دل دہلا دینے والے واقعات کی ایک جھلک
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: شہداء کی لاشوں کی بازیابی کیلئے قومی مہم کا تخمینہ ہے کہ قبرستانوں میں دفن لاشوں کی تعداد 735 ہے، جن میں سے 99 فیصد کا تعلق غزہ سے ہے۔ اسکے برعکس صہیونی اخبار Haaretz کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے پاس حماس کے 1500 جنگجوؤں کی لاشیں موجود ہیں۔ یہ رپورٹ اسرائیلی حراستی مراکز میں جو کچھ ہو رہا ہے اور فلسطینی قیدیوں کیساتھ جو کچھ ہوا، اسکی تلخ حقیقت کا صرف ایک معمولی حصہ ہے۔ ہر واپس شدہ لاش ایک درد بھری داستان ہے، ہر زندہ بچ جانے والا فلسطینی قیدی ایک غمناک کہانی ہے اور ہر طبی دستاویز اس انسانی المیے کی گواہی ہے، جو عالمی برادری کی خاموشی میں جاری ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
صیہونی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے نتیجے میں تقریباً 1700 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ ان لاشوں نے اسرائیلی حراستی مراکز میں رونماء ہونے والے انسانی المیے سے پردہ اٹھایا ہے۔ فیلڈ شواہد، زندہ بچ جانے والوں کے انکشافات اور فرانزک دستاویزات پر مبنی رپورٹ میں منظم تشدد، ماورائے عدالت پھانسیوں اور بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزیوں کی خوفناک تصویر پیش کی گئی ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق صیہونی حکومت نے ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں تین مرحلوں میں 120 فلسطینیوں کی لاشیں واپس بھیجی گئیں۔ تاہم فلسطین کے محکمہ صحت کے کارکنوں کو لاشوں کو دیکھ کر انہیں لاشوں کی بے حرمتی اور بدسلوکی کے ناقابل بیان مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔
ریڈ کراس کی گاڑیاں جیسے ہی ناصر ہسپتال پہنچیں، ڈاکٹر اسرائیلی فوج کی طرف سے بھیجی گئی لاشوں کا معائنہ کرنے پہنچ گئے۔ فرانزک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد ظاہر پہلی لاش دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ابتدائی جانچ سے معلوم ہوا کہ لاش کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اس کے گلے میں رسی تھی اور ہاتھ رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ سینے میں اور پیٹ میں چھرا گھونپنے کا زخم بھی تھا۔ ڈاکٹر ظاہر نے کہا: "اسے پھانسی دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے لاش پر وحشیانہ تشدد کے نشانات دیکھے ہیں۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ لاش کے سوراخوں کو روئی سے بھرا گیا تھا اور اس کی آنکھ کا قرنیہ، گردہ اور جگر نکال دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ظاہر نے کہا: "یہ خوفناک جرائم ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا اور مجھے نہیں لگتا کہ میں دوبارہ کبھی ایسی ہولناک خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کروں گا۔"
غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البراش نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر کہا ہے: "سرکاری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مقتولین کو پھانسی سے پہلے ہی حراست میں رکھا گیا تھا۔ ہم نے غزہ پر پیش قدمی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے کیے گئے وحشیانہ جرائم کو دستاویزی شکل دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا "لاشوں پر موجود علامات بتاتی ہیں کہ متاثرین کو پھانسی سے پہلے حراست میں لیا گیا تھا۔ ہم نے تشدد اور بدسلوکی کے آثار دیکھے۔ یہ ایسے جرائم ہیں، جو جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ انہوں نے قرنیہ، گردے اور جگر جیسے اعضاء چرائے ہیں۔" البرش نے اس بات پر زور دیا کہ یہ جرائم چھپے نہیں رہ سکتے۔ ان لاشوں کو اسرائیلی سردخانوں میں مہینوں تک رکھا گیا اور دفنایا نہیں گیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی کونسل سے فوری تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ تل ابیب نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جس کی جدید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
لاشوں کی شناخت
غزہ میں صرف چار فرانزک ٹیمیں جنگ کے متاثرین کی تمام لاشوں اور وطن واپس بھیجی جانے والی لاشوں کا معائنہ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ان حالات میں ناموں کے بجائے واپس بھیجی جانے والی لاشوں پر نمبر لگا دیئے گئے ہیں۔ غزہ میں شناخت کے جدید آلات کی کمی نے کام کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ 120 لاشوں میں سے صرف چار کی شناخت اہل خانہ کی مدد سے ہوسکی ہے۔ شناختی کمیٹی کے ایک رکن سمیح حماد نے کہا کہ درجنوں لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ اسرائیل نے لاشیں بغیر شناخت کے حوالے کر دی ہیں، جبکہ غزہ کے ہسپتال جنگ سے تباہ ہوچکے ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے ذرائع نہیں ہیں۔ حماد نے مزید کہا کہ "اسرائیلی حکام کو ان لاشوں کی شناخت کا علم ہے، لیکن وہ لواحقین کے دکھ میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔"
شہداء کی لاشوں کی بازیابی کے لیے قومی مہم کا تخمینہ ہے کہ قبرستانوں میں دفن لاشوں کی تعداد 735 ہے، جن میں سے 99 فیصد کا تعلق غزہ سے ہے۔ اس کے برعکس صہیونی اخبار Haaretz کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے پاس حماس کے 1500 جنگجوؤں کی لاشیں موجود ہیں۔ یہ رپورٹ اسرائیلی حراستی مراکز میں جو کچھ ہو رہا ہے اور فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی تلخ حقیقت کا صرف ایک معمولی حصہ ہے۔ ہر واپس شدہ لاش ایک درد بھری داستان ہے، ہر زندہ بچ جانے والا فلسطینی قیدی ایک غمناک کہانی ہے اور ہر طبی دستاویز اس انسانی المیے کی گواہی ہے، جو عالمی برادری کی خاموشی میں جاری ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لاشوں کی کی لاشیں گیا تھا ہے اور جو کچھ
پڑھیں:
سانحہ نیپا پر جامع تحقیقات کیلیے کمیٹی بنا رہے ہیں‘ وزیر بلدیات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251203-01-6
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ نیپا چورنگی کے قریب مین ہول میں گر کر کر بچے کی ہلاکت کے واقعے پر جامع تحقیقات کے لیے کمیٹی بنارہے ہیں ، یہ بہت ہی دلخراش واقعہ ہے ،جو بھی غفلت میں ملوث ہوگا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے یہ یقین دہانی منگل کو سندھ اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کی۔ناصر حسین شاہ نے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی میں سندھ اسمبلی میں موجود تمام جماعتوںکے نمائندوں اور سینئر افسران کو شامل کیا جائے گا۔ سانحہ نیپا کی کچھ رپورٹس آئی ہیں جن سے ہم مطمئن نہیں ،آئندہ کسی ماں کا گود نہ اجڑے، مین ہول کے ڈھکن چوری ہونے سے متعلق ایک طریقہ بنارہے ہیں ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں مگر اس کا مستقل بنیادوں پر سدباب نہیں ہوا جس کی وجہ سے بار بار اس قسم کے دلخراش واقعات رونما ہوتے ہیں۔