سوشل میڈیا اور پاکستانی معاشرہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
اکیسویں صدی کا انسان اپنی جیب میں ایک ایسی دنیا لیے پھرتا ہے جسے ہم ’’سوشل میڈیا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دنیا روشنی بھی دیتی ہے اور سایہ بھی ڈالتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کے اثرات نہ صرف ثقافتی سطح پر محسوس کیے گئے ہیں بلکہ خاندانی نظام، مذہبی اقدار اور ریاستی ساکھ پر بھی براہِ راست اثر انداز ہورہے ہیں۔
خاندانی نظام کا بکھرتا ہوا نقشہ
پاکستانی معاشرہ ہمیشہ خاندان کے مضبوط رشتوں اور مشترکہ اقدار پر کھڑا رہا ہے۔ مگر اب منظرنامہ بدل رہا ہے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے افراد اپنی اپنی اسکرینوں میں گم ہیں۔ نوجوان نسل، جو کل تک والدین کی آنکھوں سے دنیا دیکھتی تھی، آج ’’فالورز‘‘ اور ’’لائیکس‘‘ کے پیمانے سے حقیقت کو پرکھ رہی ہے۔
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کے مختصر ویڈیوز نے وقت کی سنجیدگی کو مذاق بنادیا ہے۔ لمحاتی شہرت کے لالچ نے تعلیم، اخلاق اور سنجیدگی کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ یہ ایسا دکھاوا ہے جس میں حقیقت کا سایہ دھندلا جاتا ہے۔
مذہبی و اخلاقی اقدار کا زوال
یہ چمکتی اسکرینیں گھروں سے حیا اور شائستگی کی روشنی چرا رہی ہیں۔ وہ نوجوان جو کبھی اساتذہ اور بزرگوں سے رہنمائی لیتے تھے، اب انسٹاگرام انفلوئنسرز کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ مذہبی اصول اور اخلاقی قدریں تیزی سے زوال پذیر ہیں، اور فوری تفریح کا نشہ نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔
افواہوں کا ہتھیار اور ریاستی سلامتی
مئی 2025 کی جنگ نے یہ راز کھولا کہ سوشل میڈیا محض تفریح نہیں بلکہ بارود کا وہ ڈھیر ہے جس پر معاشرہ ہے۔ جھوٹی خبریں اور گمراہ کن ویڈیوز نے عوامی اضطراب کو بڑھایا اور دنیا میں پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایا۔ یہ دور وہ ہے جہاں بندوق سے زیادہ خطرناک چیز ’’کی بورڈ‘‘ ہے۔
ذہنی صحت کا اندھیرا
تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان کے 62 فیصد نوجوان سوشل میڈیا کے باعث ذہنی دباؤ، اضطراب اور احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ لائیکس اور کمنٹس کی وقتی خوشی جلد ختم ہوکر بوجھ میں بدل جاتی ہے۔ دوستیوں کی گہرائی کم ہوگئی ہے، اور تنہائی ایک مستقل ہمسفر بن چکی ہے۔ یہ ایسا جنگل ہے جہاں ہر درخت ہرا بھرا دکھائی دیتا ہے مگر جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں۔
عالمی منظرنامہ اور تقابلی جائزہ
یہ بحران عالمی ہے، اور مختلف ممالک نے اپنے اپنے انداز میں اس کا سامنا کیا ہے۔
عرب دنیا
سعودی عرب میں فحش اور مذہب سے متصادم مواد پر فوری پابندی لگائی جاتی ہے، خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
UAE کے سائبر کرائم قوانین ریاستی بیانیے اور اخلاقی سرحدوں کی سخت حفاظت کرتے ہیں۔
قطر و کویت نے بھی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو اولین ترجیح دی ہے۔
ان اقدامات نے سوشل میڈیا کو مکمل ختم نہیں کیا لیکن اسے اخلاقی حدود میں رکھنے میں کامیابی ضرور دی ہے۔
امریکا
امریکا نے سوشل میڈیا کو زیادہ تر آزادی دی ہوئی ہے، مگر وہاں جھوٹی خبروں، ڈیٹا پرائیویسی اور الیکشن میں مداخلت جیسے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ Meta اور X (Twitter) جیسی کمپنیوں کو بارہا کانگریس کے سامنے جواب دہ ہونا پڑا ہے۔ امریکا کا جھکاؤ اظہارِ رائے کی آزادی پر ہے، مگر یہی آزادی بے لگامی بھی پیدا کرتی ہے۔
برطانیہ
برطانیہ نے 2023 میں Online Safety Act نافذ کیا، جس کے تحت پلیٹ فارمز کو بچوں کو نقصان دہ مواد سے بچانے اور نفرت انگیز یا دہشت گردانہ مواد روکنے کا پابند بنایا گیا۔ یہ قانون مغربی دنیا کے سخت ترین قوانین میں شمار ہوتا ہے۔
یورپ
یورپی یونین نے Digital Services Act (DSA) اور General Data Protection Regulation (GDPR) نافذ کیے۔
DSA جھوٹی خبروں، نقصان دہ مواد اور پلیٹ فارمز کی شفافیت پر زور دیتا ہے۔
