افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کا گٹھ جوڑ بے نقاب، گرفتار خودکش بمبار کے ہوشربا انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
کم عمر افغان نوجوانوں کو دہشتگردی کیلئے استعمال کر رہے ہیں، ہم 40 لوگ خوست میں اکٹھے ہوئے
مدرسے میں موجود کچھ لوگوں نے مجھے کہا پاکستانی فوج کیخلاف جہاد جائز ہے،گرفتار نعمت اللہ کا بیان
افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیا ہے گرفتار خودکش بمبار نے ہوش ربا انکشافات کیے ہیں۔گرفتار خودکش بمبار نے ہوشربا انکشافات کر کے افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کا گٹھ جوڑ بے نقاب کر دیا ہے اور ثابت ہوا ہے کہ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کم عمر افغان نوجوانوں کو دہشتگردی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔دہشتگردی کے حوالے سے ہوشربا انکشافات کرنے والا خودکش بمبار نعمت اللہ جس کو جنوبی وزیرستان میں ایف سی ساؤتھ نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا، وہ افغان صوبے قندھار کا رہائشی ہے۔ اس نے اعترافی بیان میں یہ ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔گرفتار خودکش بمبار نعمت اللہ جو قندھار جوہریہ مدرسے میں حفظ قرآن کا طالبعلم ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ مدرسے میں موجود کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ پاکستانی فوج کیخلاف جہاد جائز ہے۔خودکش بمبار نے بتایا کہ ہم 40 لوگ خوست میں اکٹھے ہوئے اور براستہ چیوار پاکستان میں داخل ہوئے۔ لالیژے کے علاقے بروند جنوبی وزیرستان گئے، جہاں طالبان کا مرکز تھا۔ وہاں ہمارا کمانڈرعمر حماس تھا، جو خودکش حملوں کی تربیت دیتا تھا۔نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ خودکش حملے کی تربیت تین ماہ تھی، لیکن اس نے ایک ہفتہ کی تربیت لی۔ اس تربیت میں ہمیں سکھایا گیا کہ گاڑی پر خود کش حملہ کیسے کرنا ہے؟ یہ بھی تربیت دی گئی کہ چیک پوسٹ اور فوج پر کیسے خود کش حملہ کرنا ہے۔خودکش بمبار نے بتایا کہ ہمارے گروپ میں 20 نوجوان تھے، جن کی عمریں 18 سے 22 سال کے درمیان تھیں۔گرفتار نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ اس نے تربیت کے دوران وہاں اذان کی آواز سنی، مجھے احساس ہوا کہ پاکستانی فوج بھی مسلمان ہے اور اس پر خودکش حملہ کرنا حرام ہے۔گرفتار خود کش بمبار کے انکشافات ثبوت ہیں کہ افغان طالبان کم عمر نوجوانوں کی ذہن سازی کر رہے ہیں اور مذہبی ذہن سازی کے ذریعہ کم عمر نوجوانوں کو افواج پاکستان کیخلاف دہشتگرد سرگرمیوں پر اکسایا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: افغان طالبان اور فتنہ الخوارج گرفتار خودکش بمبار ہوشربا انکشافات نعمت اللہ
پڑھیں:
پاکستانی کارروائی ’افغان کرکٹرز کی ہلاکت کا ڈراما‘ بے نقاب، ماہرین نے اہم سوالات اٹھا دیے
پاکستان کے جانب سے افغانستان کے علاقے پکتیکا میں دہشتگردوں کیخلاف کی جانے والی کامیاب کارروائی کو چھپانے کے لیے افغان عبوری حکومت کی جانب سے پاکستانی حملے میں افغان کرکٹرز کی جھوٹی کہانی کا پردہ فاش ہو گیا۔
کرکٹ کا کوئی ریکارڈ یا اسٹیڈیم موجود نہیں
صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر واقعی یہ افراد ’کھلاڑی‘ تھے تو پھر وہ ایک ایسی ممنوعہ تنظیم کے زیر قبضہ علاقے میں، گولہ بارود کے ذخائر کے درمیان کیوں مقیم تھے؟
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں نہ کوئی کرکٹ اسٹیڈیم تھا، نہ کلب، اور نہ ہی افغان کرکٹ بورڈ کے ریکارڈ میں ان علاقوں کے 100کلومیٹر کے اندر کسی میچ کا ذکر موجود ہے۔
