ذہنی نشوونمااور مثبت سوچ ،بچوں میں کامیابی کی بنیاد
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
بچوں میں 2 سے 7 سال کی عمر کو دماغی نشوونما کیلیے سب سے اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
آئن سٹائن جب بچہ تھا تو بہت کم لوگ یا شاید کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ سائنس میں کتنی شاندار خدمات سرانجام دے گا۔ کیونکہ اُس کی زبان سیکھنے کی صلاحیت نسبتاً سست تھی، جس کی وجہ سے اُس کے والدین اس قدر فکرمند ہوئے کہ اُنہوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ آئن سٹائن کی بہن نے بعد میں بتایا کہ آئن سٹائن کو زبان سیکھنے میں اتنی دشواری تھی کہ لوگ پریشان تھے کہ شاید وہ کبھی بول ہی نہ سکے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ بچہ، جو ذہنی طور سیکھنے میں تاخیر کاشکارتھا، دُنیا کا سب سے بڑا سائنس دان کیسے بن گیا؟
اس سوال کا کچھ جواب اُن دو تحفوں میں پوشیدہ ہے جوآئن سٹائن کو اُس کے والدین نے پانچ سال کی عمر میں دیے۔ ایک دن جب وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑا تھا، اُس کے والد نے اُسے ایک قطب نما (Compass) دیا۔ یہ آئن سٹائن کے لیے ایک پُراسرار آلہ تھا، جس نے اُس کی سائنس میں دلچسپی کی شمع روشن کردی۔ کچھ ہی عرصے بعد اُس کی والدہ، جو ایک ماہر پیانو نواز تھیں، نے اُسے ایک وائلن دیا۔ یہ دونوں تحفے اُس کے دماغ کو بالکل مناسب وقت پر مختلف طریقوں سے متحرک کرنے والے ثابت ہوئے۔
معروف تعلیمی ویب سائٹ Edutopia پر اپنی ایک تحریر میں رِشی سری رام بتاتے ہیں کہ بچوں کے دماغ اہم ادوار (Critical Periods) میں نشوونما پاتے ہیں۔ پہلا دور تقریباً دو سال کی عمر میں آتا ہے، اور دوسرا بلوغت کے دوران۔ ان ادوار کے آغاز پر دماغی خلیوں (Neurons) کے درمیان روابط (Synapses) کی تعداد دُگنی ہو جاتی ہے۔ دو سال کے بچے کے دماغ میں بالغ انسان کے مقابلے میں دو گنا زیادہ Synapses ہوتے ہیں۔یہ وہ اہم مقام ہیں جہاں سیکھنے کا عمل ہوتا ہے، لہٰذا دگنے روابط کا مطلب ہے دگنا تیزی سے سیکھنا۔ اسی لیے اس دور کے تجربات بچے کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہ پہلا اہم دور تقریباً دو سال کی عمر سے شروع ہو کر سات سال تک جاری رہتا ہے۔ یہ وقت بچوں کی جامع (Holistic) تعلیم کی بنیاد رکھنے کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔اس دور سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے چار اہم طریقے یہ ہیں۔پہلا، بچوں میں سیکھنے کے لئے محبت پیدا کرنا، دوسرا بچوں میںچیزوں کے لئے گہرائی کے بجائے وسعت پر توجہ دینا،تیسراجذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) کو فروغ دینا اور چوتھا ابتدائی تعلیم کو صرف اصلی تعلیم کی تیاری نہ سمجھنا شامل ہیں۔
گہرائی نہیں، وسعت پر توجہ دیں:
اس عمر میں نتائج کے بجائے مختلف صلاحیتوں کی وسعت پر توجہ دینا زیادہ فائدہ مند ہے۔ بچوں کو مختلف سرگرمیوں سے روشناس کرانا اُن میں مختلف شعبوں کی مہارتوں کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ اُنہیں موسیقی، مطالعہ، کھیل، ریاضی، فنونِ لطیفہ، سائنس اور زبانوں سے متعارف کرایا جائے۔کھیل، فنونِ لطیفہ اور تعلقات جیسے بھرپور تجربات بچے کی نشوونما کو بنیادی طور پر تشکیل دیتے ہیں۔ آج کی تیزی سے بدلتی دُنیا میں وہی لوگ کامیاب ہیں جو مختلف میدانوں سے سیکھ کر تخلیقی اور وسیع سوچ رکھتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب بچوں کو مختلف صلاحیتوں سے روشناس کرایا جائے، تاکہ بعد میں وہ اپنی پسند کے میدان میں مہارت حاصل کر سکیں۔
جذباتی ذہانت کو نظرانداز نہ کریں:
