شادی سے انکار کرنے والی خاتون نے منگیتر سے گلے ملنے کی فیس طلب کر لی
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
چین میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جہاں ایک خاتون نے اپنے سابق منگیتر سے گلے ملنے کی فیس کا مطالبہ کردیا
ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق ہینان صوبے کی خاتون نے اپنے منگیتر کے خاندان سے دو لاکھ یوآن (چینی کرنسی) کا منگنی کا تحفہ لیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد خاتون نے جو کیا وہ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہو گیا ۔ خاتون نے مرد کو ایک لاکھ 79 ہزار یوآن واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم وہ ’گلے لگانے کی فیس‘ کے طور پر 30 ہزار یوآن کاٹنا چاہتی تھیں۔ اس رقم میں کچھ دوسرے اخراجات بھی شامل تھے۔
مبینہ طور پر خاتون نے سابق منگیتر سے گزشتہ سال شادی کرانے والے میچ میکر کے ذریعے ملاقات کی تھی۔ وہ دونوں ہینان صوبے کے پنگڈنگشن علاقے میں رہتے تھے۔ رواں جنوری میں ان کی منگنی کے بعد شادی نومبر میں طے کی گئی تھی۔
بتایا گیا کہ شادی کے لیے ہوٹل بھی بک کر لیا گیا تھا اور دعوت نامہ بھی بھیج دیا گیا تھا لیکن تقریب سے چند ہفتے قبل خاتون نے یہ کہتے ہوئے اپنی شادی منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ اس شخص کی اہلیہ نہیں بننا چاہتیں۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس پر چین بھر میں 23 ملین افراد نے تبصرے کیے۔
اُن کے وان نامی میچ میکر نے میڈیا کو بتایا کہ ’خاتون کا خیال ہے کہ یہ بہت زیادہ دیانتدار شخص ہے اور اس کی آمدنی بہت کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں تک دُلہن کو دی گئی رقم کی بات ہے تو وہ واپس کرنے کو تیار ہیں مگر اُس میں سے 30 ہزار یوآن خاتون ’گلے لگنے کی فیس‘ کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔
وان نے کہا کہ میں نے پچھلی دہائی میں 1,000 جوڑوں کو متعارف کرایا ہے۔ اس خاتون کا خاندان سب سے زیادہ مشکل تھا جن کا میں نے سامنا کیا۔ لیکن 30,000 یوآن کاٹنے کا اس کا مطالبہ غیراخلاقی ہے۔ رپورٹ کے مطابق منگنی کے فوٹو شوٹ کے دوران فوٹوگرافر کے کہنے پر خاتون نے منگیتر کو گلے لگایا تھا۔
آخر میں دونوں خاندانوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خاتون سابق منگیتر کو ایک لاکھ 70 ہزار یوآن واپس کرے گی۔
شادی کا تحفہ، جسے دلہن کی قیمت بھی کہا جاتا ہے، چین میں ایک عام رواج ہے جہاں دولہا کا خاندان دلہن کے خاندان کو رقم ادا کرتا ہے اور ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جب خواتین شادی کی منسوخی کے بعد لی گئی رقم واپس کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ چین کی سپریم پیپلز کورٹ نے اس معاملے کی تشریح کرتے ہوئے شادی توڑنے پر یہ رقم یا تحائف واپس کرنے کا کہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ہزار یوا ن واپس کرنے خاتون نے کی فیس
پڑھیں:
شادی میں اعتدال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251013-03-6
شجاع صغیر
