مدینہ ریجن میں پرندوں کی نایاب اقسام ماحولیاتی سیاحت کے فروغ کی نئی راہیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
مدینہ ریجن کے قدرتی مناظر اور سرسبز وادیوں میں درجنوں اقسام کے مقامی اور مہاجر پرندے پائے جاتے ہیں، جو اسے ماحولیاتی سیاحت اور پرندہ بینی کے شوقین افراد کے لیے ایک پرکشش مقام بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پرندوں کی ہجرت کا عالمی دن، سعودی عرب میں آگاہی مہم آغاز
ایک رپورٹ کے مطابق مدینہ ریجن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ماہرین اور محققین کے تعاون سے علاقے میں موجود پرندوں کی حیاتیاتی تنوع سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے سرگرم ہے۔
اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد لوگوں میں قدرت سے لگاؤ پیدا کرنا، پرندہ بینی اور فوٹوگرافی کو فروغ دینا اور مستقبل میں ریجن بھر میں مخصوص پرندہ بینی مقامات میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
اتھارٹی نے اب تک 26 عام پائے جانے والے پرندوں کی اقسام ریکارڈ کی ہیں اور ان پر مشتمل ایک تفصیلی ریفرنس گائیڈ بھی شائع کی ہے، جس میں ہر پرندے کا عربی و انگریزی نام، نمایاں خصوصیات، پسندیدہ مسکن اور خوراک کے معمولات درج ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مدینہ ریجن میں پائے جانے والے نمایاں پرندوں میں چمکدار زرد رنگ کا ویور برڈ شامل ہے جو بیری اور کھجور کے درختوں پر اپنے خوبصورت گھونسلے بناتا ہے۔ اس کے علاوہ سفید رنگ کا کو ہیرن جو عموماً مویشیوں کے قریب دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر البیضا پارک اور وادی العقیق میں، جبکہ نایاب سینڈگروز جو مدینہ کے مضافاتی وادیوں میں افزائش نسل کرتا ہے، بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ علاقے میں عام طور پر دیکھے جانے والے دیگر پرندوں میں عام مینا، گلابی طوق والا طوطا، قہقہہ مارنے والا فاختہ، مشرقی شہد خور، کالرڈ ڈوو، جنگلی کبوتر، ہدہد، کنگ فشر اور بلیک کائٹ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: کھیلوں کی سیاحت میں فروغ، 2030 تک 100 ارب ریال آمدن متوقع
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مدینہ کی متنوع قدرتی زمینیں کھیت، وادیاں اور ساحلی علاقے خطے کی حیاتیاتی تنوع کے لیے اہم مسکن ہیں۔
سعودی حکام کے جاری اقدامات نہ صرف جنگلی حیات کے تحفظ میں معاون ہیں بلکہ پائیدار ماحولیاتی سیاحت کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سیاحت کا فروغ مدینہ ریجن نایاب پرندے وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سیاحت کا فروغ نایاب پرندے وی نیوز پرندوں کی کے لیے
پڑھیں:
کراچی: مین ہول میں گرنے والے بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد مل گئی
کراچی(نیوز ڈیسک) کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب کھلے مین ہول میں گرنے والے 3 سالہ بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد ایک کلو میٹر دور نالے سے مل گئی ہے۔
گزشتہ رات 11 بجے معروف ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے سامنے تین سالہ ابراہیم کھلے گٹر میں گر کر لاپتہ ہوگیا تھا، رات بھر ریسکیو آپریشن کے باوجود بچہ نہیں مل سکا تھا، مشینری نہ ہونے کے باعث ریسکیو آپریشن معطل کردیا گیا۔
کچھ دیر قبل سرکاری سطح پر ہیوی مشینری جائے حادثہ پر پہنچی تھی جبکہ احتجاج کے باعث بند ہونے والی یونیورسٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
ریسکیو آپریشن کرنے والے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ مین ہول میں پانی کا بہاؤ تیز ہونے کے باعث بچے کی تلاش کے کام میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق مشینری سے کھدائی کرکے بچے کو تلاش کیا گیا اور غوطہ خوروں نے بھی ڈھونڈا لیکن بچہ نہیں ملا۔
واقعے کے خلاف مشتعل افراد نے احتجاج کیا، مظاہرین نے یونیورسٹی روڈ نیپا اور حسن اسکوائر آنے اور جانے والی سڑک ٹریفک کے لیے بند کی۔
متاثرہ خاندان کا کہنا تھا کہ مشینری کا انتظام اہل خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا تھا، لیکن مشتعل افراد کے احتجاج کے باعث مشینری جائے حادثہ سے روانہ ہوگئی۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ واٹر کارپوریشن کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، اگر کوئی افسر غفلت میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کل رات سے اس مسئلے پر سیاست کرنے کی کوشش کی گئی جو بڑی بدقسمتی ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ بچے کے والدین کی تڑپ کا احساس ہے اور واقعہ پر افسوس بھی کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ مین ہول میں گرنے والے بچے کی تلاش جاری ہے، پانچ سو میٹر کے حصے کو کھود چکے ہیں، میں تمام انتظامیہ سے رابطے میں ہوں۔ اہلخانہ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔
حادثے کے بعد سے تاحال میئر کراچی، ڈپٹی کمشنر ایسٹ اور منتخب نمائندوں میں سے بھی کوئی مدد کے لیے موقع پر نہیں پہنچا جبکہ بی آر ٹی پروجیکٹ کی مشینری بھی قریب ہونے کے باوجود مدد کے لیے نہیں آئی۔
ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد کا کہنا ہے کہ بچہ مین ہول میں گرنے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ چکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں نے غلط بیانی کی، مشینری اور انتظامییہ موجود پر تھی، کچھ شرپسند عناصر نے سیاسی مقاصد کیلئے احتجاج کیا اور گاڑیوں کے شیشے توڑے۔
بچے کے والد نبیل کا کہنا ہے کہ ہم شاہ فیصل کے رہائشی ہیں اور میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ نیپا شاپنگ مال آیا تھا جب ہم نے شاپنگ کی تو باہر نکلے اور باہر آکر میرا بیٹا ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔
والد کا کہنا تھا کہ میری موٹر سائیکل گٹر کے مین ہول کے قریب پارک تھی جبکہ گٹر کے مین ہول پر ڈھکنا موجود نہیں تھا، انہوں نے بتایا کہ میری آنکھوں کے سامنے گٹر میں میرا بیٹا گرا ہے۔
بچے کے والد نے بتایا کہ میرے بیٹے ابراہیم کی عمر تین سال ہے اور یہ میری اکلوتی اولاد تھی۔
بچے کے دادا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ موٹرسائیکل کی پارکنگ فیس لی جاتی ہے لیکن گٹر کا ڈھکن نہیں لگایا جاتا، گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ، مرتضیٰ وہاب ہمارے بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر ریسکیو کا کام کرائیں۔
دوسری جانب واٹر کارپوریشن نے افسوسناک واقعے پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی جان سے متعلق ہر ناخوشگوار واقعہ افسوس ناک ہوتا ہے۔
ترجمان واٹر کارپوریشن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ افسوسناک واقعہ جس مقام پر پیش آیا وہاں واٹر کارپوریشن کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ پر نہ سیوریج کی لائن موجود ہے اور نہ ہی واٹر کارپوریشن کا کوئی مین ہول ہے، برساتی نالوں کی دیکھ بحال، مرمت اور صفائی کے امور واٹر کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں۔