فیصل مسجد میں نامناسب ویڈیوز پر پابندی کی درخواست، پولیس اور دیگر کو نوٹسز جاری
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
اسلام آباد: فیصل مسجد میں نامناسب ویڈیوز بنانے پر پابندی کی درخواست پر عدالت نے پولیس اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصل مسجد میں نامناسب لباس پہن کر ویڈیوز بنانے اور موسیقی کے ساتھ رقص کی سرگرمیوں پر پابندی کی درخواست پر سرکاری اداروں اور افسران کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے، وزارت مذہبی امور، صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، آئی جی اسلام آباد پولیس اور مسجد کے انچارج کو نوٹس بھیج کر آئندہ سماعت تک جواب طلب کر لیا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر کے روبرو شہری مشرف زین کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فیصل مسجد کے احاطے میں گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے عوامی جذبات کو مجروح کیا ہے۔
درخواست کے مطابق متعدد افراد نیم عریاں یا غیر شائستہ لباس میں مسجد کے احاطے میں داخل ہوکر رقص، موسیقی اور تفریحی ویڈیوز بناتے ہیں، جنہیں بعد ازاں مختلف پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل سے مسجد کی حرمت اور تقدس بری طرح متاثر ہو رہا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت مذہبی آزادی اور احترامِ عبادت گاہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ مسجد کے انچارج، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے اور وزیر مذہبی امور کو اس معاملے پر تحریری شکایات ارسال کی جا چکی ہیں، تاہم کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اسی طرح صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور آئی جی اسلام آباد کو بھی صورتحال سے آگاہ کیا گیا مگر کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم اس معاملے میں کس کو ہدایت جاری کریں؟ جس پر وکیلِ درخواست گزار نے کہا کہ تمام متعلقہ ادارے فریق بنائے گئے ہیں تاکہ اجتماعی طور پر ضابطہ اخلاق نافذ کیا جا سکے۔
درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ مسجد میں کسی بھی شخص کو فحش، نامناسب یا غیر اسلامی لباس میں داخلے سے روکا جائے اور مسجد کے احاطے میں رقص یا موسیقی کے ساتھ ویڈیوز بنانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: اسلام آباد فیصل مسجد عدالت نے مسجد کے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کی این سی سی آئی اے افسر کی بازیابی کیلیے پولیس کو 3 دن کی مہلت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے این سی سی آئی اے (نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کے اغوا سے متعلق درخواست پر پولیس کو 3 دن کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ مغوی افسر کو ہر صورت بازیاب کرایا جائے ورنہ سینٹرل ڈائریکٹر این سی سی آئی اے اور آئی جی اسلام آباد خود عدالت میں پیش ہوں۔
کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اعظم خان نے کی جبکہ درخواست گزار کی جانب سے وکیل راجا رضوان عباسی ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔ دورانِ سماعت مغوی افسر کی اہلیہ روزینہ عثمان کے بھی لاپتا ہونے کا انکشاف ہوا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنر اہلیہ نے انہیں فون پر بتایا تھا کہ ان پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور اب ان کا فون بند ہے، جس سے خدشہ ہے کہ وہ بھی اغوا ہو چکی ہیں۔ محمد عثمان اہم کیسز پر کام کر رہے تھے جنہیں چند روز قبل ایک وائٹ کرولا گاڑی میں نامعلوم افراد نے اغوا کیا، جس کی نمبر پلیٹ جعلی نکلی۔
جسٹس محمد اعظم خان نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ اگر گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی تھی تو وہ اسلام آباد میں بغیر روک ٹوک کیسے چل رہی تھی؟ انہوں نے کہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے، شہر میں ہر جگہ ناکے اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، پھر بھی اگر کوئی شخص سرِ عام اٹھا لیا جائے تو یہ تشویشناک بات ہے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ کم از کم 7 دن کی مہلت دی جائے، تاہم عدالت نے 3 دن سے زیادہ کی مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر مغوی افسر بازیاب نہ کرایا گیا تو اعلیٰ افسران کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔
جسٹس اعظم خان نے مزید ہدایت دی کہ پٹیشنر کو دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی کالز کا سی ڈی آر ریکارڈ حاصل کیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ ان کے پیچھے کون لوگ ہیں۔
اس موقع پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ واقعے کا مقدمہ تھانہ شمس کالونی میں درج کر لیا گیا ہے اور پولیس تفتیش میں مصروف ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، اگر عدالتوں کی دہلیز پر آنے والے لوگ بھی لاپتا ہونے لگیں تو قانون پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