اے ابن آدم میرا کام تو بس معاشرے کی اخلاقی، سماجی تربیت کرنا ہے۔ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی اخبار کی خبر نظر سے گزرتی ہے تو دل کرتا ہے آپ سے اس پر بات کروں، اسراف کے حوالے سے اخبار کی ایک خبر نظر سے گزری خبر یہ تھی کہ سرکاری افسر کی بیٹی کی شادی پر 24 کروڑ خرچ ہوئے۔ اقتصادی بحران کے شکار پاکستان کے ایک سینئر سرکاری افسر کی بیٹی کی پرتعیش شادی پر 24 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ اس صورت حال نے امیروں کی طرز زندگی اور ملک کے ٹیکس نظام میں ان کے معمولی حصے کے درمیان ہوشربا فرق کو بے نقاب کردیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ایف بی آر (جس نے اب ایسے بلیک ہولز کو ہدف بنانا شروع کیا ہے) کو ایک ہائی پروفائل شادی کا کیس ملا ہے صرف سجاوٹ اور مقامات کے انتخاب پر تقریباً 4 کروڑ، کئی کروڑ کھانوں پر، ہیروں اور سونے کے سیٹ کی مالیت 8 کروڑ تھی، میک اپ اور فوٹو گرافی پر 3 کروڑ جبکہ دعوت نامے اور تحائف پر تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ کا خرچ۔ ٹیکس حکام کے مطابق یہ کیس ٹیکس چوری کے انتظامی مسئلے کی بہترین مثال ہے۔ امیر طبقے کی شادیاں، بیرون ملک سفر، جائداد اور زیورات پر ہونے والا پرتعیش خرچ اکثر سامنے نہیں آتا اور ٹیکس کے دائرے سے باہر رہتا ہے۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ یہ بالکل وہی چھپی ہوئی دولت ہے جس کا ریاست سراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے۔ ایسی تقریبات میں کروڑوں خرچ ہوتے ہیں لیکن ایک روپیہ تک ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک متوازی معیشت ہے جو نظام کی نظروں سے اوجھل ہے۔ کیونکہ مغرب اور انڈیا کو دیکھ کر ہم نے ایک سنت عمل کو بھی مشکل بنادیا ہے۔
ماضی میں بھی شادیاں ہوتی تھیں سادگی نظر آتی تھی نمود و نمائش جاہل لوگ یا وہ جو نئے نئے امیر ہوتے تھے وہ لوگ کرتے تھے۔ جویریہ ساجد نے ایک خط سوشل میڈیا پر لکھا اچھا لگا سوچا کے قارئین کی نذر کردوں، شاید اُتر جائے لوگوں کے دل میں میری بات۔ شادی کے موقع پر اپنے بچوں کو ان کی ضرورت کے مطابق اور اپنی گنجائش کے مطابق جو کچھ آسانی سے دے سکتے ہیں ضرور دیں، جہیز دیں یہ لڑکی کے کام آتا ہے مگر ادھار قرض لے کر یا اپنی حیثیت سے بڑھ جانے کے خلاف ہوں۔ نمود و نمائش کے لیے قرض لے کر خرچہ کرنے کے خلاف ہوں اس کے ساتھ میں بری کے بھی حق میں ہوں مگر شرط وہی ہے کہ دیکھاوا نہ ہو اصراف نہ ہو آپ لڑکی کے والدین ہیں یا لڑکے کے اگر اپنے بچوں کو ان کی نئی زندگی کے لیے کچھ اشیا یا سہولت دے سکتے ہیں تو ضرور دیں کوئی حرج نہیں بس یہ خیال لازمی رکھیں کہ سب کچھ ضرورت کے مطابق ہو فضول کے خرچی نہ ہو۔ اصل بات جس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شادی کی تقریبات میں لاکھوں روپے برباد مت کریں کم افراد کو بلائیں کھانے کے 2 آئٹم رکھیں، سائونڈ سسٹم، فوٹو گرافی، ڈیکوریشن، انٹری وغیرہ پر لاکھوں روپے خرچ کردینا بالکل بھی عقلمندی نہیں ہے۔ ناصرف یہ بلکہ لاکھوں روپے کا میک اپ، مایوں مہندی، برائیڈل شاور، چوتھی کے کپڑے، دس دس دن تقریبات، ڈھولکیاں، قوالی نائٹ سب گھر والوں کے لیے ایک جیسے ڈیزائنر کے ڈریس، سونے پہ سہاگہ ڈانس کی پریکٹس، ہلا گلا وقت اور پیسہ برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ میرا ماننا ہے خوشیوں کو خوشیوں کی طرح منائیں ولیمہ حیثیت کے مطابق کریں، بارات کو لڑکی والوں کی گنجائش اور سہولت کے حساب سے رکھیں اور اتنے مہمان بلائیں جن کو اٹینڈ کرسکیں نا کہ لفافوں پر لکھے ناموں سے آپ کو پتا چلے کہ کون کون آیا تھا۔
شادی خوشی کا موقع ہے بھاگتی دوڑتی