پرانی چال، دہشت گردوں کو شہری ظاہر کرنا
یہ غلط بیانی کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ وہی پرانا پروپیگنڈا طریقہ کار اپنایا گیا جو پاکستان کی درست کارروائیوں کے بعد بارہا دہرایا جاتا ہے۔
اس طریقے کے تحت مارے گئے دہشتگردوں کو عام شہری ظاہر کیا جاتا ہے، پرانے یا غیر متعلقہ طلبہ یا کھلاڑیوں کی تصاویر پھیلائی جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر جذباتی ہیش ٹیگز کے ذریعے ہمدردی پیدا کی جاتی ہے، اور طالبان نواز میڈیا چینلز و بھارتی ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردوں کے اڈوں کو انسانی المیے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
حقیقت، حافظ گل بہادر گروپ کی حفاظت کی کوشش
درحقیقت اس منظم مہم کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما ہے، حافظ گل بہادر نیٹ ورک اور اس کے طالبان سرپرستوں کو ذمہ داری سے بچانا۔ پاکستان کی کارروائی کے حقائق بالکل واضح ہیں۔
خوست اور پکتیکا میں نشانہ بنائے گئے ٹھکانے ٹی ٹی پی سے وابستہ حافظ گل بہادر گروپ کے تھے، کسی کرکٹ ٹیم کے نہیں۔ افغان حکام کے ’کرکٹرز ہلاک‘ کے دعوے بے بنیاد ہیں کیونکہ ان علاقوں میں نہ کوئی میچ ہوا، نہ ہی افغان کرکٹ بورڈ کے پاس کسی سرگرمی کا ریکارڈ موجود ہے۔ طالبان کیمپوں میں اسلحے کے ذخائر کے درمیان موجود افراد کرکٹر نہیں بلکہ تربیت یافتہ جنگجو تھے۔
قانونی انسدادِ دہشتگردی کارروائی
یہ ایک قانونی انسدادِ دہشتگردی کارروائی تھی جس کا ہدف وہی ٹی ٹی پی سے وابستہ عسکریت پسند تھے جنہوں نے شمالی وزیرستان میں خودکش حملہ کیا تھا۔
ان مارے گئے دہشتگردوں کو ’کھلاڑی‘ کہنا طالبان کی دانستہ کوشش ہے تاکہ اپنے پراکسی عناصر کے نقصان کو چھپایا جا سکے اور پاکستان کے دفاعی اقدام کو مسخ کیا جا سکے۔
پروپیگنڈا مہم کا انکشاف
جس نام نہاد ’کرکٹ کیمپ‘ کی بات کی گئی، وہ دراصل خوست اور پکتیکا کا وہی جنگجو گزرگاہ علاقہ تھا جو طویل عرصے سے حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، کوئی کھیل کا میدان نہیں۔ پروپیگنڈا مہم طالبان کے میڈیا سیل اور بھارتی نیٹ ورکس کے ذریعے چلائی گئی تاکہ مارے گئے دہشت گردوں کو بے گناہ کھلاڑیوں کے طور پر پیش کیا جا سکے، جو ایک کلاسیکی غلط معلوماتی حربہ ہے۔
پرانی تصاویر، جھوٹا بیانیہ بے نقاب
افغان اکاؤنٹس کی جانب سے شیئر کی جانے والی تمام تصاویر پرانی یا غیر متعلقہ ثابت ہوئیں، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ ’کرکٹرز‘ والی کہانی محض ایک ڈیجیٹل فریب تھی جو دہشتگردوں کی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے گھڑی گئی۔
طالبان کی جانب سے حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجوؤں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں ’کرکٹر‘ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب بھی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دے رہے ہیں۔
نتیجہ، طالبان اور بھارتی پروپیگنڈا کا گٹھ جوڑ بے نقاب
پاکستان کی درست کارروائی دہشت گردوں کے خلاف تھی، کھلاڑیوں کے خلاف نہیں۔ ’کرکٹرز‘ کا جھوٹا بیانیہ صرف اس بات کو مزید آشکار کرتا ہے کہ طالبان، ٹی ٹی پی اور بھارتی پروپیگنڈا نیٹ ورکس ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور مشترکہ طور پر غلط معلومات پھیلانے میں سرگرم ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں