نظریہ ضرورت میں لپٹے قومی مخمصے اور مغالطے
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عارف بہار
تحریک لبیک کے ساتھ جو کچھ ہوا پاکستانی معاشرے اور تاریخ میں قطعی نیا نہیں۔ چار دہائیوں سے ہر دوچار سال بعد ایک نازک موڑ آتا ہے اور موڑ کاٹتے ہوئے کوئی غفلت اور بے تدبیری ایسی ہوتی ہے گاڑی گہری کھائی میں جا گرتی ہے اور پھر باقی توانائیاں اس گاڑی کو کھائی سے نکالنے میں صرف ہوتی ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے واقعات یا تو دہائیوں کے بعد رونما ہوتے ہیں یا پھر ایسے مواقع آتے ہی نہیں مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی گاڑی مستقلاً ہی نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ نازک موڑ کی طرح قومی مفاد کی اصطلاح بھی پاکستان کے ساتھ چمٹ کر رہ گئی ہے۔ نہ نازک موڑ ہماری جان چھوڑتا ہے نہ قومی مفاد کی اصطلاح سے خلاصی حاصل ہوتی ہے اگر کچھ بدلتا ہے تو صرف حکمران کا چہرہ بدلتا ہے۔ ایک حکمران رخصت ہوتا تو اس کے ساتھ ہی اس کا تصورِ قومی مفاد بھی وقت کے عجائب خانے کی نذر ہوجاتا ہے اور اس کا نازک موڑ بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ نئے حکمران کا اپنا نازک موڑ اور اپنا تصور قومی مفاد ہوتا ہے۔ یہی پاکستان کی تکلیف دہ اور دل خراش تاریخ کی ساری کہانی ہے۔ تحریک لبیک کے ساتھ جو کچھ ہوا تو اس کے بعد 2025 میں 2007 کے لال مسجد کے مناظر نظروں اور یادوں میں گھومنے لگے۔ نائن الیون کے بعد مغربی میڈیا نے بتایا کہ اصل خرابی دیوبندی اسلام کی تعبیر وتشریح اور تعلیمات ہیں۔ فی زمانہ جہادی سوچ وفکر نے یہیں سے تقویت حاصل کی ہے اور یہی وہ سوچ تھی جس نے افغانستان میں اْسامہ بن لادن کو پناہ دے کر امریکا پر حملہ کرنے کا موقع اور ماحول فراہم کیا۔ اس سوچ کے تحت دیوبندی اسکول آف تھاٹ کی تعلیمات کو محدود کرنا حالات کا تقاضا ٹھیرا۔ یہ کام خلا میں نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس کا مقابل اور متبادل پیش کرنا بھی ضروری تھا۔
پاکستان چونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اگلا مورچہ بن چکا تھا اس لیے وہ باہر ہونے والے ان فیصلوں سے براہ راست متاثر ہورہا تھا۔ پاکستان خوفناک دہشت گردی کا سامنا کررہا تھا اور اچانک اسلام آباد میں لال مسجد میں قال اللہ وقال الرسول کے مقصد سے آگے بڑھ کر مسجد کی دیواروں سے باہر نکل کر سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ غازی بردارا ن میڈیا کا موضوع بنتے چلے گئے۔ میڈیا نے لال مسجد کا ایسا امیج بنانا شروع کیا کہ جیسے یہ مسجد اسلام آبا د کے قلب میں نہیں مریخ پر ہو۔ میڈیا نے لال مسجد کی سرگرمیوں اور اس کے اردگرد آپ پارہ کی ایسی منظر کشی شروع کی کہ یوں لگ رہا تھا کہ اسلام آبا دکی سب قدیم مارکیٹ کے گرد ونواح میں وار لارڈز کا راج ہو اور جا بہ جا ناکے ہوں۔ مرحوم نذیر ناجی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حامی ناموں میں نمایاں نام تھے نے ایک کالم میں آب پارہ کی ایسی منظر کشی کی خوف کی جھرجھری سی بدن میں پیدا ہونے لگتی مگر عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ لال مسجد کے گرد ونواح میں حالات معمول پر تھے۔ نہ جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ کے طلبہ وطالبات اسلحہ لے کر گھومتے نظر نہ آتے نہ وہ ناکے لگا کر ٹیکس وصول کرتے مگر میڈیا اس کے برعکس اس مقام کی منظر کشی کرتا تھا۔ کچھ یہی حال نجم سیٹھی کے انگریزی جریدے فرائیڈے ٹائمز کا تھا۔ یہاں تک کہ لال مسجد اور ریاست آمنے سامنے آتے چلے گئے تصادم کا ماحول گہرا ہوتا چلا گیا صلح صفائی کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ آخری مرحلے پر غازی برادران خود سپردگی پر آمادہ تھے اس پیشکش سے فائدہ نہ اْٹھایا گیا اور لال مسجد میں آپریشن لازم ٹھیرا۔ جس کے بعد پاکستان میں خود کش حملوں کا سیلاب سا آگیا۔ اس کے ساتھ سرکاری چھتر چھائے میں دیوبندی تصورات کے مقابل صوفی اسلام کو متعارف کرانے اور اس کی سرپرستی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پرویز مشر ف نے اپنی سرپرستی میں صوفی کونسل قائم کی۔ وہ قوالی نائٹس میں جانے لگے۔ بریلوی علماء کو ٹی وی پر امن آشتی اور ریاست سے وفاداری کی علامت کے طور پر پرموٹ کیا جانے لگا۔ کئی مدارس پر دھن بھی برسنے لگا۔ اسی ہائو ہو میں سلمان تاثیر کا قتل ہوگیا۔ جو ماحول بنایا گیا تھا اس میں ہر شخص کا پہلا خیال یہ تھا کہ سلمان تاثیر کو طالبان حامی کسی شخص نے نشانہ بنایا ہوگا مگر سب اندازے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے۔ جو ظاہر ہے اس وقت کے مروجہ جہادی رویوں سے قطعی دور اور الگ تھلگ بھی تھا اور ریاست کی گڈ بک میں بھی تھا۔ یوں دیوبندی کے بعد بریلوی اسلام کو پرموٹ کرنے کا سلسلہ بھی یہیں رک گیا۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے اثرات سے مولانا خادم رضوی کا ظہور ہوا۔ جو عشق رسول کے حوالے کے ساتھ پروانہ وارجان دینے کی بات کرتے نظرآتے۔ ان کی عوامی رونمائی کے پہلے مرحلے پر سوشل میڈیا پر ایک سونامی کی طرح ان کی آمد ہو رہی تھی۔ وہ اقبال کے فارسی اور اردو کلام سے مزین ایسی شعلہ نوائیاں کرتے رہے جس سے ایک نسل کی ذہن سازی سیماب صفتی کے ساتھ ہوتی رہی۔ ان کی تقریروں میں وہی رنگ جھلکتا تھا جو کسی دور میں لال مسجد کے بانی مولانا عبداللہ کی تقریروں میں جہاد اور قتال کے حوالے سے نمایاں ہوتا تھا اور وقت نے دونوں کو ریاست کے مقابل لاکر مشت ِ خاک بن کر اْڑادیا۔ ابتدائے سفر میں دونوں ریاست کے معاون، تراشیدہ اور فخریہ پیشکش سمجھے گئے اور کی سیمابیت ہی آگے چل کر ریاست کے ہاتھوں ہی ان کا قصہ تمام کرنے کا باعث بنی۔
لال مسجد میں آپریشن اس میں مارے جانے والوں کی تعداد لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا انداز سب کچھ تنازعات کی زد میں رہا تو مریدکے سانحہ بھی تنازعات کے وہ سارے رنگ لیے ہوئے ہے۔ مریدکے کے کنٹینر سے سعد رضوی کی مذاکرات کی درخواستیں اور دْہائیاں لال مسجد کے حجرے سے عبدالرشید غازی کی امن کی اپیلوں اور پرامن محفوظ راستے کی پیشکشوں کی یاد دلارہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ دونوں کسی نظریہ ضرورت کے ہاتھوں قیدی اور ٹریپ ہو کر رہ گئے ہیں مگر پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا۔ مریدکے کے بعد اب صوفی کونسل متروک ہی نہیں معتوب بن چکی ہے اور اب ایک بار پھر دیوبندی اسکول آف تھاٹ کے مولانا اشرفی ریاست کی ترجمانی اور اس کے اقدامات کی جوازیت کا مقدمہ لڑتے نظر آرہے ہیں۔ ریاست کے یہ مخمصے اور مغالطے وقت کی ضرورتوں سے جنم لیتے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں ایک خون آلود صفحے کا اضافہ کرنے کا باعث بنتے چلے جا رہے ہیں۔ بظاہر ریاست پرانی کہانی کو فسخ کرنے کا تہیہ کیے بیٹھی ہے مگر حقیقت میں پرانی کہانی کو نئے عنوان اور نئے نام سے دہرایا جاتا ہے اور فیض احمد فیض کی پیش گوئی سچ ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کو بس یونہی چلنا اور چلتے چلے جانا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لال مسجد کے قومی مفاد ریاست کے نازک موڑ کے ساتھ کرنے کا تھا اور اور اس ہے اور کے بعد تے چلے
پڑھیں:
27 بین الاقوامی کنونشنز پر عملدرآمد، پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس محفوظ
پاکستان کا یورپی یونین کے ساتھ جی ایس پی پلس اسٹیٹس صرف تجارتی رعایت نہیں، بلکہ یہ ملک کی اقتصادی زندگی کا اہم ستون ہے، جس کے ذریعے قریباً 6 ارب یورو کی پاکستانی مصنوعات بالخصوص ٹیکسٹائل دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ میں ہر سال بغیر کسٹم ڈیوٹی کے برآمد کی جاتی ہیں۔
اس اسٹیٹس کے باعث برآمد کنندگان کو 450 سے 550 ملین یورو کی بچت ہوتی ہے اور 1.5 سے 2 ملین براہِ راست ملازمتیں محفوظ رہتی ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما پاکستان کی جی ایس پی پلس سہولت کیخلاف مہم چلا رہے ہیں، خواجہ آصف
2014 میں 27 بنیادی بین الاقوامی کنونشنز، جن میں انسانی حقوق، مزدور حقوق، ماحولیات اور اچھی حکمرانی کے اصول شامل ہیں، کی توثیق اور نفاذ کے عوض یہ مراعات دی گئیں۔ اس کے بعد سے پاکستان کو مجموعی طور پر 3.6 ارب یورو کی برآمدات کا فائدہ حاصل ہوا اور پاکستان یورپی یونین تجارت 4.5 ارب یورو سے بڑھ کر قریباً 9 ارب یورو ہوگئی۔
گزشتہ دہائی میں پاکستان نے قومی سطح پر ایک مکمل تعمیل ڈھانچہ قائم کیا، صوبائی سطح پر ٹریٹی ایمپلیمنٹیشن سیلز، مخصوص جی ایس پی پلس فوکل پوائنٹس، سالانہ خود رپورٹنگ اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کے نظام کو متعارف کرایا، جبکہ 80 سے 85 فیصد قانونی ہم آہنگی حاصل کی۔
اس کے علاوہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو دوبارہ اے اسٹیٹس دلایا، اسلام آباد میں کم عمر شادی کی عمر 18 سال کی گئی، مزدور انسپیکشنز میں 20 فیصد اضافہ، ایکسپورٹ زونز میں تجارتی یونینز کو آزادانہ رجسٹریشن کی اجازت، 10 ارب درخت پروگرام کے پہلے مرحلے کی تکمیل، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے دوری اور موسمیاتی اقدامات میں یورپی یونین کی ستائش حاصل کی۔
تاہم جبراً گمشدگیاں، آزادی اظہار رائے کی صورتحال، توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال، بند مزدوری اور غیر رسمی شعبوں میں بچوں کی محنت جیسے مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔
24 تا 28 نومبر 2025 کو یورپی یونین کی اہم پانچ روزہ نگرانی مشن کی آمد کے بعد پاکستان ایک فیصلہ کن مرحلے پر کھڑا ہے، کیونکہ اس مشن کی خفیہ رپورٹ 2026 کے جی ایس پی پلس جائزے کو شکل دے گی اور طے کرے گی کہ آیا پاکستان یہ اہم مراعات 2027 اور اس کے بعد برقرار رکھ سکے گا یا نہیں۔
آنے والے ہفتے یہ فیصلہ کریں گے کہ پاکستان باقی رہ جانے والے خلا کو مستقل ترقی میں بدلتا ہے یا نہیں اور دنیا کو یہ ثابت کرتا ہے کہ 27 کنونشنز صرف دستخط شدہ نہیں بلکہ بہتر پاکستان کے لیے ایک جذبہ پر مبنی قومی مشن ہیں۔
پاکستان 27 جی ایس پی پلس کنونشنز کو صرف بیرونی شرط نہیں بلکہ قومی مشن کے طور پر اپنائے ہوئے ہے، جو وقار، انصاف، پائیداری اور قومی فخر کا عکاس ہے۔
اہم ملکی اصلاحات میں اسلام آباد میں کم عمر شادی کی عمر 18 سال تک پہنچانا، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو اے اسٹیٹس دینا، اقلیتوں کے تحفظات کو سننا، مزدور انسپیکشنز میں 20 فیصد اضافہ اور جبراً گمشدگی کے کیسز کا شفاف حل شامل ہیں، جو عملی قوانین اور عوام کی زندگی میں حقیقی بہتری کی علامت ہیں۔
قومی عزم کے تحت ہر صوبے میں ٹریٹی ایمپلیمنٹیشن سیلز، جی ایس پی پلس فوکل پوائنٹس، سالانہ اسکور کارڈز اور انسانی حقوق کے فعال میکانزم قائم ہیں، جو 2014 سے کیے گئے ہر وعدے پر پاکستان کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔
انسانی حقوق، مزدور حقوق، ماحولیاتی اقدامات اور حکمرانی میں قابلِ پیمائش اور تصدیق شدہ بہتری سے 1.5 سے 2 ملین ملازمتیں اور 6 ارب یورو کی ڈیوٹی فری برآمدات محفوظ ہیں۔
پاکستان جی ایس پی پلس گروپ میں موسمیاتی قیادت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، 10 ارب درخت منصوبہ، لیونگ سندھ منصوبہ اور مضبوط موسمیاتی وعدے اس کی مثال ہیں۔
حکمرانی میں اصلاحات سے حقیقی نتائج حاصل ہو رہے ہیں، جیسے 190 ٹن منشیات کی ضبطی، ایف اے ٹی ایف کی تعمیل، قومی سطح پر ڈیجیٹل پروکیورمنٹ اور مضبوط شفاف ادارے۔
پاکستان نے 27 کنونشنز کے نفاذ کے لیے مکمل قومی ڈھانچہ قائم کیا ہے تاکہ اصلاحات ادارے اور نگرانی کے نظام تجارت کے کسی بھی پروگرام کے اختتام کے بعد بھی جاری رہیں، کیونکہ عوام انصاف، وقار اور حقوق کے مستحق ہیں۔ دنیا کے صرف 8 ممالک تمام 27 کنونشنز پر پورا اترتے ہیں، اور پاکستان انہی میں سے ایک ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا جی ایس پی پلس سفر: 27 وعدے قومی عزم اور حقیقی اصلاحات میں کیسے بدلے؟
اعلیٰ سیاسی قیادت مکمل طور پر متحرک ہے، جس میں نائب وزیر اعظم، وزیر تجارت اور سیکریٹری انسانی حقوق پاکستان کے جی ایس پی پلس ایجنڈے کی قیادت کررہے ہیں۔
24 سے 28 نومبر 2025 کے دوران یورپی یونین کے مشن نے پاکستان کا دورہ کیا، جس کے بعد پاکستان مکمل پر اعتماد ہے۔ ہر فائل، ہر دروازے اور ہر فیکٹری تک رسائی فراہم کی گئی،اور یہ ظاہر کیا گیا کہ 27 کنونشنز پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اقوام متحدہ پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس کنونشنز پر عملدرآمد وی نیوز یورپی یونین