Islam Times:
2025-11-24@13:34:43 GMT

فلسطین مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

فلسطین مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے

اسلام ٹائمز: یہ جنگ بندی کا معاہدہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس اب محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ اسرائیل اور مغرب کے تمام دباؤ کے باوجود حماس کو مذاکرات کا فریق تسلیم کرنا ایک بڑی سفارتی فتح ہے۔ علاوہ ازیں، فلسطینی عوام میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور دیگر عرب ممالک میں بھی حماس کی مزاحمتی پالیسی کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے اور مزاحمت کے اس سفر میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ غزہ کے ملبے تلے دفن ہونے والے شہیدوں نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں بلکہ مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے اور یہ جنگ بندی، دراصل اس مزاحمت کی فتح کا ایک اور باب ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

سات اکتوبر 2023ء کو غزہ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں شروع ہونے والی نسل کشی کو دو سال مکمل ہوچکے ہیں۔ دو سال تک مغربی دنیا تماشا دیکھنے کے بعد اب فلسطین میں امن کے لئے ظاہری کوشش میں نظر آرہی ہے۔ صرف تماشہ ہی نہیں بلکہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے غزہ میں جاری نسل کشی کی بھرپور مدد بھی کی ہے۔ حالیہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے اکیس نقاط کا امن معاہدہ متعارف کروایا، جس کو مسلم دنیا کے آٹھ ممالک نے بھی تسلیم کیا اور اب اسی فارمولہ کی کچھ شکل تبدیل ہونے کے بعد حماس نے بھی ترکیہ، قطر اور مصر کے عہدیداروں کی موجودگی میں تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ حماس نے نہیں بلکہ امریکہ نے تسلیم کیا ہے۔ کیونکہ جو معاہدہ امریکی صدر نے تشکیل دیا تھا، اس میں کئی ایک ترامیم حماس کی جانب سے کی گئی تھیں اور اب اس معاہدے پر بتایا جا رہا ہے کہ تمام فریقین متفق ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ایک خطرہ اب بھی منڈلا رہا ہے اور وہ ہے کہ نیتن یاہو کہ جو ہمیشہ سے ہٹ دھرمی سے کام لیتا آیا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ امریکی حکومت کہ جس نے گذشتہ دو برس میں کم و بیش چھ مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، اب آخر ایسی کون سے قیامت آن پڑی ہے کہ امریکی صدر اس قدر عجلت میں ہیں کہ مسلسل بیانات دیئے جا رہے تھے کہ جلد از جلد اس معاہدے کو تسلیم کیا جائے۔ اس سوال کا جواب شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غزہ کی دلدل میں دھنستے ہوئے نیتن یاہو کو نکالنے کے لئے امریکی صدر ٹرمپ عجلت میں ہیں۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح کریڈٹ لینے کی دوڑ میں ٹرمپ دوڑے چلے جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کو نوبل انعام دے دیا جائے۔

حالانکہ حقیقت تو اس کے برعکس ہے کہ امریکی حکومت نے اربوں ڈالر کا اسلحہ صرف ان دو سالوں میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو دیا ہے اور امن کے لئے آنے والی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے تو اب یہ نام نہاد امن معاہدے کی حقیقیت ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ بہرحال غزہ میں جاری طویل اور تباہ کن جنگ کے بعد ہونے والا حالیہ جنگ بندی معاہدہ فریقین نے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف عسکری لحاظ سے بلکہ سیاسی و اخلاقی محاذ پر بھی فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور فلسطینی عوام کی بے مثال مزاحمت اور اہل غزہ کی استقامت کا ثمر ہے کہ حماس کی جانب سے از سر نو تشکیل دیا جانے والا معاہدہ تسلیم کے مراحل میں آچکا ہے۔ یہ معاہدہ ایک معمولی جنگ بندی نہیں بلکہ طاقت کے توازن میں ایک نمایاں تبدیلی کا مظہر ہے، جس نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر کو توڑ کر رکھ دیا۔

