مردہ مرغیوں کے گوشت کی سپلائی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251022-03-2
کراچی کے مختلف فاسٹ فوڈ سینٹرز، ہوٹلوں اور بریانی سینٹرز میں مردہ مرغیوں کے گوشت کی سپلائی کا انکشاف ہوا ہے، گزشتہ روز گلبرگ پولیس نے فیڈرل بی ایریا کی موسیٰ کالونی میں کارروائی کرتے ہوئے مردہ مرغیوں کے گوشت کی سپلائی میں ملوث دو افراد کو گرفتار کرلیا۔ چھاپے کے دوران پولیس نے گودام سے تقریباً 80 کلو مردہ مرغیوں کا گوشت برآمد کیا، جس میں متعدد ثابت مردہ مرغیاں بھی شامل تھیں۔ پولیس نے بتایا کہ ملزمان مردار گوشت مبینہ طور پر شہر کے بعض فاسٹ فوڈ سینٹرز، بریانی سینٹرز اور ہوٹلوں کو فراہم کرتے تھے۔ مردار گوشت کی فروخت کب سے جاری تھی اور اس کہاں کہاں سپلائی کیا جا رہا تھا اس حوالے سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں اس نوع کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں جو کسی المیے سے کم نہیں۔ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں فوڈ اتھارٹیز کی موجودگی کے باوجود اس طرح کے غیر قانونی اور غیر صحت بخش گوشت کے استعمال کیے جانے اور انہیں سپلائی کرنے کے واقعات جہاں ایک جانب معاشرے میں ہوسِ زر کے بڑھتے ہوئے رجحان اور بے حسی کا آئینہ دار ہیں وہیں دوسری جانب یہ واقعات خود فوڈ اتھارٹیز کی کاکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں، اگر یہ فوڈ اتھارٹیز اپنے فرائض تندہی و چابکدستی سے ادا کر رہی ہوتیں اور انسانی جانوں سے کھیلنے والے عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جاتی تو آج صورت حال یہ نہ ہوتی۔ ابھی تین ماہ قبل ترنول کے ایک فارم ہائوس میں ایک ہزار کلو گدھے کا گوشت برآمد کیا گیا تھا۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کبھی گدھے کے گوشت کی فروخت کی اطلاع آتی ہے، کبھی کتے اور خنزیر کے۔ سوال یہ ہے کہ فورڈ اتھارٹیز جو فوڈ سیفٹی، حفظانِ صحت اور غیر قانونی گوشت کی سپلائی جیسے مسائل کو ریگولیٹ کرتی ہیں وہ کہاں ہیں؟ رونما ہونے والے ان واقعات کی بنیادی وجہ غیر رجسٹرڈ سپلائی چین، کرپشن، فوڈ سیفٹی کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کا نہ ہوگا، منافع خوری اور فوڈ اتھارٹی کی نااہلی اور ناکامی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں، مجرموں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے اور غیر قانونی سپلائی کو روکا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: گوشت کی سپلائی مردہ مرغیوں کے گوشت کی
پڑھیں:
دل دہلا دینے والے واقعات کی ایک جھلک
اسلام ٹائمز: شہداء کی لاشوں کی بازیابی کیلئے قومی مہم کا تخمینہ ہے کہ قبرستانوں میں دفن لاشوں کی تعداد 735 ہے، جن میں سے 99 فیصد کا تعلق غزہ سے ہے۔ اسکے برعکس صہیونی اخبار Haaretz کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے پاس حماس کے 1500 جنگجوؤں کی لاشیں موجود ہیں۔ یہ رپورٹ اسرائیلی حراستی مراکز میں جو کچھ ہو رہا ہے اور فلسطینی قیدیوں کیساتھ جو کچھ ہوا، اسکی تلخ حقیقت کا صرف ایک معمولی حصہ ہے۔ ہر واپس شدہ لاش ایک درد بھری داستان ہے، ہر زندہ بچ جانے والا فلسطینی قیدی ایک غمناک کہانی ہے اور ہر طبی دستاویز اس انسانی المیے کی گواہی ہے، جو عالمی برادری کی خاموشی میں جاری ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
صیہونی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے نتیجے میں تقریباً 1700 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ ان لاشوں نے اسرائیلی حراستی مراکز میں رونماء ہونے والے انسانی المیے سے پردہ اٹھایا ہے۔ فیلڈ شواہد، زندہ بچ جانے والوں کے انکشافات اور فرانزک دستاویزات پر مبنی رپورٹ میں منظم تشدد، ماورائے عدالت پھانسیوں اور بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزیوں کی خوفناک تصویر پیش کی گئی ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق صیہونی حکومت نے ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں تین مرحلوں میں 120 فلسطینیوں کی لاشیں واپس بھیجی گئیں۔ تاہم فلسطین کے محکمہ صحت کے کارکنوں کو لاشوں کو دیکھ کر انہیں لاشوں کی بے حرمتی اور بدسلوکی کے ناقابل بیان مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔
ریڈ کراس کی گاڑیاں جیسے ہی ناصر ہسپتال پہنچیں، ڈاکٹر اسرائیلی فوج کی طرف سے بھیجی گئی لاشوں کا معائنہ کرنے پہنچ گئے۔ فرانزک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد ظاہر پہلی لاش دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ابتدائی جانچ سے معلوم ہوا کہ لاش کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اس کے گلے میں رسی تھی اور ہاتھ رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ سینے میں اور پیٹ میں چھرا گھونپنے کا زخم بھی تھا۔ ڈاکٹر ظاہر نے کہا: "اسے پھانسی دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے لاش پر وحشیانہ تشدد کے نشانات دیکھے ہیں۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ لاش کے سوراخوں کو روئی سے بھرا گیا تھا اور اس کی آنکھ کا قرنیہ، گردہ اور جگر نکال دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ظاہر نے کہا: "یہ خوفناک جرائم ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا اور مجھے نہیں لگتا کہ میں دوبارہ کبھی ایسی ہولناک خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کروں گا۔"
غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البراش نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر کہا ہے: "سرکاری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مقتولین کو پھانسی سے پہلے ہی حراست میں رکھا گیا تھا۔ ہم نے غزہ پر پیش قدمی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے کیے گئے وحشیانہ جرائم کو دستاویزی شکل دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا "لاشوں پر موجود علامات بتاتی ہیں کہ متاثرین کو پھانسی سے پہلے حراست میں لیا گیا تھا۔ ہم نے تشدد اور بدسلوکی کے آثار دیکھے۔ یہ ایسے جرائم ہیں، جو جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ انہوں نے قرنیہ، گردے اور جگر جیسے اعضاء چرائے ہیں۔" البرش نے اس بات پر زور دیا کہ یہ جرائم چھپے نہیں رہ سکتے۔ ان لاشوں کو اسرائیلی سردخانوں میں مہینوں تک رکھا گیا اور دفنایا نہیں گیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی کونسل سے فوری تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ تل ابیب نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جس کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
لاشوں کی شناخت
غزہ میں صرف چار فرانزک ٹیمیں جنگ کے متاثرین کی تمام لاشوں اور وطن واپس بھیجی جانے والی لاشوں کا معائنہ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ان حالات میں ناموں کے بجائے واپس بھیجی جانے والی لاشوں پر نمبر لگا دیئے گئے ہیں۔ غزہ میں شناخت کے جدید آلات کی کمی نے کام کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ 120 لاشوں میں سے صرف چار کی شناخت اہل خانہ کی مدد سے ہوسکی ہے۔ شناختی کمیٹی کے ایک رکن سمیح حماد نے کہا کہ درجنوں لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ اسرائیل نے لاشیں بغیر شناخت کے حوالے کر دی ہیں، جبکہ غزہ کے ہسپتال جنگ سے تباہ ہوچکے ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے ذرائع نہیں ہیں۔ حماد نے مزید کہا کہ "اسرائیلی حکام کو ان لاشوں کی شناخت کا علم ہے، لیکن وہ لواحقین کے دکھ میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔"
شہداء کی لاشوں کی بازیابی کے لیے قومی مہم کا تخمینہ ہے کہ قبرستانوں میں دفن لاشوں کی تعداد 735 ہے، جن میں سے 99 فیصد کا تعلق غزہ سے ہے۔ اس کے برعکس صہیونی اخبار Haaretz کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے پاس حماس کے 1500 جنگجوؤں کی لاشیں موجود ہیں۔ یہ رپورٹ اسرائیلی حراستی مراکز میں جو کچھ ہو رہا ہے اور فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی تلخ حقیقت کا صرف ایک معمولی حصہ ہے۔ ہر واپس شدہ لاش ایک درد بھری داستان ہے، ہر زندہ بچ جانے والا فلسطینی قیدی ایک غمناک کہانی ہے اور ہر طبی دستاویز اس انسانی المیے کی گواہی ہے، جو عالمی برادری کی خاموشی میں جاری ہے۔