WE News:
2025-10-20@07:03:30 GMT

پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

یہ تو سب نے سن لیا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا۔ خواجہ آصف نے ملا یعقوب کو شکست فاش دی۔ قطر اور ترکیہ ضامن بنے۔ معاہدے کی شقوں پر عمل نہ ہونے کی صورت میں دونوں فریق سہ ماہی جائزہ لیں گے۔ یہ وعدہ کیا گیا کہ افغانستان سے اب دراندازی نہیں ہوگی، مہاجرین کے ساتھ بھی نرمی اختیار کی جائے گی۔

میڈیا کو بھی آگ بھڑکانے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اب تجارت کے راستے بھی کھل جائیں گے۔ اطراف کے عوام خوشحالی کا منہ دیکھیں گے۔ جنگ و جدل بند ہوگا اور دہشتگردی کو شکست دی جائے گی۔

معاہدے کی سب شقیں خوش آئند ہیں، لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ یہ معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟ یا یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہوگی؟ امن کی کیفیت کی ضمانت کب تک ہے؟ بم دھماکوں اور دہشتگردی کے واقعات میں وقفہ کب تک رہے گا؟ امن کی خواہش ایک ارفع خواہش ہے مگر کیا اس خواہش پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟ کیا افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگی صورتِ حال کو بدلا جا سکتا ہے؟ کیا دہشتگردی کے تاجروں کو کوئی اور روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنگ کے گرد گھومتے افغانوں کا طرزِ زندگی اور طرزِ معاش تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان نے تقریباً 45 برس افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھایا۔ بے سر و سامان حال میں آنے والے ان مہاجرین کو اپنی مملکت میں سر چھپانے کی جگہ دی گئی۔ روس کے استبداد سے بچ کر یہاں آنے والے ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے یہ ایک جواب تھا۔

ایران میں بھی مہاجرین گئے مگر وہاں انہیں شہروں میں داخلے کی ممانعت رہی۔ وہاں دور دراز ویرانوں میں کیمپ بنائے گئے اور پھر انہیں ان کیمپوں سے نکلنے نہیں دیا گیا۔ یہ مہاجرین آج بھی انہی کیمپوں میں رہتے ہیں مگر ایرانی طرزِ معاشرت، معیشت اور حکومت کا حصہ نہیں بن سکے۔

دوسری طرف پاکستان نے اپنے سارے دروازے افغان مہاجرین کے لیے کھول دیے۔ انہیں اپنے گھروں میں جگہ دی گئی۔ انہیں جائیداد خریدنے کی اجازت ملی۔ انہیں کاروباروں میں سہولت فراہم کی گئی۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کے بہت سے علاقے ان کے ’زیرِقبضہ‘ رہے۔ ان علاقوں سے گزریں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کابل کے کسی بازار سے گزر رہے ہیں۔ ان کے رشتے ہمارے ساتھ بن گئے۔ ان کی نسلیں یہاں جوان ہوئیں، اور ان کے بچوں نے یہاں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔

45 برس بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں 2 نسلیں آگے بڑھ جاتی ہیں۔ بچہ پیدا ہو کر جوان اور درمیانی عمر کو پہنچ جاتا ہے، اور ایک اور نسل پیدا ہو کر جوان ہو چکی ہوتی ہے۔

اتنے برس کوئی جانور بھی ساتھ رہے تو مکمل وفادار بن جاتا ہے؛ کوئی اپنے محسنوں سے دغا نہیں کرتا۔ اتنے برس میں کمائے گئے احسانات کو ہلکا نہیں سمجھا جاتا۔ جس ملک میں 45 سال گزارے ہوں، اس ملک سے دغا نہیں کرنا چاہیے؛ وہاں کے احسانات اور وہاں کی حرمت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے تمام تر احسانات کے باوجود بعض طالبانوں نے ہم سے وفا نہیں کی۔ جہاں جہاں موقع ملا، اس دھرتی کو نقصان پہنچایا گیا۔ کبھی بم دھماکے کیے گئے، کبھی اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے، کبھی دہشتگردی میں ان کا نام سامنے آیا۔ کبھی جعفر ایکسپریس واقعے سے ان کے رابطے نکلے، کبھی اسکولوں پر حملوں میں ان کے نام آئے۔ تخریب کاری کے کئی واقعات ان کے نام ہوئے۔ ہماری مساجد اور مدرسوں میں بم نصب کیے گئے؛ ہمارے گھروں کو جلایا گیا۔

اس لیے اس معاہدے پر شک کی وجہ واضح ہے۔ وہ لوگ جو ہمارے احسانات کو بھول گئے، انہوں نے ہمارے بچوں کا قتل کیا، انہوں نے مساجد کو میدانِ کارزار بنایا، انہوں نے ہمارے بازاروں میں خوف پھیلایا اور ان کے ذریعے سرحد پار سے دہشتگرد آتے رہے۔ یہ سب وہی لوگ ہیں جنہیں ہمارا ممنون احسان ہونا چاہیے تھا، انہیں ہمارے ساتھ وفاداری دکھانی چاہیے تھی۔لیکن انہوں نے احسان فراموشی ہے کا مظاہرہ کیا بلکہ اگر اسے زیادہ سخت نہ سمجھا جائے تو  یہ نمک حرامی ہے۔