یقیناً ہم چاہتے ہیں کہ بچے اچھی طرح پڑھیں اور ریاضی کے بنیادی اصول سیکھیں، مگر جذباتی ذہانت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سیکھنے کے اس اہم دور کے فوائد سماجی مہارتوں جیسے ہمدردی، نرمی، تعاون اور احساسِ شراکت تک پہنچنے چاہیں۔ڈینیئل سیگل اور ٹینا پین برائیسن اپنی کتاب The Whole-Brain Child میں لکھتے ہیں کہ بچوں میں ہمدردی پیدا کرنے کا آغاز احساسات کو تسلیم کرنے سے ہوتا ہے۔
بچوں کو اپنے جذبات کے نام لینا سکھائیں مثلاً’’میں اداس ہوں‘‘ اور پھر یہ بتائیں کہ وہ ایسا کیوں محسوس کر رہے ہیں (’’میں اداس ہوں کیونکہ میں نے آئس کریم مانگی اور آپ نے نہیں دی‘‘)۔ جب بچے اپنے جذبات بیان کرنا سیکھ جائیں تو اُن سے دوسروں کے احساسات کے بارے میں سوالات کریں تاکہ اُن میں ہمدردی پیدا ہو۔بچوں کو دوسروں کے لیے کام کرنے کے مواقع دینا بھی مفید ہے۔ مثال کے طور پر گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں شامل کرنا اُنہیں زیادہ ذمہ دار اور مددگار بناتا ہے۔
مندرجہ بالا نکات بچوں کی ذہنی نشوونما کو بہتر بنانے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ تاہم معاشرے کے پیش نظر چند مزید نکات قابل ذکر ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر بچوں کی ذہنی نشوونما اور اُن لاشعوری دماغ کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
والدین کی زندگی اور کردار جب بنے مثال:
والدین اور اساتذہ کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان کا کردار اور افکار بچوں کی ذہنیت اور شخصیت پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ بالخصوص والدین کا کردار بچوں کے لیے ایک عملی نمونہ ہوتا ہے۔ اگر والدین کامیاب، پُراعتماد اور مثبت سوچ رکھنے والے ہوں تو یہی خوبیاں عملی طور پر اُن کے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔سینٹ آگسٹین نے بہت خوبصورتی سے کہا ہے کہ ’’والدین کی زندگی وہ کتاب ہے جو بچے پڑھتے ہیں۔‘‘
سوچ کا آغاز ؛ مثبت الفاظ کا استعمال:
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ ’’الفاظ سے کیا ہوتا ہے؟‘‘درحقیقت، ہر چیز کا آغاز ہی الفاظ سے ہوتا ہے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کامیابی کی معراج کو پہنچیں تو لازم ہے کہ وہ اُن کی بڑی سوچ کا آغاز مثبت الفاظ کے ذریعے کریں۔والدین کی سوچ دراصل بچوں کی کامیابی کی اُس سیڑھی کی بنیاد ہے جس پر چڑھ کر وہ اپنی منزل پاتے ہیں۔اسی لیے جان گوئٹے نے کہا تھا۔’’دو چیزیں ہیں جو بچوں کو والدین سے حاصل کرنی چاہیں؛ ایک جڑ اور دوسری پرَ۔‘‘جڑیں اس لیے کہ وہ مضبوطی سے قائم رہ سکیں،اور پرَ اس لیے کہ وہ بلندیوں پر اُڑ سکیں۔
عملی اقدامات ؛ رجحانات کا انتخاب:
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے رجحانات اور شخصیت کو سمجھنے کے لیے عملی اقدامات کریں، تاکہ اُن کی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کے مطابق درست انتخاب کرنا آسان ہو سکے۔دو سے سات سال کی عمر کے بچے شاید دُنیا کے سب سے ذہین انسان ہوتے ہیں۔ اس عمر میں اُن کے دماغ معلومات کو غیر معمولی حد تک جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ذہانت کی تعریف سیکھنے کی صلاحیت ہے تو تحقیق کے مطابق کچھ مہارتیں اگر اس پہلے اہم دور میں نہ سیکھی جائیں، تو بعد میں اُسی سطح پر سیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔مثلاً زبان کی مہارت ، اس عمر کے بچے کسی دوسری زبان کو اسی روانی اور فطری انداز میں سیکھ سکتے ہیں جیسے اپنی مادری زبان۔ لیکن آٹھ سال کے بعد زبان سیکھنے کی صلاحیت بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح موسیقی کی مہارتیں، جیسے Perfect Pitch، بھی اسی عمر میں بہتر طور پر سیکھی جا سکتی ہیں۔یہی وہ وقت ہے جب بچوں میں ترقی پسند ذہن سازی (Growth Mindset) کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے ، یعنی یہ یقین کہ صلاحیتیں محنت، مشق اور مستقل کوشش سے پیدا کی جا سکتی ہیں، نہ کہ یہ پیدائشی طور پر طے شدہ ہوتی ہیں۔
