Jasarat News:
2025-10-10@02:40:11 GMT

چینی کا بحران: پرانے کردار اور سزاؤں کا قحط

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251010-03-4

 

عبید مغل

یہ سوال اب قومی لطیفہ بن چکا ہے: ’’اگر چینی کم تھی تو پھر برآمد کیوں کی گئی؟‘‘ اور اس کے ساتھ ایک اور سوال بھی ہے جو ہر بحران کے بعد گونجتا ہے، پھر دفن ہو جاتا ہے: ’’ذمے داروں کو سزا کب دی جائے گی؟‘‘ پاکستان میں چینی کے بحران ایک بیماری کی طرح ہیں جو وقفے وقفے سے سر اٹھاتے ہیں، جیسے بخار جو وقتی دوا سے دب جاتا ہے مگر علاج نہ ہونے کی وجہ سے بار بار لوٹ آتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہر بار نیا بحران آتا ہے، نئے وعدے ہوتے ہیں، نئی رپورٹیں بنتی ہیں، مگر انجام ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے: ’’کوئی مجرم نہیں، کوئی سزا نہیں، کوئی اصلاح نہیں‘‘۔

پاکستان میں چینی کے بحران کی تاریخ کم از کم دو دہائیوں پر محیط ہے، مگر سنجیدہ بحرانوں کی شروعات 2008 ؍ 09 سے ہوئی جب قیمتیں اچانک بلند ہوئیں اور مارکیٹ میں قلت کا شور مچا۔ تب بھی ’’ذخیرہ اندوزوں‘‘ کو ذمے دار قرار دیا گیا، تحقیقات ہوئیں، اور پھر سب خاموشی سے دفن ہو گیا۔ 2016 ؍ 17 میں دوبارہ بحران آیا، اس بار مل مالکان کو چینی برآمد کی اجازت دی گئی، اور نتیجتاً ملک میں قلت پیدا ہوئی۔ بات یہاں نہیں رکی، 2019 اور 2020 میں پاکستان کو ایک بار پھر شدید چینی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان حکومت نے چینی کمیشن قائم کیا، جس نے جہانگیر ترین، خسرو بختیار، شریف خاندان، زرداری گروپ اور دیگر کئی بڑے سیاسی و کاروباری ناموں کو ذمے دار قرار دیا۔ رپورٹ شائع ہوئی، نیوز چینلوں نے ہنگامہ برپا کیا، ایف آئی اے نے انکوائریاں شروع کیں، کچھ لوگوں کو بلایا بھی گیا مگر نتیجہ؟ صفر۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ مجرموں کی نشاندہی کی گئی، مگر سزا نہ دی گئی۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھی یہی ہوا، اور اب 2025 میں ہم پھر وہی منظر دیکھ رہے ہیں: مارکیٹ میں چینی نایاب، قیمت دو سو روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی، حکومت درآمد کا شور مچا رہی ہے، اور چینی مل مالکان یا تو بیرون ملک ہیں یا اپنے سیاسی رابطوں سے محفوظ۔ یعنی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور ہم بے بس تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان بحرانوں کی جڑ کیا ہے؟ جواب سادہ ہے مگر تلخ: وہی لوگ جو حکومت میں ہوتے ہیں، وہی شوگر ملز کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ شریف خاندان کے پاس درجن بھر ملز، زرداری گروپ کی سندھ میں مضبوط موجودگی، ترین گروپ کی JDW سلطنت، اور دیگر کئی سیاسی خاندان چینی کی صنعت پر براہِ راست قابض ہیں۔ یہ سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو نہ صرف برآمد کی اجازت دیتے ہیں بلکہ سبسڈی بھی خود کو دیتے ہیں، اور جب بحران پیدا ہوتا ہے تو وہی چینی درآمد کرواتے ہیں اور اس میں بھی حصہ وصول کرتے ہیں۔ پاکستانی بچوں کے دودھ سے مٹھاس چرا کر اْن معصوم معدوں میں درد اور تکلیف پیدا کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے صدر، وزیر ِاعظم، حکومت میں بیٹھے وزراء اور اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان سیاستدان ہیں۔ ہر دوسرے سال چینی کا بحران پیدا کرکے، عوام کی جیب سے اربوں روپے چوری کرنے والے درحقیقت ہماری قوم کے وہی لاڈلے سیاستدان اور حکمران ہیں جن کے لیے عوام ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں، اْن کے دفاع میں اپنے رشتے داروں سے جھگڑ پڑتے ہیں، سیاسی وفاداری کے نام پر اپنی غیرت اور دانش بیچ دیتی ہے، اور اس وفاداری کا انعام یہی ملتا ہے: چینی کے بحران، قیمتوں میں اضافہ، اور بجلی کی قلت، پانی کی قلت، یعنی قلت ہی قلت… اور وہی، جو آپ سمجھ رہے ہیں۔

پچھلے پندرہ سال میں کم از کم پانچ بڑے چینی بحران آ چکے ہیں۔ ان میں اربوں روپے کی کرپشن رپورٹ ہوئی، مجرموں کی نشاندہی ہوئی، عدالتوں میں مقدمات گئے، مگر نتیجہ ہر بار ایک سا رہا: ’’عدم ثبوت‘‘، ’’سیاسی مداخلت‘‘، ’’تکنیکی بنیادوں پر بریت‘‘ یا ’’رپورٹ غیر مؤثر قرار‘‘۔ عوام حیران، صحافت بے بس، اور مافیا مزید طاقتور ہو گئی۔ اب سوال صرف یہ نہیں کہ چینی کیوں مہنگی ہے یا قلت کیوں پیدا ہوئی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب سیکھیں گے؟ کب ہم اْنہیں ووٹ دینا بند کریں گے جو ہمارے ہی خون سے کاروبار کرتے ہیں؟ کب ہم اْس نظام کو چیلنج کریں گے جو ہر بار ایک ہی زخم دیتا ہے اور ہمیں نیا مرہم بیچتا ہے؟ غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب وہ بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری آنکھ بھی تب کھلے جب دیکھنے کو کچھ باقی نہ رہے۔ اور آخر میں، چینی کی قلت اور پھر درامد سے اربوں روپے لوٹنے والی یہی مافیا چند لاکھ روپے خرچ کر کے ایسے لوگ مارکیٹ میں چھوڑ دیتی ہے جو ہر الیکشن میں اپنے ظالم مالکان کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہی خصلت کتے میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ ہڈی ڈالنے والے مالک کا تو وفادار ہوتا ہے، مگر اپنی ہی نسل کا دشمن۔

عوام کو اب ہوشیار ہو جانا چاہیے۔ ایسے دشمنوں، ایسے وفادار کتوں، اور ان کے آقاؤں سے بچنا اب لازم ہے، ورنہ چینی کے بحرانوں سے بچتے بچتے ایک دن شاید روٹی کے بھی محتاج ہو جائیں گے۔ آج کا دور شعور کی بیداری کا دور ہے۔ حکمران غور کریں اور دیکھیں کہ شعور کی بیداری کی لہر سری لنکا، نیپال اور بنگلا دیش سے ہوتی ہوئی آزاد کشمیر میں داخل ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ لہر پنجاب اور باقی صوبوں میں کب داخل ہوتی ہے۔ شاید قدرت ہمارے حکمرانوں کو سنبھلنے کا ایک آخری موقع دے رہی ہے، ورنہ یہ عوامی بیداری کی موج آزاد کشمیر کی طرح جب پنجاب اور سندھ کی گلیوں میں گونجے گی تو ایوانوں کی دیواریں بھی لرز اٹھیں گی۔

عبید مغل.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چینی کے بحران ہوتے ہیں یہ ہے کہ

پڑھیں:

میری تربیت ایسے گھر میں ہوئی ہے جہاں بڑوں اور چھوٹوں سے بات کرنے کا سلیقہ اور تمیز سکھائی جاتی ہے، فیلڈ مارشل کے کردار کو سراہتا رہوں گا، ایمل ولی خان

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر اور سینیٹر ایمل ولی خان نے وزیراعظم پاکستان سے اپنی ملاقات اور اس سے متعلق گردش کرتی خبروں پر وضاحت جاری کی ہے۔

ایمل ولی خان نے کہا کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان کی تقریر سے قبل وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات ، جو دراصل وزیراعظم کے دورۂ امریکہ پر بریفنگ تھی ، کا ذکر کیا، اس حوالے سے وہ ضروری وضاحت دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق وزیراعظم نے سینیٹ میں ان کی تقریر کے بعد انہیں بریفنگ کے لیے مدعو کیا تھا۔

اگلے سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم کے سلیکٹرز نے  کپتان سلمان علی آغا کی تبدیلی پر غور شروع کر دیا

انہوں نے بتایا کہ میٹنگ کے آغاز میں ہی وزیراعظم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بریفنگ دراصل دورۂ امریکہ سے پہلے پارلیمان میں ہونی چاہیے تھی۔ “میں نے ان کی معذرت قبول کی اور کہا کہ میری تقریر اٹھا کر دیکھ لیں، میں نے صرف ایوان کی بالادستی کی بات کی ہے، کسی کی تضحیک نہیں کی۔ میری تربیت ایسے گھر میں ہوئی ہے جہاں بڑوں اور چھوٹوں سے بات کرنے کا سلیقہ اور تمیز سکھائی جاتی ہے۔”

وزیراعظم کی بریفنگ کے حوالے سے سینیٹر ایمل ولی خان نے بتایا کہ وزیراعظم نے وضاحت دی کہ بعض مواقع پر انہیں “فیلڈ مارشل” کو ساتھ لے جانے کی ضرورت پیش آتی ہے، کیونکہ کچھ اسٹریٹیجک وجوہات ایسی ہوتی ہیں جہاں اُن کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے امریکی صدر ٹرمپ، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “صدر ٹرمپ کو دیا گیا پتھروں کا تحفہ فیلڈ مارشل نے اپنی جیب سے خریدا تھا، اس کا کسی معدنیات کی ڈیل  سے کوئی تعلق نہیں۔”

چچا بھتیجی کی لڑائی میں پی پی کو نہ گھسیٹیں، پلوشہ خان

ایمل ولی خان نے کہا کہ انہوں نے جواب میں واضح کیا کہ “اگر میں کھلے عام تنقید کر سکتا ہوں تو غلطی ہونے پر معذرت کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں۔ اگر واقعی اس تصویر کا پختونخوا یا بلوچستان کی معدنیات سے کوئی تعلق نہیں تو میں معذرت خواہ ہوں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ پختونخوا اور بلوچستان کی معدنیات پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے، اور ان منصوبوں میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ “ہم ترقی یا معیشت کی بہتری کے مخالف نہیں، لیکن آئینی دائرۂ اختیار سے تجاوز ہونے پر میں ہمیشہ مظلوم قومیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آواز بلند کرتا رہوں گا۔”

پولیس نے صنم جاوید کے مبینہ اغوا سے متعلق تفتیش شروع کردی

بیان کے آخر میں اے این پی رہنما نے کہا کہ “میں نے اپنی تقریر میں کسی کی ذات کی بے حرمتی نہیں کی، نہ ہی کسی کی تضحیک کی۔ اگر کسی کو میری بات سے دکھ پہنچا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔ ملک کے دفاع کے حوالے سے فیلڈ مارشل کے کردار کو میں نے ہمیشہ سراہا ہے اور سراہتا رہوں گا۔”

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں 2 کروڑ 30 لاکھ بچے تعلیم سے محروم، کیا ’ملالہ فنڈ‘ اس بحران سے نمٹنے کے لیے کافی ہے؟
  • بھارت پاکستان کا کوئی طیارہ نہیں گرا سکا، چینی ہتھیار توقعات پر پورا اترے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • معرکہ حق میں بھارت نے ہمارا کوئی طیارہ نہیں گرا یا ، ترجمان پاک فوج
  • بھارت کوئی طیارہ نہیں گرا سکا‘ چینی ہتھیار توقعات پر پورا اترے‘ ترجمان پاک فوج
  • چینی بحران‘حکومتی انکوائری رپورٹ میں شوگر ملز کو کلین چٹ
  • میری تربیت ایسے گھر میں ہوئی ہے جہاں بڑوں اور چھوٹوں سے بات کرنے کا سلیقہ اور تمیز سکھائی جاتی ہے، فیلڈ مارشل کے کردار کو سراہتا رہوں گا، ایمل ولی خان
  • چینی بحران، حکومت نے شوگر ملز کو کلین چٹ اور ذمہ داری موسم پر ڈال دی
  • بھارت کوئی طیارہ نہیں گراسکا، ترجمان پاک فوج کی معرکہ حق میں چینی ہتھیاروں کی مؤثرکارکردگی کی توثیق
  • ہماری فوجی ترقیاتی حکمت عملی ہمیشہ مؤثر اورکارگر پلیٹ فارمز رہی ہے، ڈی جی آئی ایس پی ار