حماس کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس جنگ کے دوران جس حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف عسکری لحاظ سے موثر تھی بلکہ نفسیاتی اور سفارتی محاذ پر بھی کامیاب ثابت ہوئی۔ حماس نے جو جنگ سات اکتوبر 2023ء کو میدان میں جیت لی تھی، اسے دو سال تک بیانیہ کے میدان میں بھی جیت کر دکھایا اور اب دو سال بعد جب امریکی صدر ٹرمپ اپنی شکست کو مذاکرات کی میز پر کامیابی میں بدلنا چاہتا تھا، اس موقع پر بھی حماس نے بہترین سفارتکاری کا مظاہرہ کیا اور میز پر بچھائی شطرنج کی چال کو بھی دشمن کے لئے الٹا دیا ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک عظیم کامیابی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں حماس اور جہاد اسلامی نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اسرائیلی دفاعی نظام "آئرن ڈوم" کو چیلنج کیا۔ اسے ناکام بنا کر دکھایا۔ اسی طرح غاصب صیہونی حکومت کا بھرم کہ اگر کوئی اسرائیل پر حملہ کرے تو اسرائیل کی صلاحیت ہے کہ وہ اگلے پانچ منٹ کے اندر اپنے نقصان کو ری کور کرسکتا ہے، اس بھرم کو حماس نے سات اکتوبر کے دن چار گھنٹے کے آپریشن میں مکمل طور پر دفن کیا اور دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے۔

مزاحمتی گروہوں نے غزہ کے محصور علاقے سے مزاحمتی کارروائیوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ طاقت صرف عسکری ساز و سامان سے نہیں بلکہ عزم و ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے ساتھ غاصب اسرائیلی عوام اور فوج میں خوف اور عدم اعتماد پیدا کیا۔ عالمی رائے عامہ پہلی بار کھل کر فلسطینیوں کے حق میں بولنے لگی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اسرائیل ایک غاصب اور سفاک اور دہشت گرد ریاست ہے، جو انسانیت کی دشمن ہے۔ یہ سب کچھ سات اکتوبر کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ جنگ کے میدان کے بعد سفارتی میدان میں بھی حماس نے بین الاقوامی میڈیا پر بیانیہ تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیل کی جنگی جرائم پر عالمی سطح پر تحقیقات کے مطالبات میں اضافہ ہوا۔

حالیہ جنگ بندی معاہدے کے تحت درج ذیل نکات نمایاں ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینی دھڑوں اور مزاحمتی گروہوں کی رضامندی اور ان کی بہترین حکمت عملی کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ غزہ سے غاصب اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء جبکہ امریکی معاہدے میں جزوی انخلاء کی بات کی گئی تھی، اسی طرح غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امدادی کارروائیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ صرف اسرائیلی قیدیوں کو نہیں بلکہ دونوں طرف کے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ غزہ کی تعمیر نو کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جانے پر بات چیت کی گئی ہے۔ فی الحال یہ مرحلہ وار معاہدہ ہے اور مزید تفصیلات آگے آنا باقی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے ایک عزت مندانہ سیاسی جیت ہے۔ یہ جنگ بندی کا معاہدہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس اب محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ اسرائیل اور مغرب کے تمام دباؤ کے باوجود حماس کو مذاکرات کا فریق تسلیم کرنا ایک بڑی سفارتی فتح ہے۔ علاوہ ازیں، فلسطینی عوام میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور دیگر عرب ممالک میں بھی حماس کی مزاحمتی پالیسی کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے اور مزاحمت کے اس سفر میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ غزہ کے ملبے تلے دفن ہونے والے شہیدوں نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں بلکہ مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے اور یہ جنگ بندی، دراصل اس مزاحمت کی فتح کا ایک اور باب ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مزاحمتی گروہوں فلسطینی عوام یہ جنگ بندی مزاحمت اور سات اکتوبر امریکی صدر کہ امریکی نہیں بلکہ کے باوجود یہ معاہدہ تسلیم کر بھی حماس حماس کی کے بعد رہا ہے کے لئے ہے اور دو سال دیا ہے

پڑھیں:

علامہ اقبال: فکر، فن اور بصیرت کے منفرد سفر کا زندہ مکالمہ

اسٹنٹ پروفیسر ،ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ ، نمل یونیورسٹی، کراچی کیمپس

مختلف اشیاء کی نمائش کے ایونٹ تفریح کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ہماری معلومات میں اضافے اور آگاہی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ یہ ابھی ایک ایسی ہی نمائش کا احوال ہے۔

