علی امین گنڈاپور اور انکی کابینہ کی ڈی نوٹیفکیشن کا اعلامیہ تاحال جاری نہ ہوسکا
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
علی امین گنڈاپور اور انکی کابینہ کے ڈی نوٹیفیکیشن کے معاملے میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور اور ان کی کابینہ کا ڈی ںوٹیفیکیشن کا اعلامیہ تاحال جاری نہ ہو سکا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کی ڈی نوٹیفیکشن جاری نہ ہونے پر تاحال ابہام موجود ہے۔ ابہام کی وجہ سے تاحال علی امین گنڈاپور اور انکی کابینہ کا ڈی نوٹیفیکیشن اعلامیہ جاری نہ کیا جا سکا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلی کے استعفے کی سمری کے بعد گورنر ایک سمری جاری کرتا ہے۔ گورنر ہاؤس کی جانب سے تاحال علی امین گنڈاپور کے استعفے سے متعلق سمری جاری نہیں کی گئی۔ عام حالات میں گورنر کی سمری چیف سیکرٹری کو بھیجی جاتی ہے۔ چیف سیکرٹری گورنر کی سمری کو محکمہ انتظامیہ کے حوالے کرتا ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ محکمہ انتظامیہ کا سیکشن آفیسر کیبنٹ ڈی نوٹیفیکشن کی سمری جاری کرتا ہے۔ ڈی نوٹیفیکیشن کی سمری کے اجرا کے ساتھ ہی وزیراعلٰی اور اسکی کابینہ تحلیل ہو جاتی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ڈی نوٹیفائی ہونے تک دوسرے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوسکتا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے مستعفی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر ہاؤس کی رائے آئے بغیر نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر اپوزیشن نے سوالات اٹھاتے ہوئے اس انتخاب کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ڈی نوٹیفائی ہونے تک دوسرے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوسکتا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اسپیکر کے پی اسمبلی نے بھی نئے وزیراعلیٰ کے انتخابی طریقہ کار کو آئین کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مستعفی ہو جانے کے بعد نئے وزیراعلی کا انتخاب پیر کو ہوگا لیکن اس انتخابی عمل پراپوزیشن کی جانب سے سوالات اٹھا لیے گئے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کی جانب سے دوسرا استعفی ہفتے کو گورنرخیبرپختنخواہ فیصل کریم کنڈی کو بھجوا دیا گیا جس پر گورنر نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ استعفیٰ موصول ہو چکا ہے لیکن ان کی قانونی ٹیم پیر کو اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔ دوسری جانب سیاسی اور قانونی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کے استعفے کے حوالے سے اعلامیہ جاری ہوئے بغیر دوسرے وزیر اعلیٰ کا کیسے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا کہ حیران کن بات ہے ایک صوبے کے دو وزیراعلیٰ کیسے بن رہے ہیں، ایک کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا اور کابینہ بھی تحلیل نہیں ہوئی، کیسے سیاسی نابالغوں کے ساتھ ہمارا واسطہ پڑا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمان نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کا طریقہ کار غیر قانونی ہے، ایک وزیراعلیٰ موجود ہے تو دوسرے وزیراعلیٰ کا کیسے انتخاب کیا جاسکتا ہے، صوبائی کابینہ بھی تحلیل نہیں ہوئی تو کیسے نئے وزیراعلی کا انتخاب ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی اقدام کے خلاف ہر کوئی عدالت جاسکتا ہے، پی ٹی آئی کے دوستوں کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس پر انہیں پچھتانا پڑے۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی نے وزیراعلیٰ کے چناؤ کے عمل کو آئینی قرار دیا اور کہا کہ وزیراعلی استعفیٰ دے چکے ہیں اور اس حوالے سے آئین بڑا واضح ہے، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور مستعفی ہوچکے ہیں لہٰذا نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔ ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل نے بھی وزیراعلیٰ کے انتخاب کو آئینی قرار دے دیا ہے۔