آباد کی مخالفت کے باوجود شراب خانوں کے لائسنس کا اجرا
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251018-02-17
کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق)کراچی کے مختلف علاقوں میں شراب کی دکان کے لائسنس کے اجرا نے سندھ حکومت کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ایک نئے تنازع میں الجھا دیا ہے۔ مقامی آبادی کی شدید مزاحمت اور قانونی اعتراضات کے باوجود دکان کے قیام نے نہ صرف عوامی غم و غصے کو بھڑکا دیا ہے بلکہ ایکسائز پولیس کے مبینہ مالی مفادات اور غیر قانونی سرگرمیوں پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ذرائع کے مطابق نیو کراچی انڈسٹریل ایریا تھانے کی حدود، سیکٹر 11-F بسم اللہ کالونی میں شراب کی فروخت کے لیے لائسنس جاری کیا گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہ علاقہ 100 فیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہے، جہاں کسی نان مسلم کمیونٹی کی موجودگی ہی نہیں، جو لائسنس کے بنیادی قانونی جواز کو ہی مشکوک بنا دیتا ہے۔مقامی مکینوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دکان کے قیام سے قبل نہ کسی سوشل اسیسمنٹ رپورٹ تیار کی گئی، نہ ہی پولیس اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی رضامندی حاصل کی گئی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ “یہ دکان رہائشی بستی کے عین درمیان قائم کی گئی ہے، جہاں سے چند گز کے فاصلے پر مسجد، اسکول اور کلینک واقع ہیں” جوشراب کی فروخت کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بعض ایکسائز انسپکٹرز اور فیلڈ افسران نے مقامی دکانداروں سے بھاری رشوت کے عوض اجازت نامہ دلانے میں کردار ادا کیا۔ اطلاعات کے مطابق، 2023 اور 2024 میں سندھ حکومت نے درجنوں نئے لائسنسز جاری کیے، جن میں بعض انتہائی حساس مسلم علاقوں میں بھی شامل تھے۔ 2025 میں مزید 5 نئے لائسنس دیے گئے — جن میں بسم اللہ کالونی کا نام نمایاں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی ایکسائز اہلکار ایسے کاروباروں سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں، جس کے بدلے میں وہ پولیس کارروائیوں سے “تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق، کچھ شراب خانے رات گئے ‘‘پرچون فروشی’’ کے نام پر مسلمانوں کو بھی شراب بیچ رہے ہیں — جو نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ مذہبی طور پر بھی ناقابلِ قبول عمل ہے۔قانون کے مطابق، کسی بھی شراب کی دکان کومسجد، مدرسہ، اسکول یا اسپتال سے 100 تا 200 میٹر کے اندر قائم کرنا مکمل طور پرغیر قانونی ہے۔ تاہم، بسم اللہ کالونی میں یہ تمام حدود پامال کی گئیں۔رہائشیوں کا کہنا ہے کہ دکان کے قیام سے علاقے میں جرائم، جھگڑوں، اور منشیات کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔اہلِ علاقہ نے ایک متفقہ پٹیشن تیار کی ہے جس میں وزیرِ اعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ، اور عدالتِ عالیہ سے اپیل کی گئی ہے کہ شراب کی دکان کا لائسنس فی الفور منسوخ کیا جائے، ذمہ دار ایکسائز افسران کے خلاف انکوائری کی جائے اور متاثرہ بستی کے مکینوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔کراچی بھر میں اس وقت 23 رجسٹرڈ شراب خانے موجود ہیں، جن میں صدر، گلشن، کورنگی، ملیر، لیاری، اور ڈیفنس کے علاقے شامل ہیں۔ تاہم، بسم اللہ کالونی جیسی مکمل مسلم بستی میں لائسنس کا اجرا ایک نئی اور خطرناک نظیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر حکومت نے بروقت ایکشن نہ لیا توسماجی انتشار، مذہبی اشتعال، اور پولیس و عوام کے درمیان اعتماد کا بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق شراب کی دکان کے کی گئی
پڑھیں:
جنگ بندی اور ٹرمپ کی ضمانتوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں فلسطینی صحافی شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ سٹی:غزہ کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی ڈرون حملے میں فلسطینی فوٹو جرنلسٹ محمود وادی شہید ہو گئے حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ثالثی کردہ جنگ بندی معاہدے کے تحت علاقے میں امن قائم تھا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق وادی خان یونس کے مرکزی علاقے میں مارے گئے جو اسرائیل کے زیر کنٹرول زون میں شامل نہیں تھا، غزہ حکومت کے میڈیا دفتر کی جانب سے اس واقعے پر ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔
فلسطینی فوٹو جرنلسٹ کے والد عصام وادی نے بیٹے کی شہادت کو خیمے پر آنے والا زلزلہ قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیلی قابض افواج کی جرم اور دھوکہ دہی کہا۔
شہید صحافی کے ساتھی محمد ابو عبید نے بتایا کہ محمود وادی انسانی خدمات اور محتاجوں کی مدد کے لیے مشہور تھے، وہ اپنے بیٹے کی پرورش کے منصوبوں کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بارہا اسرائیل سے فلسطینی صحافیوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا مگر تل ابیب نے ان اپیلوں کو نظر انداز کیا۔
واضح رہےکہ غزہ میں اکتوبر 2023 سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 257 ہو گئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملوں میں کم از کم 367 فلسطینی ہلاک اور 900 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ حماس نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی یقین دہانی کرائی ہے اور امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