ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ مٰن ترمیم منظور : 74شکایات مستر د‘ 3پرکارروائیاں ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کیخلاف 74 میں سے 70 شکایات مسترد، 3 مزید کارروائی کیلئے منظور جبکہ ایک پر کارروائی مؤخر کر دی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ججوں کے ضابطہ اخلاق میں اکثریت رائے سے ترامیم کی منظوری دے دی۔جوڈیشل کونسل کے دو الگ الگ اجلاس ہوئے اور پہلے اجلاس میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شریک ہوئے۔ لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر شریک ہوئے۔ اعلامیے کے مطابق دوسرے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگرکی جگہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شریک ہوئے۔ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت 67 شکایات کا جائزہ لیا گیا، 65 شکایات متفقہ طور پر مسترد، ایک مؤخر اور ایک کو اکثریتی فیصلے سے مزید کارروائی کیلئے منظور کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدم شرکت کے باعث کونسل کو دوبارہ تشکیل دیا گیا۔سپریم جوڈیشل کونسل کے دوسرے اجلاس میں 7 شکایات کا جائزہ لیا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی رائے سے 2 شکایات پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا جبکہ کونسل نے 5شکایات داخل دفتر کر دیں۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2024ء سے اب تک 155 شکایات پر غور کیا جا چکا ہے، 74 شکایات پر فیصلے کے بعد 87 شکایات ابتدائی غور کے لیے زیر التوا ہیں۔ جسٹس سرفراز ڈوگر نے ان شکایات پر کارروائی سے خود کو الگ کیا۔ اعلامیہ کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر کی جگہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو شامل کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم بھی منظور کرلی گئی، ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق ایک جج کو ایسا کیس نہیں سننا چاہیے جس میں جج کا فریق یا وکیل سے کوئی تعلق ہو، ایک جج کو کسی عوامی تنازع میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہیے، عوامی تنازعات کے بارے میں ایک جج کو کسی بھی فورم پر تقریر کی صورت میں تحریری یا زبانی رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ عوامی تنازع میں چاہیے کوئی قانونی سوال بھی ہو تب بھی عوامی فورمز پر سیاسی سوالات پر رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے، ایک جج میڈیا سے رابطہ کرکے ایسے موضوع پر رائے نہیں دے گا جس سے عوامی بحث چھڑ جائے یا جس سے ادارہ جاتی اجتماعیت یا ڈسپلن متاثر ہو، اگر عوامی سطح پر ایک جج پر الزام لگایا جائے تو وہ جج تحریری طور پر 5 رکنی سپریم کورٹ ججز کمیٹی کو اطلاع دے گا۔ ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق 5 رکنی کمیٹی چیف جسٹس پاکستان کی زیر صدارت ہوگی، کمیٹی کے دیگر چار ممبران میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز شامل ہو ہونگے، پانچ رکنی ججز کمیٹی جج پر لگائے گئے الزام کا بذریعہ رجسٹرار ادارہ جاتی جواب دے گی۔ ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں کہا گیا کہ ایک جج جس حد تک ممکن ہو سکے خود یا کسی اور کے ذریعے مقدمہ بازی سے گریز کرے گا، خصوصی طور پر ایک جج خود صنعتی، تجارتی یا پھر قیاس آرائیوں پر مبنی لین دین کا حصہ نہیں بنے گا۔ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق انتہائی قریبی رشتہ داروں یا انتہائی قریبی دوستوں سے معمولی نوعیت کے تحائف لے سکتا ہے۔ ایک جج کو ممبر بار ذاتی حیثیت سے کھانے کی دعوت پر مدعو نہیں کرسکتا، ایک جج کو کسی کانفرنس میں شرکت کیلئے ذاتی طور پر دعوت نامہ ملے تو وہ دعوت دینے والے کو اپنے چیف جسٹس کے ذریعے دعوت نامہ بھیجنے کا کہے گا۔ہائی کورٹ کے کسی جج پر اگر کوئی اثرانداز ہونے کی کوشش کرے تو وہ جج فوری طور پر اپنے متعلقہ چیف جسٹس ہائی کورٹ، چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کو تحریری طور پر آگاہ کرے گا۔ اگر سپریم کورٹ کے کسی جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو وہ فوری طور پر اپنے چیف جسٹس پاکستان اور چار سینئر ججوں کو تحریری طور پر آگاہ کرے۔ جج کی شکایت پر 15 روز میں کمیٹی فیصلہ کرے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سپریم جوڈیشل کونسل ججز کوڈ ا ف کنڈکٹ کورٹ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ شکایات پر اجلاس میں ایک جج کو کے مطابق کونسل نے
پڑھیں:
گرفتار افراد کے حقوق کا بل سینیٹ سے منظور
فائل فوٹو۔سینیٹ نے گرفتار، تحویل میں لیے گئے اور زیر حراست افراد کے حقوق کا بل منظور کر لیا، بل فاروق ایچ نائیک نے منظوری پیش کیا۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ دوران حراست ملزم کو حقوق ملنے چاہئیں، یہ بل انسانی حقوق کے لیے اہم ہے، بل میں ہے کہ جو شخص گرفتار ہو اسے وجوہات بتائی جائیں۔ یہ بل جمہوریت اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے بہت ضروری ہے۔
بل کی تفصیلات کے مطابق گرفتار شخص کو تحریری طور پر گرفتاری، زیر حراست ہونے یا زیر تفتیش ہونے کی وجوہات بتائی جائیں گی۔
بل کے مطابق گرفتار ہونے والے شخص کو اس کی مرضی کا وکیل فراہم کیا جائے گا، گرفتار شخص کو تنہائی میں اپنے وکیل سے بات کرنے کی اجازت ہوگی۔
گرفتار شخص کو اپنی فیملی سے ملاقات یا بات کرنےکی اجازت ہوگی، ڈاکٹر اور مذہبی رہنما سے ملاقات کی اجازت ہوگی۔
بل کے مطابق گرفتار شخص کو اخبارات اور گھر کے پکے ہوئے کھانے کی اجازت ہوگی، متعلقہ افسر گرفتار شخص کو اس کے حقوق سے آگاہ نہیں کرتا تو ایک سال تک قید ہوگی۔
بل کے متن کے مطابق متعلقہ افسر کو گرفتار شخص کو حقوق سے آگاہ نہ کرنے پر 6 ہزار روپے جرمانہ بھی ہوگا، گرفتار شخص کی وکیل، اہل خانہ تک رسائی روکنے والے کو ایک سال قید اور 4 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
گرفتار شخص کی ڈاکٹر اور مذہبی رہنما تک رسائی روکنے والے کو بھی ایک سال قید اور 4 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ میں ترمیم کا بل پیشسینٹر انوشہ رحمان نے پیکا میں ترمیم کا بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔
بل کے مطابق سروس پرووائیڈر مجاز ادارے کی جانب سے مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کی درخواست پر عمل درآمد یقینی بنائے گا، اگر وہ مواد ہٹانے یا بلاک کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