 یومِ اقبال کے موقع پر اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری میں ایک منفرد نمائش کا آغاز ہوا، جو علامہ محمد اقبال کی زندگی، شاعری اور فلسفے پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ نمائش محض ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے، جو موجودہ نسل کو شاعرِمشرق کے خیالات اور ان کے دیرپا اثرات سے روشناس کراتا ہے۔ نمائش 10 نومبر سے 30 نومبر تک صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک عوام کے لیے کھلی رہے گی۔

اس منفرد نمائش نے زائرین کو محض دیکھنے والے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک فعال شریکِ مکالمہ کی طرح شاعرِ مشرق کی فکری دنیا میں لے جانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ نمائش زائرین کو فلسفی شاعر کے خیالات اور ان کے غیرمعمولی زندگی کے سفر سے روشناس کراتی ہے۔

اس نمائش کا مقصد صرف علامہ اقبال کی زندگی کی جھلکیاں دکھانا نہیں بلکہ اُن کے فلسفے اور خیالات کو آج کے نوجوانوں کی بصیرت سے جوڑنا ہے، تاکہ وہ قومی اور عالمی سطح پر ان کے پیغام کی اہمیت کو محسوس کرسکیں۔ نمائش کا اختتام اقبال کی شاعری کے لیے وقف ایک گہری فکری اور روحانی پیشکش پر ہوتا ہے، جس میں قرآنی عکاسی کے ذریعے ان کے کام کی روحانی بنیاد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ نمائش دراصل ایک علمی و تخلیقی سفر ہے، جہاں ماضی اور حال کے درمیان، شعر و خیال اور رنگ و صورت کے درمیان ایک پراثر رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ زائرین نہ صرف اقبال کے کلام کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ اْس کے اثرات کو معاصر فنون کے ذریعے محسوس بھی کر سکتے ہیں۔

اقبال کی زندگی کے دروازے پر پہلی دستک -ایک فکری سفر

نمائش کا پہلا حصہ اقبال کی ابتدائی زندگی اور فکری ارتقا کا احاطہ کرتا ہے۔ نایاب تصاویر، ذاتی دستاویزات اور اْن کے تعلیمی و ادبی سفر کی ٹائم لائن زائرین کو بتاتی ہے کہ سیالکوٹ کے ایک حساس دل رکھنے والے طالبِ علم نے کس طرح یورپ کی دانش گاہوں میں علم کے نئے جہان دریافت کیے، فلسفہ پڑھا، شاعری کو وسیلہ بنایا اور پھر اسی شعور کو اپنی قوم کی اجتماعی بیداری کا ذریعہ بنا دیا۔

تصاویر اور پینلز میں اقبال کا خاندانی ماحول، اُن کے اساتذہ سے تعلقات، یورپ میں گزارا ہوا وقت، اور وطن واپسی کے بعد کا فکری سفر اس طرح نمایاں کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا محسوس کرتا ہے جیسے وہ شاعر کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو—ان کے اندرونی تضادات، ان کی تلاش، ان کا سوال، ان کا جواب… سب کچھ سامنے کھلتا جاتا ہے۔

اقبال کے تعلیمی اور ادبی سفر کی ٹائم لائن ہر عمر کے زائرین کے لیے ایک تعلیمی تجربہ ہے۔ یہاں اُن کی ابتدائی تحریروں، نظموں اور فلسفیانہ نکات کی تفصیل دی گئی ہے، جو بعد میں ان کے عظیم خیالات اور نظریات کی بنیاد بنی۔

ذاتی اشیا

نوادرات جو شاعر مشرق کی زندگی و سانسوں کی خوشبو لیے ہوئے ہیں۔

سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اس شاعر کی بچپن کی یادیں، تعلیمی سفر، اساتذہ کے ساتھ تعلقات، اور یورپ میں فلسفہ و شاعری کے مطالعے کی جھلکیاں نایاب تصاویر اور تعارفی پینلز کی صورت میں پیش کی گئی ہیں۔ یہ حصہ دیکھنے والوں کو محسوس کراتا ہے کہ وہ شاعر کے ساتھ اس کے سفر میں شریک ہیں۔ نمائش میں اقبال میوزیم جاوید منزل سے لائی گئی ذاتی اشیا بھی شامل ہیں، جن میں اُن کا قلم، چشمہ اور ذاتی ڈائری شامل ہیں۔ یہ اشیا صرف تاریخی یادگاریں نہیں بلکہ ان کے وجود کی جھلکیاں ہیں جو دیکھنے والوں کے احساسات کو چھو جاتی ہیں۔ قلم کی ہر حرکت میں ایک پوری قوم کے مستقبل کا عکس نظر آتا ہے، اور ڈائری کے صفحات شاعر کی فکری جستجو کی کہانی سناتے ہیں۔

