا کہ پارسل پیڈ ہے یعنی ڈیلیوری چارجز اور جو پروڈکٹس اس پارسل میں موجود ہیں ان کی قیمت پہلے ہی ادا ہو چکی ہے جس چیز نے مجھے مزید کنوژن میں مبتلا کر دیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے اور میری یاداشت بھی اتنی کمزور نہیں ہے کہ بالکل بھی یاد نہ آئے کہ آخر میں نے منگوایا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے دوبارہ پوچھا کہ آرڈر کی تفصیل کیا ہے تو نام اور فون نمبر اور جو پتا مجھے بتایا گیا۔ حیران کن طور پر وہ میرے ہی گھر کا تھا۔ شک یقین میں بدلنے لگا۔ کیا میں واقعی کوئی آرڈر کر کے بھول گئی ہوں مگر دل یہ بات قبول کرنے پر رضامند نہیں تھا۔ کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کچھ آرڈر کر کے بھول گئی کیونکہ ہمیشہ آرڈر کرنے کے بعد نہ صرف وہ چیز ذہن میں ہوتی ہے بلکہ اس کے آنے کا بے صبری سے انتظار بھی ہوتا ہے۔
کال کرنے والے نے تربیت یافتہ لب و لہجے کے ساتھ کہا کہ آپ گھر پر ہیں؟ ہم آپ کو ایک گھنٹے میں پہنچا دیں گے۔ میں نے سوچا ٹھیک ہے پہنچا دیں لیکن یہ جملہ ابھی ختم ہوا نہیں تھا۔ کہ کال پر موجود صاحب نے فورا سے بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن پہلے رجسٹریشن کروا لیں۔ آپ پہلے بس اپنی تفصیلات بتا دیں تاکہ سسٹم میں انٹر کر دوں۔
سدرہ نے کہا کہ ’میں نے ان سے کہا کہ آپ کو میں کچھ دیر تک کال کرتی ہوں، ابھی میں بزی ہوں چونکہ میں اس وقت باہر تھی اور کال پر دھیان نہیں دے پا رہی تھی شاید یہی میری خوش قسمتی تھی‘۔
مزید پڑھیے: بڑھتے ہوئے سائبر فراڈز میں اے آئی کا استعمال، جعل سازی سے کیسے بچا جائے؟
اسی نمبر سے کچھ دیر بعد دوبارہ کال آنا شروع ہوگئی اور کہا گیا کہ آپ تفصیلات درج کروا دیں تاکہ رائیڈر آپ کے علاقے کی طرف آرہا ہے تو آپ کا پارسل بھی ڈیلیور کر دے۔ میں نے جب اس سے کہا کہ کیا تفصیلات چاہییں تو کہا گیا آپ کو اسی نمبر پر ایک کوڈ بھی موصول ہوگا وہ بتا دیں۔
میں عجلت میں تھی اس لیے کوڈ ڈھونڈنے کے لیے میسجز دیکھنا شروع ہوگئی۔ یہ واقعی میرا اچھا دن تھا کہ بہت غور کرنے کے بعد بھی مجھے میسجز میں وہ کوڈ نہیں مل رہا تھا۔ اسی دوران مجھے ایک غیر ملکی نمبر سے بھی کال آنے لگی جسے میں نے فورا کاٹ دیا کہ پتا نہیں کون ہے کیونکہ پہلے ہی اتنی الجھی ہوئی تھی۔ وہ بار بار ٹائم دے کر بولتے رہے کہ ’کوڈ ڈھونڈ لیں‘، میں دفتر جانے کی جلدی میں تھی، دماغ راستے کی ٹریفک اور دن کے شیڈول میں کھویا ہوا تھا لہٰذا چاہ کر بھی میں میسج تلاش نہ کر سکی۔
سدرہ نے مزید بتایا کہ اسے وہ کال تقریبا 3 بار موصول ہوئی بلکہ اس کو پارسل کی کال نہیں مشکل کی دستک کہا جائے تو زیادہ بہتر الفاظ ہونگے لیکن ہر بار وہ کچھ کہہ کر ٹال دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ کہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس غیر ملکی نمبر سے بھی کال اسی وقت آنا شروع ہوتی تھی جس وقت پارسل کے لیے کال آتی تھی جس سے مجھے واقعی یقین ہوگیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تیسری بار کال اٹھائی تو میں سمجھ گئی تھی۔ وہ شخص دوبارہ کوڈ کے حوالے سے کہنے لگا۔ دراصل وہ اس کوڈ کو آرڈر نمبر کا نام دے رہا تھا اور بہت حیران کر دینے والی بات یہ بھی تھی۔ وہ نمبر پر کوڈ ڈھونڈنے کی جو بات کر رہا تھا۔ وہ تو دراصل اس نے نمبر پر بھیجا ہی نہیں تھا۔ وہ صرف مجھے ٹریپ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ جب میں نے اسے کہا کہ مجھے نمبر پر کوئی پارسل کوڈ موصول نہیں ہوا تو اس نے فٹ سے کہا کہ واٹس ایپ پر بھی بھیجا ہے وہاں سے دیکھ کر بتا دیں۔ جس پر میں سب سمجھ گئی اور فوراً کال کاٹ دی اور اس نمبر کو بلاک بھی کر دیا۔
