Islam Times:
2025-10-09@21:11:57 GMT

فلسطین مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

فلسطین مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے

اسلام ٹائمز: یہ جنگ بندی کا معاہدہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس اب محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ اسرائیل اور مغرب کے تمام دباؤ کے باوجود حماس کو مذاکرات کا فریق تسلیم کرنا ایک بڑی سفارتی فتح ہے۔ علاوہ ازیں، فلسطینی عوام میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور دیگر عرب ممالک میں بھی حماس کی مزاحمتی پالیسی کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے اور مزاحمت کے اس سفر میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ غزہ کے ملبے تلے دفن ہونے والے شہیدوں نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں بلکہ مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے اور یہ جنگ بندی، دراصل اس مزاحمت کی فتح کا ایک اور باب ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

سات اکتوبر 2023ء کو غزہ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں شروع ہونے والی نسل کشی کو دو سال مکمل ہوچکے ہیں۔ دو سال تک مغربی دنیا تماشا دیکھنے کے بعد اب فلسطین میں امن کے لئے ظاہری کوشش میں نظر آرہی ہے۔ صرف تماشہ ہی نہیں بلکہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے غزہ میں جاری نسل کشی کی بھرپور مدد بھی کی ہے۔ حالیہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے اکیس نقاط کا امن معاہدہ متعارف کروایا، جس کو مسلم دنیا کے آٹھ ممالک نے بھی تسلیم کیا اور اب اسی فارمولہ کی کچھ شکل تبدیل ہونے کے بعد حماس نے بھی ترکیہ، قطر اور مصر کے عہدیداروں کی موجودگی میں تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ حماس نے نہیں بلکہ امریکہ نے تسلیم کیا ہے۔ کیونکہ جو معاہدہ امریکی صدر نے تشکیل دیا تھا، اس میں کئی ایک ترامیم حماس کی جانب سے کی گئی تھیں اور اب اس معاہدے پر بتایا جا رہا ہے کہ تمام فریقین متفق ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ایک خطرہ اب بھی منڈلا رہا ہے اور وہ ہے کہ نیتن یاہو کہ جو ہمیشہ سے ہٹ دھرمی سے کام لیتا آیا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ امریکی حکومت کہ جس نے گذشتہ دو برس میں کم و بیش چھ مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، اب آخر ایسی کون سے قیامت آن پڑی ہے کہ امریکی صدر اس قدر عجلت میں ہیں کہ مسلسل بیانات دیئے جا رہے تھے کہ جلد از جلد اس معاہدے کو تسلیم کیا جائے۔ اس سوال کا جواب شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غزہ کی دلدل میں دھنستے ہوئے نیتن یاہو کو نکالنے کے لئے امریکی صدر ٹرمپ عجلت میں ہیں۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح کریڈٹ لینے کی دوڑ میں ٹرمپ دوڑے چلے جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کو نوبل انعام دے دیا جائے۔

حالانکہ حقیقت تو اس کے برعکس ہے کہ امریکی حکومت نے اربوں ڈالر کا اسلحہ صرف ان دو سالوں میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو دیا ہے اور امن کے لئے آنے والی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے تو اب یہ نام نہاد امن معاہدے کی حقیقیت ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ بہرحال غزہ میں جاری طویل اور تباہ کن جنگ کے بعد ہونے والا حالیہ جنگ بندی معاہدہ فریقین نے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف عسکری لحاظ سے بلکہ سیاسی و اخلاقی محاذ پر بھی فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور فلسطینی عوام کی بے مثال مزاحمت اور اہل غزہ کی استقامت کا ثمر ہے کہ حماس کی جانب سے از سر نو تشکیل دیا جانے والا معاہدہ تسلیم کے مراحل میں آچکا ہے۔ یہ معاہدہ ایک معمولی جنگ بندی نہیں بلکہ طاقت کے توازن میں ایک نمایاں تبدیلی کا مظہر ہے، جس نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر کو توڑ کر رکھ دیا۔

حماس کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس جنگ کے دوران جس حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف عسکری لحاظ سے موثر تھی بلکہ نفسیاتی اور سفارتی محاذ پر بھی کامیاب ثابت ہوئی۔ حماس نے جو جنگ سات اکتوبر 2023ء کو میدان میں جیت لی تھی، اسے دو سال تک بیانیہ کے میدان میں بھی جیت کر دکھایا اور اب دو سال بعد جب امریکی صدر ٹرمپ اپنی شکست کو مذاکرات کی میز پر کامیابی میں بدلنا چاہتا تھا، اس موقع پر بھی حماس نے بہترین سفارتکاری کا مظاہرہ کیا اور میز پر بچھائی شطرنج کی چال کو بھی دشمن کے لئے الٹا دیا ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک عظیم کامیابی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں حماس اور جہاد اسلامی نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اسرائیلی دفاعی نظام "آئرن ڈوم" کو چیلنج کیا۔ اسے ناکام بنا کر دکھایا۔ اسی طرح غاصب صیہونی حکومت کا بھرم کہ اگر کوئی اسرائیل پر حملہ کرے تو اسرائیل کی صلاحیت ہے کہ وہ اگلے پانچ منٹ کے اندر اپنے نقصان کو ری کور کرسکتا ہے، اس بھرم کو حماس نے سات اکتوبر کے دن چار گھنٹے کے آپریشن میں مکمل طور پر دفن کیا اور دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے۔

