افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کے علاقے چترال سے آنے والے دریائے کُنڑ کے کابل میں دریا سے ملنے کے مقام پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے دریا واپس پاکستان آتا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق طالبان کی وزارت برائے پانی و توانائی نے بتایا ہے کہ اس منصوبے کا تخمینہ اور ڈیزائن تیار ہے بس فنڈنگ ملنے کا انتظار ہے جس کے بعد تعمیر کا آغاز ہوجائے گا۔طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ڈیم کی تعمیر میں تیزی لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار کرنے کے بجائے ملکی کمپنیوں سے استفادہ کریں۔یہ دریا پاکستان کے خوبصورت ترین علاقے چترال سے نکلتا ہے اور سیکڑوں کلو میٹر فاصلہ طے کرکے افغانستان پہن کر دریائے کابل سے مل جاتا ہے اور پھر واپس پاکستان آتا ہے۔افغان حکومت نے کابل میں اس ہی مقام پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں دریائے کنڑ ملتا ہے اور پھر واپسی پاکستان کے لیے راہ لیتا ہے۔ اس مقام پر ڈیم بنانے کا مطلب پانی کو افغانستان کے لیے ذخیرہ کرنا
ہے۔طالبان حکومت متعدد بار ارادہ ظاہر کرچکی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی ضرورت کے لیے پانی کو ذخیرہ کرنے کا حق رکھتی ہے اور اس کے
لیے جو ضروری اقدام اُٹھانے پڑیں، اُٹھائیں گے۔ابھی یہ واضح نہیں کہ طالبان حکومت نے ڈیم بنانے سے قبل پاکستان سے رجوع کیا تھا
نہیں اور یہ کہ کیا دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی معاہدہ موجود ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے اُصولی موقف رہا ہے کہ
دریائے کنڑ سمیت تمام آبی وسائل سے متعلق عالمی قوانین کی پاسداری کرتے رہیں گے۔
کابل دریا بیسن اب خطے کے آبی سیاست کے ایک نئے محاذ کے طور پر اُبھرا ہے ایک ایسا شطرنجی میدان جہاں افغانستان کے آبی ڈھانچے میں بھارت کیبڑھتی ہوئی مداخلت نہ صرف پاکستان کے آبی تحفظ کے لیے خطرہ بن گئی ہے بلکہ علاقائی امن کے نازک توازن کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔ افغانستان کے ساتھ ترقیاتی تعاون کے پردے کے پیچھے دراصل پانی کو ایک اسٹریٹجک ہتھیارمیں بدلنے کی بھارت کی منظم کوشش چھپی ہوئی ہے یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس کا مقصدخطے کی آبی حقیقتوں کو بھارت کے سیاسی و تزویراتی مفادات کے تابع کرناہے۔افغانستان میں بھارت کی آبی شمولیت نہ خیرسگالی پر مبنی ہے اور نہ غیرسیاسی۔ مالی امداد، انجینئرنگ مہارت اور خفیہ تکنیکی تعاون کے امتزاج سے نئی دہلی نے افغانستان کے اہم دریائی نظاموں پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ نغلو، درونتہ اور شاہ و عروس جیسے منصوبے، جو ابتدا میں ترقیاتی منصوبے قرار دیے گئے تھے، اب جغرافیائی طاقت کے ایسے اوزار بن چکے ہیں جو پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر شار آصیاب کے قریب 250 ملین ڈالر کا شاہتوت ڈیم منصوبہ، بظاہر کابل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے، مگر درحقیقت یہ پاکستان کے لیے نیچے کی جانب بہنے والے پانی کی
مقدار میں نمایاں کمی کا باعث بنے گا۔ بھارت کا یہ رویہ اسی یکطرفہ طرزِ عمل کی عکاسی کرتا ہے جو وہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھی اپنائے
ہوئے ہے جہاں وہ مغربی دریاؤں پر، جو پاکستان کو مختص کیے گئے تھے، مختلف منصوبے تعمیر کر کے آبی کنٹرول کو مشرق اور مغرب دونوں
سمتوں سے سخت کر رہا ہے۔یہ دو رُخی آبی حکمتِ عملی ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے آبی سفارتکاری سے آبی سیاست تک، جس کے نتیجے میں پانی کیمشترکہ ذخائر کو دباؤ ڈالنے کے آلات میں بدل دیا گیا ہے۔