اس معاہدے کی ایک وجہ ہماری جوابی کارروائیاں بھی ہیں۔ پہلی بار ہم نے صرف مذمت نہیں کی بلکہ بدلہ بھی لیا۔ ہمیں سبق سکھایا گیا۔ دہائیوں سے پھیلی بے بسی کو پسِ پشت رکھا گیا اور سرحد پار بھی یہ پیغام دیا گیا کہ ہم دوستوں سے محبت کرتے ہیں مگر جو دوست کے روپ میں دشمن بنے، انہیں بھی پہچانتے ہیں۔ پہلی بار ہمارا ردِ عمل اتنا شدید تھا کہ مذاکراتی میز کے سوا افغانوں کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا۔ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا کچھ اور ممکن نہ تھا۔

موجودہ پاک افغان کشیدگی میں پہلی بار یہ بات واضح ہوئی کہ ہارڈ سٹیٹ کیا ہوتی ہے اور اس کی ضرورت کس بنا پر پیش آچکی ہے۔

ہارڈ سٹیٹ سے مراد یہ ہے کہ اگر ہمارے خلاف افغانستان سے دہشتگردی کے حملے ہوں تو ہم صرف تعزیت نہیں کریں گے، صرف ورثاء کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی نہیں کریں گے، بلکہ اس کا بدلہ بھی لیں گے اور آخری حد تک لینے کے حق میں ہوں گے۔ ہم نے صرف تعزیتیں نہیں کرنی بلکہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک بھی پہنچانا ہے۔ ہم نے صرف مرنے والوں کے لیے دعائیں نہیں کرنی بلکہ زندہ بچ جانے والوں کی سلامتی کے لیے اقدام بھی کرنا ہے۔

بات اب صرف افغان سرحد تک محدود نہیں ہارڈ سٹیٹ نے ہر اس فرد اور ادارے کو قانون کے دائرے میں لانا ہے جو ان مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق میڈیا سے ہو، کاروباری شخصیات سے ہو، کوئی مذہبی انتہا پسند جماعت ہو، صوبائی حکومت ہو، یا سوشل میڈیا پر ملک کے خلاف صفحات چلانے والے افراد ہوں۔ اب ہارڈ سٹیٹ کسی نرمی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اور یہ فیصلہ ہر قسم کی سیاست، مفاہمت اور مصلحت سے بالاتر ہے۔ یہی بات حتمی اور اٹل ہے، اور اسی پر ہمارا محفوظ مستقبل منحصر ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ہارڈ سٹیٹ انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

غزہ کو فوری بحالی اور امن کی ضرورت ، ترکیہ دیرپا حل کیلیے کوشاں ہے، رجب طیب اردگان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ غزہ کو فوری طور پر بحالی اور شفا کی ضرورت ہے، ترکی یہ یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان موجودہ معاہدہ دیرپا امن کی بنیاد بنے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق استنبول میں پانچویں ترکی اورافریقہ بزنس اینڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوان نے کہا کہ اسرائیل کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہمیں محتاط رہنا ہوگا کیونکہ غزہ کو فوری طور پر بحالی اور تعمیرِ نو کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکیہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے متحرک کردار ادا کر رہا ہے اور موجودہ معاہدے کو ایک دیرپا سیاسی حل کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ غزہ کے عوام کو دوبارہ ایک پرامن زندگی میسر آ سکے۔

اردوان نے اپنے خطاب میں سوڈان کی جاری خانہ جنگی کا بھی ذکرکرتے ہوئے  کہا کہ ترکیہ کو وہاں ہونے والی جھڑپوں اور انسانی المیے پر گہری تشویش ہے، ہم سوڈان میں فائر بندی اور پائیدار امن کے قیام کی امید رکھتے ہیں، کیونکہ وہاں خونریزی کا خاتمہ انسانیت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

انہوں نے مغربی دنیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے مغرب افریقہ میں خانہ جنگیوں اور تنازعات کو براعظم کی تقدیر سمجھ بیٹھا ہے، حالانکہ وہاں کے عوام امن، استحکام اور ترقی کے خواہاں ہیں۔

ترک صدر نے زور دیا کہ دنیا کو غزہ اور سوڈان دونوں کے انسانی بحرانوں پر فوری توجہ دینی چاہیے اور عالمی طاقتوں کو انصاف، ہمدردی اور انسانی بنیادوں پر فیصلے کرنے چاہییں تاکہ ان خطوں میں حقیقی امن قائم ہو سکے۔

خیال رہے کہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ’اسرائیل ہمارے کنٹرول میں نہیں رہا‘ دوحہ حملے کے بعد ٹرمپ کی شدید برہمی کا انکشاف
  •  طالبان حکومت سے 13 لوگ عراق کے ذریعہ بھارت سے متواتر کیش وصو ل کر رہے ہیں، حنیف عباسی کا دعویٰ
  • ملک کیخلاف سازش کبھی معاف نہیں کی جائے گی: گورنر پنجاب
  • اگر کوئی ہمارے اوپر حملہ کرے گا تو اس کا ادھار نہیں رکھیں گے، رانا ثنا اللّٰہ
  • اسلام کی غلط تشریح کرنے والے مٹھی بھر گمراہ دہشت گردوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے: فیلڈ مارشل
  • افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟
  • ملک میں سب کچھ عاصم لاءکےتحت ہو رہا ہے،عمران خان
  • غزہ کو فوری بحالی اور امن کی ضرورت ، ترکیہ دیرپا حل کیلیے کوشاں ہے، رجب طیب اردگان
  • تاریخ سے ثابت ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹرز کا صرف بندوق کے زور پر ہر چیز کا حل نکالنے کا فارمولہ کبھی دیرپا اور کامیاب ثابت نہیں ہوا