زندگی میں خوشی کے مواقعے کم ہی آتے ہیں، اپنے گھر میں قریبی رشتے داروں کو اکٹھا کریں رونق لگائیں کچھ رسمیں کلچر کا حصہ بن گئی ہیں جن میں مایوں اور مہندی کی رسمیں ہیں ان کو گھر کے اندر رکھیں باقاعدہ ایونٹ نا بنائیں۔ برائیڈل شاور ایک بالکل بے کار رسم اور احمق نما اندھے مقلدوں نے اپنائی ہوئی ہے، انگریز برائیڈل شاور اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس شادی کے موقع پر شادی کے دن کے علاوہ آگے پیچھے کوئی رسم نہیں ہے، ہمارے پاس تو مایوں، مہندی، چوتھی، ولیمہ سب موجود ہے، ہمیں کیا ضرورت ہے کہ برائیڈل شاور کا اضافہ کریں مگر نہیں کیونکہ یہ انگریزوں سے آئی ہے تو ہم بھی نقل کریں گے۔ ارے ان کی نقل کرنے سے کیا آپ انگریز بن جائیں گے؟ آپ کے پاس بہت پیسہ ہے یا جتنا بھی پیسہ ہے ان سب خرافات کے بجائے اپنے بیٹے اور بیٹی کو استعمال کی اشیا دیں، لڑکے کو گھر میں الگ پورشن بنادیں جس میں کچن بھی ہو کل کو جھگڑے کرکے الگ کرنے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ پہلے دن تسلیم کرلیں کہ آپ کا بیٹا نئی فیملی بنانے جارہا ہے اس کی فیملی اس کی ذمے داری ہے اور وہ اس فیملی کا سربراہ ہے، وہ فیملی ایک خود مختار فیملی ہوگی، ہاں آپ کے حقوق کوئی سلب نہیں کرسکتا اسے پہلے دن سے اپنے گھر میں الگ خودمختار پورشن دے دیں اس طرح لڑکی والے بھی شادی پہ لاکھوں لگانے کے بجائے لڑکی کو استعمال کی اشیا دیں اپنی گنجائش کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ ٹرک بھر کے شادی کے وقت دلہن کے روانہ کرکے ٹھوس ٹھوس کے لڑکے والوں کے گھر دیا جائے بلکہ سمجھداری تو یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق بھی دیا جاسکتا ہے، لڑکے اور لڑکی والوں کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے تو بچوں کو گھر بنادیں، پلاٹ لے کر دیں، حج اور عمرہ کروادیں، ان خرچوں کا فائدہ بھی ہے یہ ساری عمر کام آنے والی چیزیں ہیں آپ کا بوجھ بھی ہلکا رہے گا رسم و رواج پر لاکھوں، کروڑوں روپے دنیاداری کے لیے ایک دن میں اُڑا دینا کہاں کی عقلمندی ہے نظر الگ لگتی ہے۔ سب سے بڑا بہانا ایک دن تو ہوتا ہے زندگی کا سنجنے سنورنے کا۔ یہ صرف بہانہ ہے اور دھوکا ہے خود کو دھوکا مت دیں ہوش میں آئیں۔ حقیقت پسندی اور سمجھداری سے زندگی گزاریں۔
اے ابن آدم جویریہ ساجد نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کچھ باتیں تو بہت اچھی ہیں اب تھوڑا سا اضافہ میں بھی کردیتا ہوں۔ سب سے پہلے وقت کی پابندی سب سے زیادہ ضروری ہے، بارات کے آگے ناچ گانا اور آتش بازی کرنا کون سا فیشن ہے۔ نیوکراچی تھانے والی روڈ پر 5 شادی ہال موجود ہیں۔ قریشی برادری رات کو 12 اور ایک کے درمیان بارات لے کر آتے روڈ پر طوفان بدتمیزی کا سما ہوتا ہے بڑے پیمانے پر آتش بازی ہوتی ہے مگر سلام ہے نیوکراچی تھانے کے ایس ایچ او صاحب کی ناک کے نیچے غیر قانونی کام ہوتا رہا ہے۔ مجال ہے کہ کبھی پولیس آئی ہو یا دولہا کے گرفتار کیا ہو۔ شادی ہالوں کے باہر آتش بازی انتظامیہ نے منع کیا ہے ہر شادی ہال میں نوٹس لگا ہوا ہے مگر آپ اپنی آنکھوں سے یہ سارے غیر قانونی کام دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ افسوس یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے بزرگ بھی نئی نسل کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر مسئلے کا قانون موجود ہے مگر افسوس 78 سال سے قانون کے ساتھ مذاق چل رہا ہے۔ شادی کو آسان بنانے کے بجائے ہم نے اسے مشکل بنادیا ہے۔ مووی والوں کی ہدایت پر دولہا اور دلہن یرغمال بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ شادی والے دن دلہن دولہا کے ہاتھوں میں گھوم گھوم کے مووی اور فوٹو بنوا رہی ہوتی ہے اور بے شرم معاشرہ تالیاں بجا کر ان کو داد دے رہا ہوتا ہے۔ اللہ کے واسطے اپنے اصل مرکز اسلام کی طرف واپس آجائو نہیں تو تم لوگوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