حالیہ ہی میں افغانستان کے طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا بھارت کا دورہ اس تناؤ کو مزید گہرا کر گیا۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان نے دریائے کابل اور اس کی معاون ندیوں پر نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھارت سے ایک ارب ڈالرکی مالی مدد مانگی ہے اور بھارت نے یہ مدد فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے،افغانستا ن میں نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے بھارت کی جانب سے معاونت ا یک ایسا قدم ہے جو بھارت پر طالبان کیمعاشی انحصار اور بھارت کی جانب سے افغانستان میں اسٹریٹجک اثرورسوخ بڑھانے کی خواہش دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔کابل کے لیے یہ منصوبے اندرونی سطح پر سیاسی جواز اور بھارتی سرپرستی فراہم کرتے ہیں، جبکہ نئی دہلی افغانستان کے ان منصوبوں کے ذریعہ پاکستان کے آبی راستے تک اپنی حکمتِ عملی کا دائرہ وسیع کرنا چاہتاہے۔ افغان طالبان کے دور میں بھارت اور افغانستان کے درمیان تعاون کا تسلسل اس خیال کو غلط ثابت کرتا ہے کہ طالبان کی مذہبی یا نظریاتی سوچ بھارت کے ساتھ شراکت داری میں رکاوٹ بنے گی۔پاکستان کے لیے خاص طور پر خیبر پختونخوا کے تناظر میں، یہ صورتِ حال نہایت سنگین اور فوری خطرہ رکھتی ہے۔ دریائے کابل اس صوبے کی زندگی کی رگ ہے یہی دریا زراعت، پن بجلی اور شہری پانی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اگر افغانستان میں اوپر کی سمت پانی موڑنے یا ڈیم بنانے کے منصوبے شروع کیے گئے، تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کے دریائی توازن پر پڑے گا۔پانی کے بہاؤ میں کمی کی صورت میں پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ جیسے زرخیز اضلاع کی آبپاشی تباہ ہو سکتی ہے، جس سے گندم، مکئی اور دیگر اہم فصلوں کی پیداوار متاثر ہوگی۔ورسک ڈیم جیسی تنصیبات میں توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت گھٹ جائے گی، جس سے صوبے میں بجلی کی قلت مزید بڑھے گی۔ شہری علاقے جو پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، شدید قلت اور صفائی کے بحران میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔اقتصادی نقصانات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تباہی بھی شدید ہوگی افغانستان کی خوبصورت جھیلیں سوکھ سکتی ہیں، زیرِ زمین پانی تیزی سے ختم ہو سکتا ہے، اور حیاتیاتی تنوع میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ اس طرح بھارتی معاونت اور مہارت سے چلنے والے افغان منصوبے پاکستان کی معاشی استحکام اور انسانی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بن گئے ہیں۔یہ کوئی نیا تجربہ نہیں۔ سلمہ ڈیم کی مثال اس کا واضح ثبوت ہے۔ 2016 میں افغان بھارت دوستی ڈیم کے نام سے افتتاح کیے گئے اس منصوبے نے ایران کے صوبہ خراسان کی طرف پانی کے بہاؤ میں کمی پیدا کی، جس پر ایران نے شدید سفارتی احتجاج کیا۔ اس واقعے نے واضح کر دیا کہ بھارت پانی کو سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتا، اور افغانستان اپنے پڑوسیوں سے مشاورت کے بغیر یکطرفہ فیصلے کر سکتا ہے۔ دریائے کابل کی صورتِ حال اسی رویے کا مزید خطرناک روپ ہے ، جہاں طالبان حکومت پانی کو انتظامی نہیں بلکہ سفارتی دباؤکے آلے کے طور پر
استعمال کر رہی ہے، خصوصاً پاکستان پر سرحدی اور سلامتی کے معاملات میں اثر ڈالنے کے لیے۔اس ابھرتی ہوئی آبی کشمکش میں پاکستان کو
غفلت کی گنجائش نہیں۔ اسلام آباد کا چترال ریور ڈائیورژن پروجیکٹ ایک سمجھدار اور قانونی طور پر درست حکمتِ عملی پیش کرتا ہے۔ اس
منصوبے کے تحت چترال دریا کا رخ جو پاکستان کے کابل دریا میں تقریباً 51 فیصد پانی فراہم کرتا ہے افغانستان میں داخل ہونے سے
پہلے سوات بیسن کی طرف موڑ دیا جائے گا۔ اس سے پاکستان اپنے وسائل کے بڑے حصے کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔یہ منصوبہ، جسے بعض ماہرین ”Tug of Waters” بھی کہتے ہیں، دوہرا فائدہ دیتا ہے: ایک طرف یہ 2,453 میگاواٹ تک صاف توانائی پیدا کر سکتا ہے، دوسری
طرف آبپاشی اور سیلابی کنٹرول میں بہتری لا سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ پاکستان کی آبی خودمختاری کا ایک عملی مظہر ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ
پاکستان اپنے آبی مستقبل کو بیرونی دباؤ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گا۔طالبان کا بھارتی سرمایہ کاری کی طرف جھکاؤ وقتی معاشی فائدہ ضرور