اقبال کی شاعری—لفظ اور روشنی کا امتزاج

نمائش کا سب سے دل کش حصہ اقبال کی شاعری پر مبنی ہے۔ بڑے خطاطی پینلز پر بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے منتخب اشعار کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ آج بھی اسی شدت کے ساتھ دلوں کو جھنجھوڑتے ہیں۔

نمائش میں ایک آڈیو-ویڈیو کارنر بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں پیشہ ورانہ ریکارڈنگ کے ذریعے اقبال کے اشعار اور ان کی قرآنی تعبیرات سنائی جاتی ہیں۔ یہ تجربہ زائرین کو شاعری کی روحانی اور فکری گہرائی تک لے جاتا ہے۔ ہر لفظ میں ماضی اور حال کی گونج محسوس ہوتی ہے، اور قاری کو شاعر کے کلام کے ساتھ ایک فعال مکالمے کا موقع ملتا ہے۔

فکرِاقبال کی خودی کے فلسفے کا وہ چراغ جو آج بھی جل رہا ہے

اقبال کے تصورِ خودی اور الہام کی پیچیدہ تفہیم کو بصری پینلز اور انٹرایکٹو مواد کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ خودی کو صرف خود شناسی نہیں بلکہ عمل، غیرت، خودداری اور قومی شعور کے امتزاج کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہر پینل نوجوانوں کے لیے ایک دعوت ہے کہ وہ اپنے کردار اور قوم کی خدمت میں عملی حصہ ڈالیں۔

’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ سے منتخب اقتباسات کو نہایت نفاست سے بصری پینلز کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ خودی کے تصور کی layered تفہیم—یعنی خودشناسی، خود داری، غیرتِ ملی، انسانیت کے ساتھ تعلق، اور عمل کا فلسفہ—ہر پینل سے جھلکتا ہے۔ بہت سے نوجوان یہاں کھڑے ہو کر دیر تک سوچتے رہتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ یہ حصّہ اُن سے مکالمہ کرتا ہے۔ اقبال کا یہ پیغام کہ ’’قوموں کی تعمیر کردار سے ہوتی ہے، نعروں سے نہیں‘ آج بھی معاشرے کو سب سے زیادہ اسی نقطے پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

زندگی کی ابتدائی جھلکیاں اور فکری سفر

نمائش کا آغاز اقبال کی ابتدائی زندگی، تعلیمی پس منظر اور ان کے فکری ارتقا کی داستان سے ہوتا ہے۔ نایاب تصاویر، دستاویزات اور تعلیمی سفر کی ٹائم لائن زائرین کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ سیالکوٹ کے ایک نوجوان نے کس طرح یورپ کے دانش گاہوں میں علم حاصل کیا، فلسفہ پڑھا اور پھر وطن واپسی کے بعد اپنے خیالات کو قومی شعور کی خدمت میں ڈھالا۔ ہر پینل، ہر تصویر ایک کہانی سناتی ہے—اقبال کی کشمکش، جستجو اور سوالات کی دنیا کے بارے میں۔

نوادرات اور ذاتی اشیاء

نمائش میں اقبال کی ذاتی اشیا کی تصاویر کو بھی جگہ دی گئی ہے جو نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتی ہیں بلکہ یہ ایک حساس انسان کی سوچ اور جذبے کا آئینہ بھی ہیں۔ یہ اشیا دیکھنے والوں کو یہ باور کراتی ہیں کہ ایک عظیم شاعر اور مفکر بھی روزمرہ کی چھوٹی چیزوں سے جڑا ہوا تھا، اور یہی چھوٹی چیزیں اس کے بڑے نظریاتی سفر کی بنیاد بنتی ہیں۔

شاعری کی جمالیاتی جھلکیاں

نمائش کا ایک اہم اور دل کش حصہ اقبال کی شاعری سے متاثرہ بصری پینلز پر مشتمل ہے۔ بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے منتخب اشعار بڑے سائز کے خطاطی پینلز پر پیش کیے گئے ہیں۔ آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے زائرین اقبال کے کلام کا وجدانی تجربہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، جہاں ہر لفظ میں شاعر کے جذبات اور فکری عروج کی جھلک نظر آتی ہے۔

فکرِاقبال اور خودی کا تصور

اقبال کے فلسفے کی بنیاد خودی کے تصور پر ہے۔ اس نمائش میں بصری پینلز کے ذریعے یہ تصور زندگی کی مختلف جہتوں میں پیش کیا گیا ہے۔ خودی کا مطلب صرف ذاتی عزت و وقار نہیں بلکہ اجتماعی شعور، اخلاقی ذمے داری اور قوم کی تعمیر کا فلسفہ بھی ہے۔ ہر پینل دیکھنے والے کو غوروفکر پر مجبور کرتا ہے کہ کیسے ایک فرد اپنی ذات اور کردار کے ذریعے معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

یوم اقبال کی یاد کا جشن۔آرٹ کے ذریعے خراجِ تحسین

اس نمائش کی ایک نمایاں جھلک علامہ اقبال کے شاندار مجسمے کی صورت میں ہے، جسے معروف فنکار فکیرو سولنکی نے تیار کیا۔ اس کے علاوہ، معاصر فنون کی تخلیقات بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں قیدیوں اور دیگر شاگردوں کی جانب سے تیار کردہ پینٹنگز شامل ہیں۔ معروف مصور سکندر جوگی نے اپنے ان شاگردوں کو اقبال کی شاعری پر بصری ردعمل پیدا کرنے کی راہ نمائی کی، جس سے ایک نیا تخلیقی مکالمہ جنم لیا۔

فن کار اور تخلیقی اظہار

نمائش میں مختلف انٹرایکٹو سرگرمیاں بھی شامل ہیں، جو زائرین کو براہِ راست تخلیقی عمل میں شامل کرتی ہیں۔ نوجوان فن کاروں کی قیادت میں پورٹریٹ بنانے کے سیشن، اسکول کے طلبہ کے لیے پوسٹر ڈرائنگ، اور اقبال کے فلسفے پر اسکالرز کی گفتگو شامل ہیں۔ کم مراعات یافتہ اسکولوں کے بچوں نے اس موقع پر لائیو آرٹ اور پوسٹر میکنگ میں حصہ لیا۔ یہ نمائش زائرین کے لیے علامہ اقبال کے فلسفے اور شاعری کے دیرپا اثرات سے جڑنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔ جس سے یہ پروگرام نہ صرف فکری بلکہ سماجی طور پر بھی معنی خیز بن گیا۔

نمائش میں شامل فن کاروں میں غلام جان، پیار علی، امجد، ساجد علی، عمران کرامت، سارہ رفیق، مسکان لاشاری، اُمِ لیلیٰ، ماہنور افضل اور عائشہ الطاف شامل ہیں۔ ان نوجوان فن کاروں نے اقبال کے اشعار اور خیالات کو منفرد رنگوں، علامتی اشکال اور تخلیقی ساختوں کے ذریعے نئے انداز میں پیش کیا۔ کہیں خودی کے فلسفے کو مجرد شکلوں میں ڈھالا گیا، تو کہیں اشعار کی گونج رنگوں اور بناوٹ میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ پینٹنگز صرف بصری اظہار نہیں بلکہ ایک فکری مکالمے کا ذریعہ بھی ہیں۔

اقبال اور نوجوان نسل

نمائش میں نوجوانوں کو شامل کرنے کے لیے متعدد انٹرایکٹو سرگرمیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ ان میں پورٹریٹ بنانے کے سیشن، پوسٹر ڈرائنگ اور ’’اقبال کی زندگی اور خیالات کی تعبیرات‘‘ پر علماء کی گفتگو شامل ہیں۔ یہ سرگرمیاں نوجوانوں کو نہ صرف اقبال کے فلسفے کے قریب لاتی ہیں بلکہ انہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔

اقبال کا ادبی اور تاریخی مقام

نمائش میں اقبال کی ادبی اور تاریخی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ الٰہ آباد خطبہ، تحریکِ پاکستان کے حوالے سے تصاویر اور دستاویزات، اور ان کے دور کے دیگر اہم واقعات زائرین کو یہ دکھاتے ہیں کہ کس طرح ایک شاعر نے نہ صرف ادبی دنیا بلکہ سیاسی اور سماجی شعور پر بھی اثر ڈالا۔

بین الاقوامی اور تاریخی پہلو

نمائش کا ایک سیکشن اقبال اور تحریکِ پاکستان سے متعلق ہے۔ یہاں الٰہ آباد کا مشہور خطبہ اور تاریخی تصاویر پیش کی گئی ہیں، جو پاکستان کے قیام میں ان کے وژن کی اہمیت واضح کرتی ہیں۔ اقبال کو صرف شاعر کے طور پر نہیں بلکہ ایک مصلح اور نظریاتی راہ نما کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس نے برصغیر کی اجتماعی بیداری اور قوم کی تعمیر کے تصورات دیے۔

معاشرتی اور روحانی پیغام

اقبال کی شاعری اور فلسفہ آج بھی معاشرتی، اخلاقی اور روحانی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کو خودی، غیرتِ ملی، اور خدمتِ خلق کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ نمائش بھی اسی پیغام کو عام کرنے کی ایک کوشش ہے، جس سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکے کہ کس طرح ایک فکری راہ نما نے اپنی زندگی اور کلام کے ذریعے معاشرے کی بہتری کا نقشہ بنایا۔

نمائش کی اہم سرگرمیاں

ڈاکٹر معین الدین عقیل اور ڈاکٹر ارشد رضوی جیسے اسکالرز کی لیکچرز کے ذریعے فلسفی شاعر کے خیالات کی موجودہ دور میں اہمیت واضح کی گئی۔ یہ سیشنز زائرین کے لیے فکری مشق ہیں، جو اقبال کے پیغام کو عملی اور موجودہ دور کے تقاضوں سے مربوط کرتے ہیں۔

نمائش کے دوران متعدد ورکشاپس اور لیکچرز منعقد کیے گئے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ’’اقبال کی زندگی اور فکر کی تعبیرات‘‘ پر گفتگو کی، جبکہ ڈاکٹر ارشد رضوی نے ’’اقبال کے خیالات کی موجودہ دور میں اہمیت‘‘ پر روشنی ڈالی۔ اسکولوں کے طلبہ کے لیے پوسٹر ڈرائنگ اور آرٹ سیشنز نے بچوں کو تخلیقی اظہار کا موقع دیا۔

اقبال ڈے/ویک کی تقریبات کے سلسلے میں منعقد کیے جانے والے نمائش کے شرکا سے اسکالرز نے ایس بی پی میوزیم و آرٹ گیلری، آئی آئی چندریگار روڈ، کراچی میں خطاب کیے۔

مقرر ین میں ڈاکٹر معین الدین عقیل – اقبال اکیڈمی نے ’’اقبال کی زندگی اور فکر کی تعبیرات – حیات و فکر کی نئی جہتیں‘‘ پر گفتگو کی جب کہ ڈاکٹر ارشد رضوی، سرسید یونیورسٹی، نے ’’اقبال کے خیالات کی موجودہ دور میں افادیت’’ کے موضوع پر نوجوانوں سے خطاب کیا۔

فکری ورثے کا خراجِ عقیدت

یہ نمائش محض ایک تاریخی یادگار نہیں، بلکہ ایک زندہ فکری مکالمہ ہے۔ علامہ اقبال کی سوچ، فلسفہ، اور شاعری آج بھی نوجوانوں کے دل و دماغ میں راہ نمائی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف فن اور تاریخ کے امتزاج کی عکاسی کرتا ہے بلکہ قارئین اور زائرین کو ایک فکری اور روحانی تجربہ فراہم کرتا ہے۔