سدرہ نے کہا کہ دنیا کی دھوکے بازی پر بہت تعجب ہوا اور دفتر پہنچ کر جب واٹس ایپ کھولا تو واقعی موبائل اسکرین پر ایک کوڈ تھا۔ وہی کوڈ جس کی بارہا درخواست کی جا چکی تھی۔ تب ہی سب واضح ہوا کہ کال پر کیے گئے اصرار کا مقصد وہ کوڈ حاصل کرنا تھا۔ یقیناً واٹس ایپ یا کسی اکاؤنٹ تک رسائی کا ٹکٹ۔ اس وقت میں نے اپنی اس ہلچل کی صورتحال پر واقعی شکر ادا کیا اور دیر سے ہی سہی مجھے اس اسکیم کی سمجھ ضرور آ گئی تھی۔
سدرہ کہتی ہیں۔ کہ یہ کوئی عام پارسل نہیں تھا بلکہ ایک چال تھی اور اگر میں نے وہ کوڈ بتا دیا ہوتا تو شاید میری کہانی بالکل مختلف موڑ اختیار کر چکی ہوتی۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں خطرناک ’بلو لاکر‘ سائبر حملوں کا خدشہ، سرکاری اداروں کو ہائی الرٹ
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو یکم جولائی 2024 سے 29 اکتوبر 2024 تک 1،426 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے تقریباً 1،500 اکاؤنٹس ہیک ہونے کی تصدیق ہوئی۔ اس عرصے میں 549 اکاؤنٹس بحال کیے گئے جبکہ 877 پر تحقیقات جاری تھیں۔
جبکہ جنوری 2025 میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کو 233 اسکیم کالز کی رپورٹس ملیں جن میں واٹس ایپ ہیکنگ کے لیے کوڈ شیئر کرنے کی کوشش شامل تھی۔
صرف یہی نہیں 2 دن قبل پاکستانی اداکارہ زینب رضا نے انسٹاگرام پر اپنے ساتھ ہونے والا کچھ ایسا ہی تجربہ شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حال ہی میں ایک کال موصول ہوئی جس میں مخاطب نے خود کو کوریئر کمپنی کا نمائندہ بتاتے ہوئے کہا ’لیپرڈ کوریئر سے نعمان بول رہا ہوں، آپ گھر پر ہیں؟ پارسل ڈیلیور کرنا ہے‘۔ زینب کہتی ہیں کہ انہوں نے عادتاً کہا کہ گھر پر کسی کا نمبر دے دیتی ہوں آپ ڈیلیور کر دیں۔ لیکن اس کے بعد زینب نے ان سے پوچھا کہ پارسل ہے کیا جس کے بعد کال پر موجود بظاہر خود کو کوریئر کمپنی کا نمائندہ بتانے والے شخص نے کہا کہ پارسل ٹیمو سے ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں حیران تھی کہ میں نے ٹیمو سے کچھ آرڈر نہیں کیا۔ جب کہا گیا کہ پارسل کی تصویر بھیج دیں۔ تو اس شخص نے کہا کہ آپ کو واٹس ایپ پر ایک کوڈ بھیج رہا ہوں۔ وہ بتائیں میں تصویر بھیجتا ہوں۔ اس وقت سمجھ میں نہیں آئی لیکن اسی وقت واٹس ایپ پر ایک کوڈ آیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھی ایک کوڈ موصول ہوا۔ ایک واٹس ایپ پر نوٹیفیکیشن بھی آیا کہ کیا آپ کسی اور موبائل پر واٹس ایپ لاگ ان کرنا چاہتے ہیں۔ میں شروع میں تھوڑی سی کنفیوز ہوئی۔ لیکن مجھے فورا احساس ہوا۔ کہ اوہ یہ تو میرا فون اور واٹس ایپ ہیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ کا پورا نام کیا ہے۔ مجھے اس نے کہا نعمان میں نے کہا کہ اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیجو جس پر اس نے گالی دی مجھے اور فون بند کر دیا۔