دے سکتا ہے، مگر یہ طویل المیعاد علاقائی بدامنی کا بیج بو رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف اپنے پانی کے ذخائر کا تحفظ نہیں بلکہ اس
موقع کو داخلی اصلاحات، جدید آبپاشی نظام اور سرحد پار آبی سفارتکاری میں قیادت کی بحالی کے لیے استعمال کرنا ہے۔پاکستان کو کابل دریا
کو صرف ایک ماحولیاتی یا زرعی معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کے ستون کے طور پر دیکھنا ہوگا جو اس کے استحکام، خوشحالی اور قومی شناخت کے
ساتھ براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ افغان حکومت نے اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کیاہے کہ اسے پاکستان کی جانب سے افغان عوام کی بے
لوث مہمانداری اور برادرانہ سلوک کا کوئی لحاظ نہیں وہ یہ بات فراموش کرچکے ہیں کہ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب سردیوں کے موسم
میں افغانیوں کی بڑی تعداد محنت مزدوری اور تجارت کی غرض سے پاکستان آیا کرتے تھے۔وہ پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں پھیل جاتے تھے
،کھلے میدانوں میں مٹی کے گارے کی دیواریں بناکر رہائش اختیار کرتے تھے۔ پاکستانی ان کے ساتھ انتہائی عزت و احترام سے پیش آتے
تھے۔ ان کی مختلف ٹیمیں پاکستان کے شہروں اور دیہات کی مساجسدمیں بھی قیام کیا کرتی تھی۔یہ لوگ سارا دن کام کر کے یامختلف اشیا بیچ
کر پیسے کماتے تھے۔ لیکن شام ہوتے ہییہ لوگ گھر گھر جا کرمفت کھانا مانگا کرتے تھے۔ لوگ ان پر رحم کھا کر انھیں پکا پکایا کھانا مفت میں مہیا
کیا کرتے تھے۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ لوگ گرمیوں میں اپنے وطن واپس جا کر بتاتے ہیں کہ پاکستان میں انھیں مفت رہائش اور مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور آمدنی بھی بہت زیادہ ہے۔اس وقت ایک پاکستانی روپے کے بدلے انھیں 220افغانی ملا کرتے تھے۔
پاکستان کی طرف سے ان کا اتنا خیال رکھنے کے باوجود ان لوگوں نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔ ایک رپورٹ کے
مطابق افغانستان میں پناہ گزیں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے 2021 میں پاکستان پر 881، 2022 میں 367اور2023 میں 282 حملے کیے جن میں تقریبا 1900فوجی افسر اور جوان شہید ہوئے اور1800 کے قریب زخمی ہوئے۔اب ان حملوں میں 2025 میں 46 فیصد تک کااضافہ ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ایما پر ہورہا ہے۔ارباب اختیار کو افغانوں سے کوئی معاملہ کرتے ہوئے یہ حقائق نظر انداز نہیں کرنے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے افغانستان میں افغانستان کے طالبان حکومت دریائے کابل پاکستان کی ڈیم بنانے کے طور پر بھارت کی کرتے تھے ہے افغان حکومت نے پانی کو سکتا ہے کے ساتھ کرتا ہے پانی کی پانی کے کی جانب رہا ہے پر ڈیم کی طرف ہے اور کے آبی
پڑھیں:
بھارت ، افغانستان آبی جارحیت کے منصوبے خاک میں ملانے کیلئے پاکستان کا چترال ڈائیورش پر اجیکٹ پر غور
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) بھارت اور افغانستان کی جارحیت کے مذموم منصوبے خاک میں ملانے کیلئے پاکستان نے چترال ڈائیورشن پراجیکٹ پر غور شروع کر دیا۔ افغان طالبان رجیم اور بھارت کے درمیان بڑھتے تعلقات پاکستان مخالف عزائم کو واضح کرتے ہیں، بھارت کی جانب سے طالبان رجیم کو ایک ارب امریکی ڈالر مالی امداد کی پیشکش کی گئی ہے۔ افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے بعد ’’پانی کو بطور سیاسی ہتھیار‘‘ استعمال کرنے کی پالیسی واضح ہو گئی ہے۔ انڈیا ٹو ڈے کی 24 اکتوبر 2025ء کو شائع رپورٹ کے مطابق ایک اندازہ کے مطابق بھارت افغان رجیم کو مالی و تکنیکی معاونت فراہم کرکے مختلف ڈیمز تعمیر کروا رہا ہے۔ یہ تعمیر ہونے والے ڈیم، جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ، پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہو سکتے ہیں۔ اس بھارت افغان منصوبے کا ہدف پاکستان کے آبی نظام کو مشرق و مغرب دونوں اطراف سے روکنا ہے۔ بھارت نے پہلے ہی سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ معطل کر کے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی آبی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