کشمیر پر بھارتی قبضے کے 78 سال
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-03-3
جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے 77 سال مکمل ہونے پر آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور دنیا بھر میں یومِ سیاہ بھرپور قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایاگیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار اور بھارتی مظالم کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرنا ہے، ملک بھر میں اس موقع پر احتجاجی ریلیاں، واکس، سیمینارز اور تصویری نمائشوں کا اہتمام کیا گیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفترِ خارجہ سے ڈی چوک تک مرکزی یکجہتی واک نکالی گئی، جس میں مختلف وزارتوں کے نمائندے، طلبہ، سول سوسائٹی کے ارکان اور شہری بڑی تعداد میں شریک تھے۔ شاہراہِ دستور، پارلیمنٹ ہاؤس اور ڈی چوک کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے بینرز اور پوسٹرز سے سجا یا گیا تھا جبکہ وفاقی حکومت کی زیر نگرانی کشمیر میں بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کی خصوصی مہم بھی جاری ہے۔ وزارتِ اطلاعات، وزارتِ خارجہ، پی ٹی اے اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے یومِ سیاہ کے موقع پر بھرپور انتظامات کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ بھارت نے 27 اکتوبر 1947 کو تقسیم برصغیر کے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور کشمیری عوام کی مرضی کے برخلاف جموں وکشمیر میں اپنی فوجیں اُتار کر علاقے پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا۔ نئی دلی کی تہاڑ جیل میں غیر قانونی طور پر نظر بند کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ اور سینئر رہنما شبیر احمد شاہ نے اپنے پیغامات میں کہا کہ کشمیریوں نے بھارتی تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور وہ اس کے خلاف اپنی جدوجہد ہر قیمت پر جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر صدر پاکستان آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری اور امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن اور دیگر رہنماؤں نے یوم سیاہ کے موقع کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی غیر متزلزل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، کشمیر کے 95 فی صد مسلمانوں کے احساسات و جذبات کے علی الرغم غیر منصفانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق سے انکار کردیا تھا اور بھارت سے انضمام کا معاہدہ کیا، اس معاہدے سے قبل بھارت نے یہ شرط رکھی کہ فوجیں مدد کو اسی وقت آئیں گی جب کشمیر کی ریاست کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی دستے پہنچا دیے، اس موقع پر بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ فوجی مداخلت ریاست کی قانونی درخواست اور الحاق کی بنیاد پر کی گئی تھی، تاکہ ریاست کی سالمیت برقرار رہے، اس کے رد عمل میں غیور قبائلیوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا، پاکستان سے منہ کی کھانے کے بعد بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اقوا مِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئے جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرار داد میں واضح طور پر یہ کہا کہ کشمیر میں استصوابِ رائے کے ذریعے عوام کو حق ِ خود ارادیت دی جائے اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی زیر ِ نگرانی کنٹرول لائن قائم کی گئی، مگر اقوامِ متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ لے جانے کے باجود بھارت نے اس حوالے سے منظور ہونے والی قرارداد کی کسی ایک شق پر بھی عمل درآمد نہیں کیا۔ نہ کشمیری عوام کو حق ِ خوداردیت دیا گیا نہ ہی ان پر جاری ریاستی مظالم روکے گئے حد تو یہ ہے کہ آج بھی بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ بھارت نے اگست 2019 میں جموں کو کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو بھی منسوخ کر دیا جو 1949 میں بھارت کی آئین میں شامل کیا گیا تھا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بھارت کے اس اقدام پر حکومت نے سوائے زبانی جمع خرچ اور سڑکوں پر قوم کو کھڑا کر کے احتجاج کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ کشمیر آج بھی بھارت کے مظالم کی زد میں ہے، اب تک لاکھوں افراد شہید کیے جاچکے ہیں، کشمیری رہنما آج بھی بھارت کی جیلوں میں قید ہیں، حکمرانوں کی جانب سے یہ بیان دے دینا کہ پاکستان کے عوام کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ کہ ہم کشمیر یوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھیں گے، محض نمائشی اقدام سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ یوم سیاہ کے موقع پر جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا یہ کہنا بجا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کے معاملات کی وضاحت کی جائے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی آزاد و خود مختار ملک اپنی شہ رگ کو دشمن کے حوالے نہیں کرسکتی۔ بلا شبہ اس امر حقیقت سے نکار ممکن نہیں کہ مسئلہ کشمیر کا واحد قابل ِ قبول حل کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں رائے شماری کرنا ہے، اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیریوں کی غیر متزلزل حمایت کے اعادے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی کوششوں کو بھی تیز کیا جائے اور عالمی برادری میں بھارتی مظالم کو اُجاگر کرتے ہوئے مربوط انداز میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا جائے تاکہ بھارت پر بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھے اور کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی تحریک اجاگر ہو۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کشمیری عوام کرتے ہوئے کہ بھارت متحدہ کی کہ کشمیر کشمیر کا بھارت نے کی خلاف کے ساتھ
پڑھیں:
بھارت اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کے ماہی گیر رہا کردیے
بنگلہ دیش اور بھارت نے ایک دوسرے کے پانیوں میں گرفتار ہونے والے ماہی گیروں کی باہمی واپسی (ریپٹری ایشن) کا عمل مکمل کر لیا جو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک مربوط انسانی ہمدردی اور سفارتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اطالوی کمپنی بنگلہ دیش ایئر فورس کو یورو فائٹر ٹائفون ملٹی رول لڑاکا طیارے فراہم کرے گی
سرکاری ذرائع کے مطابق بھارت میں حراست میں رکھے گئے 32 بنگلہ دیشی ماہی گیر اور بنگلہ دیش میں گرفتار 47 بھارتی ماہی گیر آج سہ پہر خلیج بنگال میں بین الاقوامی بحری سرحد پر ایک منظم عمل کے تحت ایک دوسرے کے حوالے کیے گئے۔
اس موقعے پر بھارت کوسٹ گارڈ نے 32 بنگلہ دیشی ماہی گیر بنگلہ دیش کوسٹ گارڈ کے حوالے کیے جبکہ بنگلہ دیش نے بیک وقت 47 بھارتی شہری واپس کیے۔
تبادلے کے دوران بھارت نے بنگلہ دیش کی ایک ماہی گیری کشتی بھی واپس کی جبکہ بنگلہ دیش نے 3 بھارتی کشتیاں لوٹا دیں۔
مزید پڑھیے: بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا شیڈول کب جاری ہوگا؟ الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا
اسی دوران ایک علیحدہ پیش رفت میں، میگھالیہ، بھارت میں زیرِ حراست چھ بنگلہ دیشی ماہی گیر بھی آج نکوگا¶ن لینڈ پورٹ (ضلع شیرپور) کے ذریعے بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB) کی نگرانی میں وطن واپس لائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بی جی بی اور بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) کے درمیان رابطہ اور کوآرڈی نیشن جاری ہے۔
حکام کے مطابق، یہ کامیاب ریپٹری ایشن کئی اداروں کے قریبی تعاون کا نتیجہ ہے جن میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ ماہی پروری و مویشی پروری، وزارتِ جہاز رانی، بنگلہ دیش کوسٹ گارڈ، بی جی بی، پولیس اور مقامی انتظامیہ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: آئندہ انتخابات میں بی این پی سب سے زیادہ سیٹیں جیتے گی، جماعت اسلامی دوسرے نمبر پر ہوگی، سروے
علاقائی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے منظم تبادلے دونوں ممالک کے درمیان سمندری اور سرحدی گرفتاریوں سے پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، جو اب بھی ایک بار بار سامنے آنے والا چیلنج ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش بنگلہ دیشی ماہی گیر بھارتی ماہی گیر