ذہن سازی کا کردار بنیادی:
والدین اور ابتدائی تعلیم کے اساتذہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذہن سازی بچوں کی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ابتدائی تعلیمی سال بچوں کے ذہن کو مضبوط بنانے، ان کی شخصیت کو ڈھالنے اور نکھارنے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔بچوں میں سیکھنے کی جستجو، دلچسپی اور لگن کو پروان چڑھا کر اُن کی مثبت ذہن سازی کے ذریعے اُن کا کردار مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا جا سکتا ہے، اور انہی بنیادوں پر کامیابی کی پُرعظمت عمارت قائم ہوتی ہے۔ ماہر نفسیات اور جدید ریسرچ نے یہ واضح کیا ہے کہ 2سے7 سال کے بچوں میں آٹو میٹکٹ دماغ پروان چڑ ھتا ہے اس لئے یہ وقت بچوں میں نئی چیزیں سیکھنے، رویوں کا اپنانے اور عادات کو پختہ کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔جس کے بعد بچوں میں تنقیدی دماغ کام کرنا شروع کردیتا ہے۔اس لئے اس عمر سے پہلے تخلیقی صلاحیتوں کا اُجاگر کرنا اور مثبت سرگرمیوں کو متعارف کروانا لازمی ہے۔
روشن مثالیں؛ مثبت عادات ڈالیں:
بچوں میں مثبت عادتیں پیدا کرنے کے لیے صرف بتانے سے زیادہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ جن خوبیوں یا عادتوںکو وہ اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُن کی روشن اور عملی مثالیں اُن کے سامنے پیش کریں۔مثال کے طور پر، اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ کسی خاص شعبے میں دلچسپی لے یا کسی مخصوص کھیل سے وابستہ ہو، تو بہتر ہے کہ اُسے اس شعبے یا کھیل کے نمایاں کھلاڑی یا ماہر سے ملوائیں۔ اس طرح بچے کے اندر سیکھنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ عملی طور پر بیدار ہوتا ہے۔
نتائج اہم ؛ مگر کوشش کا مقام اعلیٰ:
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے نتائج کو اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ کوشش کو پسِ پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔اس عمر میں بچوں کو یہ سکھانا نہایت ضروری ہے کہ اگرچہ نتائج اہم ہوتے ہیں، مگر کوشش کا مقام اُن سے بھی کہیں بلند ہے۔کامیابی کی اصل بنیاد مسلسل محنت، لگن اور کوشش میں پوشیدہ ہے۔چھوٹے بچوں کو تنائج کی بجائے سیکھنے کے عمل سے لطف اندوز ہونا سکھائیں۔ والدین اور اساتذہ کو نئی سرگرمیوں کی جستجو اور کچھ نیا سیکھنے کی خوشی پر زور دینا چاہیے۔ بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ غلطی کرنا سیکھنے کا لازمی اور مثبت حصہ ہے۔
ناکامی اور ناکافی کا خوف:
والدین کو اس بات کی بھرپور یقین دہانی کرنی چاہیے کہ وہ بچوں کے دِل میں ناکامی یا کمی کے خوف کو ہرگز جگہ نہ دیں۔یہ خوف ایک ایسے وائرس کی طرح ہے جو بچوں کو زندگی بھر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے روکتا ہے۔آج والدین جو بچوں کو دیں گے وہی بچوں کل کو انہیں واپس دیں گے، چاہئے وہ خوف ہو یا اعتماد ۔جیسا کہ آرتھر ولسن نے خوب کہا ہے۔’’اپنے بچوں کو وقت پر وقت، توجہ اور اعتماد دیں۔ یہ وقت آنے پر اس کا آپ کو بہترین صلہ دیں گے۔‘‘
خود کلامی اور اندرونی جنگ:
