گنڈاپور کا استعفا منظور نہیں ہوا: جے یو آئی نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کیخلاف عدالت پہنچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: خیبر پختونخوا کی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہو گئی ہے، جہاں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے صوبے کے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ میں یہ درخواست جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر لطف الرحمن کی جانب سے بیرسٹر یاسین رضا کے توسط سے جمع کرائی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفا تاحال منظور نہیں ہوا، لہٰذا نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب قانونی طور پر درست نہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا نے علی امین گنڈاپور کو 15 اکتوبر کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے تاکہ استعفے کی تصدیق ہو سکے۔ جب تک گورنر باضابطہ طور پر استعفا قبول نہیں کرتے، نیا وزیراعلیٰ منتخب کرنا آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔
پارلیمانی لیڈر لطف الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اسمبلی اجلاس میں وزیراعلیٰ کا انتخاب عجلت میں کیا گیا، حالانکہ اسپیکر کے علم میں یہ بات تھی کہ گورنر نے ابھی استعفا منظور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اسپیکر کی ہدایت پر کاغذات تو جمع کرائے، مگر اجلاس کا بائیکاٹ کیا، کیونکہ جب گورنر کا خط آیا تب ہمیں پتا چلا کہ علی امین گنڈاپور کا استعفا تاحال زیرِ غور ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے سابق وزیراعلیٰ کا استعفا آئینی طور پر منظور ہو، پھر نیا وزیراعلیٰ منتخب کیا جائے۔ ورنہ یہ عمل نہ صرف غیر قانونی بلکہ صوبائی اسمبلی کے قواعد کی بھی خلاف ورزی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا استعفا
پڑھیں:
کے پی اسمبلی، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب جاری، اسپیکر نے گنڈاپور کا استعفیٰ منظور کرنیکی رولنگ دیدی، اپوزیشن کا واک آؤٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔
اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں شروع ہوا، جہاں علی امین گنڈا پور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان نے استعفے کا کہا تو انہوں نے اسی روز اپنے قائد کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوری عمل کو تماشا نہ بنایا جائے، جو کچھ گزشتہ دنوں میں ہوا، وہ اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ گزشتہ 19 ماہ کی کارکردگی ریکارڈ پر موجود ہے، جب انہیں حکومت ملی تو خزانے میں صرف 18 دن کی تنخواہوں کے پیسے تھے، جبکہ آج صوبائی خزانے میں 218 ارب روپے موجود ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اپوزیشن کو ان سے شکایت ہو سکتی ہے کہ انہیں فنڈز نہیں دیے گئے، لیکن عوام خوش ہیں کیونکہ وسائل عوامی فلاح پر خرچ کیے گئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی قوم اور آنے والی نسلوں کے لیے قربانی دے رہے ہیں اور وہ ان کے ساتھ بھرپور انداز میں کھڑے ہیں۔
اپوزیشن کا بائیکاٹ
دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ اب تک منظور نہیں ہوا، اس لیے ان کی موجودگی میں نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر نے علی امین گنڈا پور کو طلب کیا ہے تاکہ معاملے کی وضاحت ہو سکے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومتی اتحاد کے پاس اکثریت ہے تو ایسی عجلت میں یہ عمل متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ انہوں نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اس “غیر قانونی” عمل کا حصہ نہیں بنے گی اور اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی۔