بھارت سے رہائی پا نے والے 52 ماہی گیر وطن واپس پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:۔ بھارت کی جیلوں سے رہائی پانے والے 52پاکستانی ماہی گیر واہگہ بارڈر کے راستے وطن واپس پہنچ گئے۔ رینجرز نے ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد رہائی پانے والے ماہی گیروں کو ایدھی فاﺅنڈیشن کے حوالے کر دیا جنہیں خصوصی گاڑیوں کے ذریعے لاہور سے کراچی روانہ کیا جائے گا۔
بھارت سے رہائی پا کر وطن واپس آنے والے ماہی گیروں میں علی نواز، غلام علی، محمد اسلم، صدام حسین، علی بخش، غلام نبی، علی اصغر ، محمد موسیٰ، پیارے علی، یاسین شیخ، محمد شیخ، عبدالرحمن، محمد سلیم، محمد رضوان، محمد ابراہیم، اسماعیل میو، محمد سعید، نورالحسن، محمد اسحاق، جسیم خان، محمد لطیف، محمد عمران، جسیم، رشید، محمد شوکت علی، حبیب اللہ، محمد محمود، شاہ عالم، نذیز حسین، محمد ایاز، احمد کاٹیار، حسین کاٹیار، غلام حسین، عبدالستار، احسن پٹوانی، عرب پٹوانی، مقبول پٹوانی، غلام حسین، راجو، گڈو پٹوانی، محمد یعقوب، یاسین خان، نعمان، مجیب اللہ، محمد الیاس، رحمان علی، محمد سلیم، اختر علی، محمد اسحاق، نور کبیر، مجیب اللہ، محمد اسماعیل، محمد رفیق، نور الحق اور میزان شامل ہیں۔ ماہی گیروں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
22 نومبر کو عمران خان کی رہائی یقینی تھی، مگر ان کے نادان دوستوں نے ایسا نہیں ہونے دیا، مشاہد حسین سید کا انکشاف
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی گرفتاری کو 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اور ان کی رہائی کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں اور دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ اس دوران تحریکِ انصاف کے کارکنان اور رہنما مسلسل یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان کب رہا ہوں گے، اور ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔
حال ہی میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ 5 نومبر کو ٹرمپ صدر منتخب بن گئے تو 10 نومبر کو اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی رہائی کے مذاکرات شروع کر دیے۔ 22 نومبر کو عمران خان رہا ہونے والے تھے مگر ان کے نادان دوستوں نے کہا کہ 26 نومبر کو 10 لاکھ لوگ آ رہے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہوا۔
????????????مشاہد حسین سید کا بڑا انکشاف:
جب 5 نومبر کو ٹرمپ صدر منتخب بن گئے تو 10 نومبر کو اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی رہائی کے مزاکرات شروع کر دیے، 22 نومبر کو عمران خان رہا ہونے والے تھے مگر ان کے نادان دوستوں نے کہا کہ 26 نومبر کو دس لاکھ لوگ آ رہے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور پھر… pic.twitter.com/6zgqebIDZN
— Asma Shirazi (@asmashirazi) October 7, 2025
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی منیب فاروق نے لکھا کہ مشاہد حسین صاحب تو یہ بھی فرماتے تھے کہ ٹرمپ آئے گا اور ایک فون کال آئے گی اور سب سیدھے ہو جائیں گے۔ نہ کال آئی نہ ہی کوئی ڈیمانڈ۔ بلکہ کام ہی الٹا ہو گیا۔ آج بھی انھوں نے ایک کہانی پیش کی ہے۔ سننے والوں کے لئے کہانی اچھی بنائی ہے لیکن اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی رہائی کے لیے ڈیڈلائن میں 2 دن باقی، رہائی نہ ہوئی تو کیا علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں گے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے آنے سے پہلے اور بعد عمران خان صاحب کے حوالے سے ریاستی پالیسی میں کوئی فرق نہ ہے نہ تھا۔ نہ کسی نے مذاکرات کئے نہ کوئی آفر ہوئی۔ یہ کہانی ان تمام کہانیوں میں سے ایک ہے جس میں خان صاحب کو آفرز کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔
منیب فاروق نے مزید لکھا کہ عمران خان صاحب کو آج تک صرف ٹرک کی بتی ہی دکھائی گئی ہے اور ظلم یہ ہے کہ وہ بھی چند خود ساختہ پیغام رسانوں نے دکھائی ہے۔ مستقبل کا پتا نہیں لیکن آج بھی زمینی حقائق وہی ہیں جو پہلے تھے۔
جناب مشاہد حسین صاحب تو یہ بھی فرماتے تھے کہ ٹرمپ آئے گا اور ایک فون کال آئے گی اور سب سیدھے ہو جائیں گے۔ نہ کال آئی نہ ہی کوئی ڈیمانڈ۔ بلکہ کام ہی الٹا ہو گیا۔ آج بھی انھوں نے پاکستان کی نامور صحافی عاصمہ شیرازی صاحبہ کہ پروگرام میں ایک کہانی پیش کی ہے۔ سننے والوں کے لئے کہانی… https://t.co/eZ3VBYDye5
— Muneeb Farooq (@muneebfaruqpak) October 7, 2025
پی ٹی آئی کے حامی ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ مشاہد حسین سید غلط بیانی کر رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کا کوئی منصوبہ نہيں تھا۔
مشاہد حسین سید غلط بیانی کر رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کا کوئی منصوبہ نہيں تھا۔ 26 نومبر کو قتل عام کا منصوبہ تھا جو پورا کیا۔
عمران خان کی رہائی کی دو صورتحال پیدا ہوئی تھیں۔ دونوں عوامی احتجاجی ریلیز نے پیدا کی تھیں لیکن گنڈاپور گینگ اور تحریک انصاف کی دوسری اعلی قیادت عمران… pic.twitter.com/xC9jJKT81M
— Jimmy Virk – Imranian ???????? (@JimmyVirkk) October 7, 2025
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے
تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: میری قید کے دوران فیملی اور بہنوں کے خلاف مہم تکلیف دہ ہے، عمران خان کا جیل سے پیغام
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ عمران خان کو 5 اگست 2023 کو پہلی بار حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں، جنہیں وہ سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ جنوری میں انہیں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سزا سنائی گئی، جس کے تحت عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ کو 7 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ عمران خان ان مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے مسلسل مسترد کرتے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیل سے رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی عمران خان کی جگہ لے سکتے ہیں؟
تحریکِ انصاف کی جانب سے بھی بارہا یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کو ایک منظم سازش کے تحت سیاست سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ پارٹی ترجمانوں کے مطابق عمران خان کو قانونی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بشریٰ بی بی عمران خان عمران خان رہائی عمران خان قید مشاہد حسین سید