GDPR صارف کے ڈیٹا کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، جس سے پرائیویسی کی خلاف ورزی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔
پاکستان کےلیے عالمی ماڈلز سے سبق
پاکستان اگر عرب دنیا کی اخلاقی سرحدوں کے تحفظ کی سختی اور یورپ کی ڈیٹا پروٹیکشن و شفافیت کو ملا کر پالیسی اپنائے تو متوازن نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ نہ مکمل آزادی کارآمد ہے نہ مکمل پابندی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ:
تعلیمی ادارے نوجوانوں کی فکری تربیت کریں۔
ریاست واضح قوانین بنائے اور سختی سے نافذ کرے۔
خاندان اپنی نگرانی اور رشتوں کی حرارت دوبارہ زندہ کرے۔
سوشل میڈیا ایک ایسی آگ ہے جو چراغ بھی بن سکتی ہے اور الاؤ بھی۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم نے بروقت قدم نہ اٹھایا تو آنے والی تاریخ یہی لکھے گی کہ ’’ایک نسل نے اپنی جڑوں کو خود ہی کاٹ ڈالا تھا‘‘۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
ٹماٹر کی فی کلو قیمت 550 روپے تک جاپہنچی،سوشل میڈیا پر صارفین کا شدید رد عمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251021-05-6
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)کراچی میں مرغی کے گوشت کی قیمت کم اور ٹماٹر کی زیادہ ہوگئی ہے ،زندہ مرغی 320 روپے ،مرغی کا گوشت 500 روپے اور ٹماٹر 550 روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں، عوام حیران ہیں کہ مرغی میں ٹماٹر ڈالیں یا ٹماٹر میں مرغی، ٹماٹر کی قیمت میں ہوش روبا اضافے کے حوالے سے سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیاصارفین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں استحکام کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔سوشل میڈیا صارف اکرم بلوچ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ زندہ مرغی 320 روپے کلو اور ٹماٹر 550 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں، ہم عوام حیران ہیں کہ مرغی میں ٹماٹر ڈالیں یا ٹماٹر میں مرغی دالیں۔قاضی حسن جدون نے لکھا کہ عوام مہنگائی اور بے بسی کی دہری اذیت میں مبتلا ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔نصیب اللہ خان نے لکھا ہے کہ ٹماٹر کی قیمتیں 500روپے کلو سے بڑھ گئی ہیں آٹے اور گندم کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ کمشنر کراچی اور پرائس کنٹرول لسٹ جاری کرنے والے اور پرائس مانیٹرنگ کمیٹی جو روزمرہ ضروری اشیاخوردہ نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہے مگر یہ لوگ اپنے دفتر کے ٹھنڈے کمروں میں خوب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ عوام کے مسائل سے اتنی بے خبر حکومت شاید ہی کبھی ہم نے دیکھی ہے جبکہ دوسری جانب ٹماٹر کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کی وجہ سے کئی صارفین نے ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ ایک مہینہ ٹماٹر نہ خریدیں۔ کچھ چیزیں دہی سے بہت اچھی بن جاتی ہیں، اسی طرح ٹماٹو پیسٹ 530 روپے کا 800 گرام ملتا ہے، سالن میں ایک چمچ ڈال لیجیے مہینہ بھر چلے گا، تب تک ٹماٹر سستے ہو جائیں گے۔کراچی کے مختلف علاقوں میں ٹماٹر کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس کے باعث عام شہری شدید پریشانی اور مالی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔آٹا 150روپے، ٹماٹر 550 روپے، چینی 220 روپے، اور پکوان آئل 670 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے، مگر پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کہتی ہے کہ مہنگائی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔کراچی کے عام بازاروں میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت 500 سے 550 روپے تک پہنچ چکی ہے جس سے ٹماٹر عام شہریوں کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔قیمتوں میں اس اچانک اضافے نے عوام کو شدید متاثر کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی نے پہلے ہی زندگی دشوار بنا رکھی ہے، اور اب ٹماٹر جیسے بنیادی استعمال کی سبزی کا اس قدر مہنگا ہو جانا عام آدمی کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