فتنوں کا خاتمہ امت کی مشترکہ ذمہ داری: فضل الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
بھکر (نوائے وقت رپورٹ) جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھکر میں اجتماع سے خطاب کرتے کہا ہے کہ مسلمانوں میں فتنے پیدا کئے جا رہے ہیں۔ فتنوں کا خاتمہ امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج کا اجتماع بھکر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے نیتن یاہو کو نسل کشی کا عالمی مجرم قرار دے کر گرفتاری کا حکم دیا۔ اگر صدام حسین پر مقدمہ چل سکتا ہے تو نیتن یاہو پر کیوں نہیں؟۔ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جو اپنے بچوں کیلئے سوچتے ہیں قوم کے بچوں کے لئے بھی وہ سوچنا ہو گا۔فضل الرحمنٰ نے کہا ہمارے معاشرے میں امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچنا بھی نہیں ورنہ ہمارے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ علماء اور مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ قانون بن چکا ہے تو پھر مدارس کے اکاؤنٹس بن جانے چاہئیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
مدارس کو توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے، مولانا فضل الرحمن
بھکر میں جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطینی اپنا ملک چاہتے ہیں، اسلامی دنیا انتظار تو کرے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنا فلسطین کی نفی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہےکہ مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور مدارس کو توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ بھکر میں جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطینی اپنا ملک چاہتے ہیں، اسلامی دنیا انتظار تو کرے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنا فلسطین کی نفی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نیتن یاہو کو بلاتے ہیں اور ان کے ساتھ پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں جب کہ عالمی عدالت نے نیتن یاہو کو عالمی مجرم قرار دے کے گرفتاری کا حکم دیا ہے، اگر صدام حسین پر مقدمہ چل سکتا ہے تو نیتن یاہو پر کیوں نہیں؟ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ فتنوں کو روکنا صرف علمائے کرام کی نہیں امت کی ذمے داری ہے، 70 ہزار فلسطینی بچے اور خواتین، مرد اور بزرگ شہید ہو گئے، کہاں ہیں عالمی ادارے؟ کہاں ہیں اقوام متحدہ کی سفارشات؟ جب تک فلسطین کا ایک فریق حماس فیصلہ نہیں کریگا تو آپ کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے؟ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، مدارس کو توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے، ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں ہم مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، ہم جو اپنے بچوں کے لیے سوچتے ہیں قوم کے بچوں کے لیے بھی وہی سوچنا ہوگا۔