مزاحمتی گروہوں نے غزہ کے محصور علاقے سے مزاحمتی کارروائیوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ طاقت صرف عسکری ساز و سامان سے نہیں بلکہ عزم و ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے ساتھ غاصب اسرائیلی عوام اور فوج میں خوف اور عدم اعتماد پیدا کیا۔ عالمی رائے عامہ پہلی بار کھل کر فلسطینیوں کے حق میں بولنے لگی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اسرائیل ایک غاصب اور سفاک اور دہشت گرد ریاست ہے، جو انسانیت کی دشمن ہے۔ یہ سب کچھ سات اکتوبر کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ جنگ کے میدان کے بعد سفارتی میدان میں بھی حماس نے بین الاقوامی میڈیا پر بیانیہ تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیل کی جنگی جرائم پر عالمی سطح پر تحقیقات کے مطالبات میں اضافہ ہوا۔

حالیہ جنگ بندی معاہدے کے تحت درج ذیل نکات نمایاں ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینی دھڑوں اور مزاحمتی گروہوں کی رضامندی اور ان کی بہترین حکمت عملی کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ غزہ سے غاصب اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء جبکہ امریکی معاہدے میں جزوی انخلاء کی بات کی گئی تھی، اسی طرح غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امدادی کارروائیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ صرف اسرائیلی قیدیوں کو نہیں بلکہ دونوں طرف کے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ غزہ کی تعمیر نو کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جانے پر بات چیت کی گئی ہے۔ فی الحال یہ مرحلہ وار معاہدہ ہے اور مزید تفصیلات آگے آنا باقی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے ایک عزت مندانہ سیاسی جیت ہے۔ یہ جنگ بندی کا معاہدہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس اب محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ اسرائیل اور مغرب کے تمام دباؤ کے باوجود حماس کو مذاکرات کا فریق تسلیم کرنا ایک بڑی سفارتی فتح ہے۔ علاوہ ازیں، فلسطینی عوام میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور دیگر عرب ممالک میں بھی حماس کی مزاحمتی پالیسی کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے اور مزاحمت کے اس سفر میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ غزہ کے ملبے تلے دفن ہونے والے شہیدوں نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں بلکہ مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے اور یہ جنگ بندی، دراصل اس مزاحمت کی فتح کا ایک اور باب ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مزاحمتی گروہوں فلسطینی عوام یہ جنگ بندی مزاحمت اور سات اکتوبر امریکی صدر کہ امریکی نہیں بلکہ کے باوجود یہ معاہدہ تسلیم کر بھی حماس حماس کی کے بعد رہا ہے کے لئے ہے اور دو سال دیا ہے

پڑھیں:

غزہ جنگ بندی کیلئے پیشرفت جاری، امید ہے جلد معاہدہ ہوجائیگا: امریکی صدر

واشنگٹن (نیوز ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ جنگ بندی کیلئے زبردست پیش رفت کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے معاہدہ جلد ہوگا، تمام ممالک نے غزہ امن منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، حماس نے مذاکرات میں بہت اہم باتوں پر اتفاق کر لیا، ہم مشرق وسطیٰ میں3 ہزار سال پرانا تنازع حل کرنے جا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ترکیہ، یو اے ای اور سعودی عرب بھی امن کیلئے کوشاں ہیں، تجارت اور ٹیرف سے7 جنگیں روکیں، پاکستان اور بھارت کی جنگ بھی رکوائی، پاک بھارت جنگ میں7 طیارے گرائے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کو یرغمالیوں کی ڈیل کے بارے میں منفی رویہ اختیارکرنے سے باز رہنا چاہئے، حماس بہت اہم چیزوں سے اتفاق کررہی ہے، شٹ ڈاؤن ڈیموکریٹس کے باعث ہے، ڈیموکریٹس غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کو صحت کی سہولت دیناچاہتے ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ اوباما دور سے اربوں ڈالر کی سبسڈیزدے کر معیشت کو تباہ کر دیا گیا، بدامنی کا شکار شکاگو وار زون بن چکا ہے، فوج کی تعیناتی کے بعد واشنگٹن ڈی سی پرامن شہر بن چکا ہے، اسرائیلی عوام یرغمالیوں کی واپسی اور تنازع کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ، یواے ای اور سعودی عرب بھی امن کیلئے کوشاں ہیں، حماس ترکیہ کے صدراردگان کا احترام کرتی ہے، صدر اردگان غزہ میں امن کیلئے اثرو رسوخ استعمال کر رہے ہیں، اقوام متحدہ میں میرے خطاب کے دوران 2 مسئلے نظرآئے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی پرامپٹرخ راب تھا، ہال میں بیٹھے افراد آواز نہیں سن سکتے تھے، میلانیا سے پوچھا تو بتایا خطاب کے دوران ہیڈ فون میں آواز نہیں آرہی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ امن معاہدہ: عمل درآمد کی نگرانی میں شامل ہوں گے، ترک صدر
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد غزہ اور تل ابیب میں عوام کا جشن
  • اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا
  • اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا، قطر نے تصدیق کر دی
  • حماس نے سنوار برادران کی لاشوں سے متعلق خبروں کی تردید کردی
  • اسرائیلی جارحیت کے 2 برس ، جماعت اسلامی کے صہیونی مظالم کیخلاف ملک گیر احتجاج و مظاہرے ‘اہل غزہ اور حماس سے اظہار یکجہتی
  • غزہ جنگ بندی کیلئے پیشرفت جاری، امید ہے جلد معاہدہ ہوجائیگا: امریکی صدر
  • ٹرمپ کو غزہ امن معاہدے پر امید، ’اہم معاملات‘ پر حماس کی رضامندی کا دعویٰ
  • طوفان الاقصیٰ کے 2برس مکمل: حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر اسرائیل کیخلاف آج ملک گیر احتجاج کیا جائے گا