زینب کہتی ہیں کہ ’اتنی تو عقل میرے اندر ہے لیکن اگر مں جلدی میں بنا سوچے کوڈ بتا دیتی تو میرا واٹس ایپ ہیک ہو جاتا اور میں کچھ بھی نہ کر پاتی۔
سائبر سیکیورٹی کے ماہر محمد اطہر عبدالجبار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آن لائن دھوکہ دہی کے بیشتر کیسز عمومی نہیں بلکہ ہدف بنا کر کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہیکرز اکثر فرد کی جنس، عمر، پیشہ اور آن لائن موجودگی کو مدِنظر رکھ کر ٹارگٹ کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ خواتین اور مشہور شخصیات زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: 100 سالہ شہری، ڈیجیٹل گرفتاری اور ایک کروڑ سے زائد روپے کا فراڈ
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کے ساتھ جذباتی یا پروفیشنل انداز میں بات کر کے اعتماد حاصل کیا جاتا ہے اور پھر ان سے واٹس ایپ یا سسٹم لاگ ان کوڈ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
محمد اطہر نے کہا کہ یہ ایک باقاعدہ سائبر’سوشل انجینیئرنگ‘ تکنیک ہے جس سے بچنے کے لیے عوامی آگاہی، احتیاط اور 2 مرحلوں پر مبنی سیکیورٹی نہایت ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سائبر فراڈ سائبر کرائم کوڈ کا فراڈ واٹس ایپ واٹس ایپ پر فراڈ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سائبر فراڈ واٹس ایپ واٹس ایپ پر فراڈ انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ پر پر ایک کوڈ سے کہا کہ کہ پارسل نہیں تھا پارسل کی موصول ہو کی کوشش رہا تھا آن لائن کے بعد کال پر کر دیا کے لیے
پڑھیں:
آپ کی ترجیحات…
تین چار دن پہلے ہی کی بات ہے… خاندان میں ایک فوتگی ہو گئی، جانا تھا ہمیں چکلالہ اسکیم ٹو میں۔ راولپنڈی میں تو آج کل کہیں جانا یوں بھی سزا بنا ہوا ہے، کچہری چوک جو کہ شہر کی شہ رگ جیسی جگہ ہے، اس کی تعمیر نو کا کام ہو رہا ہے اور جہاں پہلے بیس منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا، اب وہاں دو گھنٹے اور بیس منٹ میں بھی پہنچ جائیں تو لگتا ہے کہ کوئی جنگ جیت لی ہو۔
ذرا سا کام یاد آتا تھا تو چل پڑتے تھے ،گاڑی کی چابی اٹھا کر، اب تو کوئی نام لے کر راولپنڈی کے کسی بھی علاقے میں جانے کا کہے تو لگتا ہے کہ اس نے سزا تجویز کر دی ہو، اور جب کہیں میت ہو تو جانا پڑتا ہے، اس وقت کوئی عذر کام نہیں کرتا۔
منٹوں کے سفر کو گھنٹوں میں طے کر کے عین جنازے کے وقت پہنچ گئے، شکر کیا اور بعد از جنازہ عازم واپسی ہوئے، چکلالہ اسکیم ٹو سے نکل کر راول روڈ کی طرف سے ہوتے ہوئے، پرانے ائیر پورٹ والے راستے سے اسلام آباد ہائی وے پر پہنچ کر وہاں سے روات کی سمت واپس مڑتے اور منزل کے قریب پہنچ جاتے۔
راول روڈ پہنچے تو ٹریفک جام نظر آیا۔ لوگ گاڑیوں کے انجن بند کر کے باہر نکل کر دھوپ سینک رہے تھے۔ ’’ آگے کیا مسئلہ ہے؟‘‘ گاڑی کا شیشہ اتار کر ایک سفید داڑھی والے بابے سے سوال کیا، وہ بھی اپنی بائیک بند کر کے اس کے پاس ہی کھڑے تھے۔
’’ آنٹی… آج بجلی والی بسوں کا افتتاح ہے نا!!‘‘ اس نے انتہائی مودب لہجے میں جواب دیا۔