بچوں میں مثبت خودکلامی کو فروغ دینے اور اندرونی کشمکش پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ اُنہیں مثبت انداز میں سوچنے اور خود سے حوصلہ افزاء گفتگو کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ عام طور پر سونے سے پہلے بچوں کے دماغ کی فریکوئنسی سیکھنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہوتی ہے، جبکہ صبح اُٹھتے وقت مثبت الفاظ کا استعمال اُن کے موڈ کو متحرک اور خوشگوار بناتا ہے۔بچے والدین کے الفاظ، اعمال، حرکات اور سکنات سے سیکھتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں براہِ راست سمجھانے کے بجائے تصویروں، کہانیوں اور مثالوں کے ذریعے بات پہنچانا زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بچوں کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے نہیں ہوتی کہ اُن کے والدین امیر یا خوبصورت نہیں، بلکہ اس سے ہوتی ہے کہ اُن کے والدین کا آپس کا رشتہ اور رویہ کیسا ہے۔
بچپن میں سیکھے اور اپنائے گئے غلط رویے اُنہیں بڑے ہو کر بھی آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔یہ قابلِ توجہ بات ہے کہ آئن سٹائن کے والدین نے اُسے فزکس نہیں پڑھائی ، وہی مضمون جس کی بدولت اُسے نوبیل انعام ملا۔ اُس کے والد نے اُسے اپنے انجینئرنگ کے کام میں شریک کیا، جبکہ والدہ نے موسیقی سے محبت دلانے کے لیے اُسے وائلن سکھایا۔ یہ سرگرمیاں اُس کے ذہن کو ہمہ جہت طور پر پروان چڑھانے کا ذریعہ بنیں۔لہٰذا یاد رکھیں ، ابتدائی تعلیم اور سال صرف اصل تعلیم کی تیاری نہیں، بلکہ حقیقت میں یہی سال بچے کی شخصیت، شعور اور ذہن سازی کی بنیاد رکھنے کے سب سے اہم اور فیصلہ کن سال ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ابتدائی تعلیم کامیابی کی ا ئن سٹائن سال کی عمر کی صلاحیت سیکھنے کی چاہتے ہیں سیکھنے کے کے والدین کی بنیاد کا کردار اور مثبت بچوں میں ہوتے ہیں چاہیے کہ سے زیادہ کا ا غاز کے لیے ا جاتی ہے بچوں کے ہوتا ہے بچوں کی اہم دور کے دماغ ہوتی ہے بچوں کو ہے کہ ا کے بچے ہیں کہ اس لیے ا نہیں
پڑھیں:
افواہوں کی تردید، پنجاب میں تیار گوشت پر پابندی کی خبر بے بنیاد قرار
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے سوشل میڈیا پر زیرِ گردش اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے کہ صوبے میں پہلے سے ذبح شدہ مرغی کے گوشت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سرخ گوشت اور چکنائی والی غذا حاملہ خواتین میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھا سکتی ہے: تحقیق
ترجمان فوڈ اتھارٹی کے مطابق ایسی کوئی ہدایت یا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا، یہ خبر بے بنیاد اور محض افواہ ہے۔
ترجمان نے وضاحت کی کہ صارفین اور گوشت فروخت کرنے والوں کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے پہلے ہی تفصیلی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں، جنہیں تمام میٹ شاپس پر آویزاں کرنا لازمی ہے۔
شہری مزید معلومات فوڈ اتھارٹی کی ویب سائٹ یا فیس بک پیج سے حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی سہولت اور صحت بخش خوراک کے فروغ کے لیے مرغی کو ممکنہ طور پر سامنے ذبح کروانے کی ترغیب دی جاتی ہے، تاہم تیار گوشت پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب اسکولوں کے تدریسی اوقات تبدیل، نئے شیڈول کا اطلاق
ترجمان نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ صرف آفیشل ذرائع سے جاری معلومات پر اعتماد کریں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا بنیادی مقصد معیاری، حلال اور صحت بخش خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، اور ادارہ ’فارم سے صارف تک‘ محفوظ خوراک کی فراہمی کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔
شہری خوراک سے متعلق شکایات یا تجاویز کے لیے ہیلپ لائن 1223 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب پنجاب فوڈ اتھارٹی چکن سوشل میڈیا افواہ مرغی کا گوشت