امریکا میں قیمتی نباتاتی عرق چوسنے والے عجیب کیڑے کی نئی نسل دریافت
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں قیمتی نباتاتی عرق چوسنے والے عجیب اور خطرناک کیڑے کی نئی نسل دریافت ہوئی ہے، جسے دیکھ کر سب پریشان ہیں۔
امریکی ریاست ایریزونا میں ماہرینِ زراعت کو اُس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب سرحدی علاقے میں ایک کیڑے کی ایسی نئی قسم دریافت ہوئی جو اس سے پہلے امریکا میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
اس خطرناک کیڑے کو لیف ہاپر کی ایک نئی نوع قرار دیا گیا ہے جسے سائنسی طور پر Osbornellus sallus کہا جا رہا ہے۔ دریافت کا یہ انوکھا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب امریکی کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے اہلکار میکسیکو سے آنے والی سبزی ریڈیچیو کی شپمنٹ کی جانچ کر رہے تھے اور معمول کی تلاشی کے دوران جب انہیں یہ غیر معمولی کیڑا نظر آیا تو فوری طور پر ماہرینِ نباتات کو مطلع کیا گیا۔
ابتدائی تحقیق سے پتا چلا کہ یہ کیڑا گھاس، درختوں اور جھاڑیوں سے قیمتی نباتاتی عرق چوستا ہے جو پودوں کی نشوونما کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ لیف ہاپر کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کے ذریعے پودوں کی مختلف بیماریوں اور وائرسز کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس نئی قسم پر فوری قابو نہ پایا گیا تو یہ امریکا کی مقامی فصلوں اور زرعی نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
زرعی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ کیڑا فصلوں کے عرق چوس کر نہ صرف ان کی افزائش کو متاثر کرتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں پورے کھیتوں کو بیماری میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ نوع دیگر امریکی ریاستوں میں پھیل نہ جائے، کیونکہ ایک بار ایسے کیڑے مقامی ماحول میں ڈھل جائیں تو ان کا خاتمہ انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
حکام نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ اپنے کھیتوں یا باغات میں کوئی نیا یا غیر معمولی کیڑا دیکھیں تو فوراً متعلقہ زرعی محکمے کو اطلاع دیں تاکہ بروقت کارروائی ممکن ہو سکے۔ اسی طرح عوام کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ سبزیاں یا دیگر نباتاتی اجناس خریدتے وقت ان کے قرنطینہ اسٹیکرز یا سرٹیفیکیٹس ضرور چیک کریں۔
ریاستی اور وفاقی زرعی محکموں نے اس دریافت کے بعد ہنگامی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ مستقبل میں اس نوع کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بی ایچ وائی اسپتال کیجانب سے بریسٹ کینسر سے آگاہی کیلیے سیمینار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251021-02-14
کراچی (اسٹاف رپورٹر) بی ایچ وائی اسپتال کی جانب سے پنک ربن مہم کے تحت خواتین کیلیے چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) سے آگاہی کیلیے سیمینار منعقد کیا گیا جس میں بی ایچ وائی اسپتال کے کنسلٹنٹس سمیت مختلف اسپتالوں کے ماہرین نے شرکت کی۔ پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس ایونٹ کا انتظا می عملہ صرف خواتین پر ہی مشتمل تھا۔ اسی خصوصیت کی بنا پر نہ صرف اہل علاقہ بلکہ دور دراز کے مختلف علاقوں سے خواتین نے شرکت کی۔ کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر زہ گل، کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر مالا شاہانی، کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر ثمینہ قاضی، کنسلٹنٹ جنرل سرجن ڈاکٹر تنزہ عرفان، کنسلٹنٹ جنرل سرجن ڈاکٹر کائنات ظفر، کنسلٹنٹ پیڈیاٹریشن ڈاکٹر صدف زہرہ، کنسلٹنٹ سونولوجسٹ ڈاکٹر نجمہ میمن، فیملی فزیشن ڈاکٹر فوزیہ مسعود شامل تھیں۔ ماہرین نے کہا کہ چھاتی کا سرطان دنیا بھر میں خواتین میں سب سے زیادہ پایا جانے والا مرض ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں اس کی شرح بھارت سمیت دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، پاکستان میں عام طور پر 40 سے 50 سال کی خواتین میں یہ مرض سامنے آتا ہے، جبکہ 20 سے 30 سال کی عمر کی خواتین میں اس کی شرح تقریباً 7 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھاتی کے سرطان کے 4 مراحل ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں چھوٹی سی گٹھلی بنتی ہے، دوسرے میں وہ بڑھنے لگتی ہے، تیسرے مرحلے میں بغل کے غدود متاثر ہوتے ہیں، جبکہ چوتھے مرحلے میں بیماری جسم کے دیگر حصوں تک پھیل جاتی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے صرف 10 فیصد خواتین میں یہ مرض ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہوتا ہے، جبکہ زیادہ تر خواتین تاخیر سے علاج کیلیے آتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قریبی رشتہ داروں میں شادی اس مرض کے امکانات میں اضافہ کرتی ہے جبکہ پہلا بچہ 30 سال سے پہلے پیدا کرنے والی خواتین میں خطرہ نسبتاً کم ہوتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ میموگرام کے ذریعے چھاتی کے سرطان کی تشخیص مرض ہونے سے 2 سال پہلے تک ممکن ہے، اس لیے خواتین کو چاہیے کہ ہر 2 سال بعد میموگرام ضرور کروائیں۔ انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ ماہواری ختم ہونے کے بعد اپنی چھاتی کا خود معائنہ ضرور کریں اور کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کی صورت میں فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ انہوں نے خواتین کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ خوف نہیں، ہمت کریں، کیونکہ سرطان کا علاج ممکن ہے۔ اداسی اور ذہنی دباؤ بیماری کو بڑھا سکتے ہیں، اس لیے مثبت رویہ اختیار کریں۔ پروگرام میں شریک خواتین نے ماہرین سے سوالات کیے اور عملی طور پر چھاتی کی جانچ کے درست طریقے سیکھے۔ بی ایچ وائی اسپتال انتظامیہ کی جانب سے پروگرام میں شریک خواتین کیلیے مفت میموگرام اور الٹراسائونڈ پر خصوصی ڈسکائونٹ کے علاوہ ماہرین سے مفت چیک اپ کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی جس سے خواتین کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا اور انتظامیہ کے اس اقدام کو بھرپور سراہا۔ؤ