’’ شکریہ بیٹا!‘‘ کہہ کرمیں نے گاڑی کا شیشہ بند کر لیا۔’’خالہ گاڑی میں کچھ کھانے کو ہے؟‘‘ چھوٹی سی بھانجی نے سوال کیا، ’’ بھوک بھی لگ رہی ہے اور پیاس بھی‘‘
’’ پچھلی سیٹوں پر دیکھو بیٹا!‘‘ میں نے اسے کہا تو اس نے دیکھ بھال کر بتایا کہ کچھ بھی وہاں نہ تھا۔ ارد گرد بھی کوئی دکان یا کھوکھا نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک تو ان بچوں کے ساتھ یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ سویرے اٹھ کر ناشتہ نہیں کرتے اور… اور کیا، کسے معلوم کہ کس وقت کہاں کس نوعیت کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے-
’’ اچھا میں گاڑی کی ڈکی میں دیکھتی ہوں‘‘۔ میں نے احتیاط سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکلی۔ باہر تو مکھیوں کی طرح مانگنے والے تھے، چمٹ ہی جاتے ہیں، انھی کی دعاؤں کی وجہ سے روٹ لگتے ہیں۔
میں نے ان سے معذرت کرتے کرتے ڈکی کھولی اور اس میں سے ایک لفافہ نکال کر لائی جو ایسے ہی ہنگامی حالات کے لیے رکھا ہوتا ہے۔
اس میں چپس کے دو تین پیکٹ اور ایک سیون اپ کی بوتل بھی تھی۔ واپس گاڑی میں بیٹھنا بھی ایک مرحلہ تھا، دائرے میں گھیرے ہوئے بھکاریوں سے بچتے بچاتے گاڑی میں داخل ہو جانا بھی کمال کا تھا۔
بھانجی کو پیکٹ پکڑائے، اس نے پہلا بڑا سا پیکٹ کھولا، جس میں ہوا کے ساتھ دس بارہ چپس بھی تھے، باقی دو پیکٹ ہم باقی لوگوں نے آپس میں مل بانٹ کر کھائے اور جتنے چپس ان میں ہوتے ہیں، ا س کے مطابق تین تین چپس سب کو مل ہی گئے۔
ہمیں اس ایک ہی مقام پر گاڑی بند کرکے بیٹھے ہوئے پچاس منٹ ہو گئے تھے۔ اسکولوں سے چھٹی کا وقت بھی ہو گیا تھااور اس ٹریفک جام میں اضافہ کرنے کو کتنی ہی مزید گاڑیاں شامل ہو گئی تھیں۔ ’’ شکر ہے کہ ہم جاتے ہوئے اس قسم کے ٹریفک جام میں نہیں پھنسے ورنہ جنازے پر نہ پہنچ پاتے‘‘ ۔
اس مصیبت میں بھی کسی کے ذہن میں یہ مثبت نکتہ آیا تھا۔ یہ تو واقعی اچھا ہوا تھا، سمدھیانے کا معاملہ تھا، اگر نہ پہنچ پاتے تو جانے وہ کیاسوچتے۔ اس رش میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ماسوائے گاڑیوں کے ہارن کے، صرف آوازیں ہی نہیں ۔ شہری ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے تھے ۔
ایک ماہ پہلے ہی تو ہماری بہو کی نانی کی وفات ہوئی اور وہ دن تھا جس دن جی ٹی روڈ اورلاہور اور اسلام آباد والی موٹر وے کے جانے اور آنے کے راستے بند تھے۔
ایسی بدقسمتی کہ ان کے تین بھائیوں میں سے کوئی بھی نہ پہنچ سکا اور نہ ہی ہماری بہو اور بیٹا۔ کیا کمال ہے کہ عام رکشہ اور گاڑی تک چلانے کے لیے آدھا شہرسڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے بند ہے۔
کہاں چلیں گی یہ برقی بسیں اور شہر کی سڑکوں کی تعمیر کا کام مکمل ہو جانے کے بعد اس منصوبے کا افتتاح ہوتا تو شاید بات دل کو لگتی بھی۔ ویسے بھی پروٹوکول والے اگر اپنی ایک گاڑی میں بیٹھ کر خاموشی سے نکل جائیں تو انھیں کیا ہو جائے گا؟
آپ نے بھی اس بادشاہ کی کہانی سنی ہو گی کہ جسے عوام پر ظلم کرنے کا اور اپنی حکومت مضبوط کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے اپنے عوام کو اتنے بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا کہ وہ پیٹ بھر کر کھانابھی نہیں کھا سکتے تھے-
پھر اس بادشہ کو لگا کہ عوام کھانا تو نہیں کھا سکتے مگر سکون سے سوتے ہیں، وہ تو ان کے بس میں نہ تھا، نیند تو بھوکے کو بھی آجاتی ہے، سولی پر بھی آ جاتی ہے- تب اس بادشاہ نے حکم صادر فرمایا کہ ہر روز جو لوگ صبح دریا کا پل پار کر کے شہر میں کام کرنے کو داخل ہوں گے، انھیں سرکاری ہرکارے دس دس ’’ لتر‘‘ لگایا کریں گے-
یوں عوام بے وجہ اس بادشاہ کی حس تکبر کی تسکین کے لیے دس دس لتر کھا کر شہر میں داخل ہونے لگے- کچھ عرصہ گزرا تو لوگوں نے دبا دبا احتجاج شروع کردیا ، ایک دن لوگ جو ابھی تک شہر میں داخل نہ ہوسکے تھے وہ نعرے لگانے لگے-
بادشاہ کے کانوں تک نعروں کی آواز پہنچی تو اس نے اپنے وزراء کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ اتنی سختی کے باوجود بھی عوام میں سرکشی آ گئی ہے اور وہ نعرے لگا رہے ہیں۔ یقینا انھوں نے میرے خلاف کوئی سازش تیار کی ہے۔
وزراء کا ایک وفد مشورے کے بعد تیار کیا گیا اور انھیں بھجوایا گیا کہ وہ لوگوں سے مذاکرات بھی کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ کس مطالبے کو منوانے کے لیے سازش تیار کی گئی ہے۔ وزراء کو اپنی طرف آتے دیکھ کرلوگوں میں جوش اور خروش بڑھ گیا اور انھوں نے اور بھی بلند آواز سے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
سب سے سینئر وزیر نے لوگوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور سوال کیا کہ ان کا کیا مسئلہ تھاا ور مطالبہ کیا تھا۔ وہ بادشاہ کی طرف سے آنے والا وفد تھا اور ان کے پاس صرف بات سننے کے اختیارات تھے اور عوام کو سختی سے سمجھانے کا حکم۔
نعرے بند ہو گئے اور نعرے لگانے والوں میں سے چند بزرگ لوگ آگے بڑھے، تعظیم سے سر جھکا کر عرض کی، ’’ سرکار، ہمیں ہر روز صبح شہر میں کام کے لیے داخل ہو نے سے پہلے دس دس لتر کھانا ہوتے ہیں، اب کام کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور آپ کے لتر مارنے والے اہلکاروں کی کم۔
اس لیے ہمیں شہر میں داخلے ہی میں آدھا دن گزر جاتا ہے، ہمیں کام کرنے اور واپس گھر جا کر آرام کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ درخواست ہے کہ ہرکاروں کی تعداد بھی بڑھائی جائے اور انھیں حکم دیا جائے کہ و ہ ہمیں دونوں دونوں ہاتھوں سے لتر ماریں تا کہ ہمیں آدھے وقت میں لتر لگ جائیں اور ہمارے پاس بیگار کا وقت زیادہ ہو جائے‘‘
ہماری بھی یہی صورتحال ہے ۔ راستے بند ہونے سے لوگوں کی شادیاں، جنازے اور پروازیں چھوٹ جاتے ہیں۔ ایمبیسیوں کی اپانٹمنٹ منسوخ ہو جاتی ہیں، بچوں کے امتحانات ملتوی ہوجاتے ہیں اور ان کی محنت برباد ہوتی ہے۔
لوگوں کو ٹائیلٹ جانے کی حاجت ہوتی ہے اور جانے کیا کیا مسائل کہ جن کا کسی کو ادراک بھی نہیں۔ اگر پھر بھی بہت ضروری ہے کہ عوام کو تنگ کرنے کے لیے راستے بند کرنا ہوں، روٹ لگانا ہوں۔
مظاہرہ کرنے والوں نے سڑکوں پر جلوس نکالنے کے راستے روکنے کے لیے رکاوٹیں لگانا مقصود ہوں تو ان جگہوں پر کوئی تفریحی مقامات بنا دیں، ٹائیلٹ اور اسپتال بنا دیں، کھانے پینے کے اسٹال لگا دیں تا کہ ہم لتر تو کھائیں مگر کوئی بھوک سے مرے اور نہ ایمبولینس میں سسک سسک کر۔