2014میں اے پی ایس واقعے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں،صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے ایک متفقہ پلان بنایا ،جس کا نام نیشنل ایکشن پلان رکھا گیا،ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا ہے کہ 2014میں اے پی ایس واقعے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں ،صوبائی اور وفاقی حکومتوں پشاور میں بیٹھے اور ایک متفقہ پلان کیساتھ باہر آئے،جس کا نام رکھا گیا نیشنل ایکشن پلان۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کاکہناتھا کہ اس میں کچھ نکات تھے ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے توہمیں یہ کام کرنے ہیں،یہ حقیقت آپ کے سامنے ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کاکہناتھا کہ اس کے بعد پچھلی حکومت نے 2021میں اس نے انہی نکات میں سے جن پر کچھ کام ہو گیا تھا اس کو خارج کردیااور یہ 14نکات ہیں جس کو نام دیا گیا ری وائز نیشنل ایکشن پلان۔
کن عوامل کی وجہ سے دہشتگردی ہورہی ہے، ڈی جی آئی ایس آئی نے 5نکات پیش کر دیئے
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ ہماری تمام سیاسی عمائدین تمام سیاسی پارٹیوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر ملک سے دہشتگردی کاجڑ سے خاتمہ کرنا ہے تو 14پوائنٹ کام کرنے ہیں،موجودہ حکومت نے بھی اسی چیز کو ویژن عزم استحکام کا نام دیا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ڈی جی ا ئی ایس تمام سیاسی
پڑھیں:
گریٹر کراچی پلان 2047ء؛ شہرِ قائد پر بڑھتا آبادی کا دباؤ بڑا چیلنج بن گیا
کراچی:گریٹر کراچی پلان 2047ء کے حوالے سے شہرِ قائد پر بڑھتا ہوا آبادی کا دباؤ بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
حکومت سندھ کراچی کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان پر کام کر رہی ہے، جسے گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء کا نام دیا گیا ہے۔ اس پلان کے اہم نکات تو ابھی سامنے نہیں آئے تاہم ماہرین کی نظر میں شہر پر بڑھتا ہوا آبادی کا دباؤ شہر کی منصوبہ بندی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کراچی ملک کا واحد شہر ہے جس کی آبادی میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک44 گنا اضافہ ہوا ہے۔ قیام پاکستان تک کراچی کی آبادی ساڑھے 4 لاکھ تھی اور اب یہ شہر 2 کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر بن چکا ہے۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق 2017ء سے 2023ء تک صرف 5 سال میں کراچی کی آبادی میں 40 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ48 لاکھ تھی جو 2023ء میں بڑھ کر ایک کروڑ 88 لاکھ ہوگئی۔ ان 5 برس میں ملک کے دیگر بڑے شہروں کی آبادی میں اس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، بلکہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی آبادی بڑھنے کے بجائے 19 لاکھ کم ہوئی کیونکہ وہاں سے کراچی آنے والوں کی تعداد ملک کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ رہی ہے۔
ورلڈ بینک سے منسلک ایک عالمی ادارے کوریا گرین گروتھ ٹرسٹ فنڈ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح1.5 فیصد (ایک اعشایہ پانچ فی صد) ہے جب کہ کراچی میں یہ شرح 6 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2030ء تک کراچی کی آبادی 28 ملین (2 کروڑ 80 لاکھ) تک بڑھ جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق کراچی اسٹریٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020ء کے مطابق شہر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کا روزگار کی خاطر کراچی آنا ہے جب کہ شہر میں بڑی تعداد میں افغانستان، بنگلادیش اور دیگر ایشیائی ممالک کے لوگ بھی آباد ہیں۔
معروف اربن پلانر عارف حسن کے ادارے اربن ریسورس سینٹر سے وابستہ شہری منصوبہ بندی کے ماہر زاہد فاروق کے مطابق پائیدار شہری منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ کراچی پر بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کو کم کیا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں سے آنے والے لوگوں کو اپنے صوبوں میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے۔
ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا بڑا سبب خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے روزگار کے لیے لوگوں کا کراچی آنا ہے کیونکہ کراچی میں دیگر شہروں کے مقابلے میں روزگار کے ذرائع اور مواقع زیادہ ہیں۔
زاہد فاروق نے مزید بتایا کہ کراچی کے لیے مختلف ادوار میں ماسٹر پلان بنتے آئے ہیں لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر ابھی تک ایک بھی ماسٹر پلان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے کہ حکومت سندھ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء پر کام کر رہی ہے لیکن یہ پلان ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بہتر ماسٹر پلان بنانے کے ضروری ہے کہ اس کے نکات کو عام کیا جائے اور اس پر عام لوگوں کی رائے لی جائے۔ انہوں نے تجویز دی کہ مذکورہ پلان کو سندھ اسمبلی اور سٹی کونسل سے لے کر یونین کونسل کی سطح تک زیر بحث لایا جائے اور اس پر ڈاکٹروں، وکلا، بزنس مین کمیونٹی سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں سے رائے لی جائے۔
پیپلز پارٹی کراچی کے رہنما سینیٹر وقار مہدی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء عالمی اداروں کے ماہرین کی نگرانی میں بنایا جا رہا ہے، جس میں آئندہ 50 سال کی ضروریات کو مد نظر رکھا جا رہا ہے، تاکہ شہر کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔
ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کراچی میں جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس مناسبت سے ایک جامع ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، نئے ماسٹر پلان کی تیاری میں پرانے ماسٹر پلانز کو بھی سامنے رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان بننے سے آج تک مختلف ادوار میں کراچی کے لیے ماسٹر پلان بنائے گئے لیکن آج تک ایک بھی پلان پر عمل نہیں ہوسکا ہے، ملک بننے کے بعد گریٹر کراچی پلان 1952ء بنایا گیا، جس پر عمل نہیں ہوا، جس کے بعد کراچی ڈیولپمنٹ پلان 1974-1985ء بنایا گیا لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد 2007ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی اسٹریٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020ء بنایا گیا لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا۔
کراچی اسٹریٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020ء کے مطابق کراچی شہر انتظامی لحاظ سے 20 وفاقی، صوبائی اور مقامی اداروں میں تقسیم ہے اور شہر کا صرف 31 فیصد کنٹرول کے ایم سی کے پاس ہے۔
مذکورہ پلان کے مطابق حکومت سندھ کے علاوہ اس شہر کا انتظامی کنٹرول مختلف وفاقی اداروں کے پاس ہے جن میں 6 کنٹونمنٹ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون وغیرہ شامل ہیں۔