ڈاکٹر ارشد رضوی، سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’علامہ اقبال کے فکروفلسفے کو نئی نسل کے دلوں تک پہنچانے کے لیے ایسے علمی و فکری اجتماعات تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں۔ میوزیم کے سربراہ ڈاکٹر سکندر حیات ملک نے اقبال کے افکار کو ایک خوبصورت، منظم اور معنویت سے بھرپور پروگرام کی صورت میں جس حکمت اور سلیقے سے پیش کیا، وہ لائقِ صد ستائش ہے۔

زمانہ معاشی اور معاشرتی بے شمار تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، ایسے میں یہ محفلیں نہ صرف روشنی بانٹتی ہیں بلکہ ذہنوں میں سوال جگاتی، راستے دکھاتی اور شعور کو نئی جہتیں عطا کرتی ہیں۔ اس بامعنی پر وقار انداز میں شاعر مشرق یوم پیدائش کی مناسبت پر کی گئی اس کاوش پر ڈاکٹر سکندر حیات ملک اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے اقبال کے تصور سے فکرو آگہی کی یہ شمع روشن رکھی ہے۔‘‘

یقیناً، اس نمائش نے یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کا کلام اور فکر وقت کی قید سے آزاد ہے۔ ان کی شاعری اور فلسفہ آج بھی ہمارے لیے راہ نمائی، بصیرت اور تخلیقی تحریک کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کی یہ نمائش ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شاعرِ مشرق کی بصیرت اور خودی کا فلسفہ محض مطالعے کا موضوع نہیں بلکہ عملی زندگی میں تبدیلی کی بنیاد بھی ہے۔

یہ نمائش ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم نے اقبال کو پڑھا ضرور ہے مگر ان کی روحانی اور فکری گہرائی کو اپنے ساتھ مربوط نہیں کیا۔ ہم اُن کے پیغام سے جڑے ہوئے نہیں، اور اس نمائش کے ذریعے یہ خالی جگہ مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کا پیغام—خودی، غیرت، خدمت اور اخلاقی بلندی—ہمیں آج بھی ایک مضبوط معاشرہ اور متحرک نوجوان نسل کی تعمیر کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔

اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری میں یومِ اقبال کی یاد میں ترتیب دی گئی یہ نمائش ایک جامع تجربہ ہے—علم، فن، تاریخ اور روحانیت کا امتزاج، جو زائرین کو شاعرِمشرق کے فکری ورثے کے قریب لاتا ہے۔ یہ صرف ایک تاریخی تقریب نہیں، بلکہ ایک زندہ مکالمہ ہے جو نوجوانوں کو سوچنے، تخلیق کرنے اور اپنے کردار کے ذریعے قوم کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

نمائش کا اختتامی حصہ علامہ اقبال کی یاد میں تخلیق کردہ شاندار مجسمے، پورٹریٹس اور بصری فنون کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ حصہ آرٹ کے ذریعے یاد اور خراجِ تحسین کا مظہر ہے۔ سکندر جوگی اور ان کے شاگردوں کی یہ تخلیقی کوشش شاعرِ مشرق کے پیغام کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ اسے آج کے معاشرتی اور ثقافتی سیاق و سباق میں زندہ کرتی ہے۔

اقبال کے پیغام کی روشنی میں یہ نمائش نہ صرف ماضی کے آثار کو محفوظ کرتی ہے بلکہ ایک روشن اور متحرک مستقبل کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہاں ہر زائر، ہر طالب علم، ہر فن کار اور ہر محقق اپنے اندر اقبال کے خیالات کے نئے رنگ اور نئے انداز تلاش کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اجتماع عام کا اختتام پر روڈ میپ کا اعلان
  • سعودی ولی عہد کا دورہ امریکا ، F35اور فلسطین
  • اے، وائے اہلِ فلسطین
  • علامہ اقبال: فکر، فن اور بصیرت کے منفرد سفر کا زندہ مکالمہ
  • غزہ امن منصوبہ: کیا فلسطین کی آزاد ریاست وجود میں آ پائے گی؟
  • غزہ لبنان نہیں ہے‘‘ حماس نے جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے دی
  • اجتماع عام کے دوران نکاح کی پر وقار تقریب کا انعقاد
  • فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
  • وینزویلا میں انصاراللہ جیسی مسلح قوت کے ابھرنے کا امکان
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کی ممکنہ منتقلی‘ بھرپور مزاحمت کریں گے: وکلاء