امریکا کا طویل ترین شٹ ڈاؤن، فضائی نظام خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں جاری تاریخ کے سب سے طویل حکومتی شٹ ڈاؤن نے فضائی نظام کو مفلوج کرنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے، جس کے باعث درجنوں ہوائی اڈوں پر پروازوں میں نمایاں کمی اور سیکڑوں پروازوں کی منسوخی کا خدشہ ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کے ہنگامی حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ ملک کے 40 مصروف ترین ہوائی اڈوں پر پروازوں کی تعداد میں 4 فیصد کمی کر دی گئی ہے جب کہ اگر شٹ ڈاؤن آئندہ ہفتے تک برقرار رہا تو یہ کمی بتدریج 10 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ایف اے اے کے ایڈمنسٹریٹر برائن بیڈفورڈ نے کہا ہے کہ پروازوں میں کمی فی الحال انہی اڈوں تک محدود رہے گی جو فضائی دباؤ کا زیادہ سامنا کرتے ہیں، تاہم صورتحال کے بگڑنے کی صورت میں دائرہ مزید وسیع کیا جا سکتا ہے۔
حکم نامے کے مطابق پروازوں میں کمی کا آغاز جمعے کی صبح 6 بجے سے کیا گیا ہے اور اگر حکومتی بحران برقرار رہا تو منگل سے 6 فیصد، جمعرات سے 8 فیصد اور اگلے جمعے تک 10 فیصد تک مزید کمی نافذ کی جا سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے شٹ ڈاؤن فیصلے کے اثرات پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، متعدد بڑی ایئرلائنز نے جمعے اور ہفتے کے لیے اپنی درجنوں پروازیں منسوخ کر دی ہیں،ایئرلائنز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پروازوں میں سے کن کو منسوخ یا برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
خیال رہےکہ یہ شٹ ڈاؤن جو یکم اکتوبر سے جاری ہے، اب امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی تعطل بن چکا ہے۔ اس کے باعث ہزاروں وفاقی ملازمین، جن میں ائیر ٹریفک کنٹرولرز اور ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن (ٹی ایس اے) کے اہلکار شامل ہیں، تنخواہوں سے محروم ہیں۔
یونین رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ اگر شٹ ڈاؤن مزید طویل ہوا تو عملے کی مالی مشکلات نہ صرف ان کے مورال بلکہ سیکیورٹی اور پروازوں کے تحفظ پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پروازوں میں شٹ ڈاؤن
پڑھیں:
چین کا امریکی سامان پر عائدکیاگیا اضافی 24 فیصد ٹیرف معطل کرنے کا اعلان
چین نے رواں سال اپریل میں امریکی سامان پر عائد کیاگیا اضافی 24 فیصد ٹیرف ایک سال کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ کہا ہے کہ وہ 10 فیصد محصولات برقرار رکھے گا جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’یومِ آزادی‘کے محصولات کے جواب میں عائد کیے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے ریاستی کونسل کے ٹیرف کمیشن نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ 10 نومبر سے کچھ امریکی زرعی اجناس پر عائد کیے گئے 15 فیصد تک کے محصولات کو ہٹا دے گا، یہ فیصلہ مارچ 2025 میں جاری کردہ اس بیان کے حوالے سے کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا زرعی خریدار کن امریکی درآمدات پر ٹیکس لگانا شروع کرے گا،تاہم اس کٹوتی کے باوجود امریکی سویابین خریداروں پر اب بھی 13 فیصد ٹیرف لاگو رہے گا جس میں 3 فیصد کا پہلے سے موجود بنیادی محصول بھی شامل ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے امریکی سویابین اب بھی برازیل کے متبادل کے مقابلے میں خریداروں کے لیے بہت مہنگے ہیں۔2017 میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے اور پہلی امریکا۔چین تجارتی جنگ کے آغاز سے قبل سویابین امریکا کی چین کو سب سے بڑی برآمد تھی جبکہ دنیا کے سب سے بڑے زرعی خریدار نے 2016 میں 13 ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کے سویابین خریدے تھے،تاہم چین نے اس سال امریکی فصلوں کی خریداری میں کافی حد تک کمی کی ہے جس کے نتیجے میں امریکی کسانوں کو اربوں ڈالر کے برآمدی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔
کسٹمز کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2024 میں چین نے اپنی مجموعی سویابین درآمدات کا صرف 20 فیصد امریکا سے خریدا جو 2016 میں 41 فیصد تھا۔گزشتہ ہفتے سرمایہ کاروں نے دونوں ممالک کے درمیان کچھ اطمینان کا اظہار کیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں ملاقات ہوئی ،اس سے یہ خدشات کم ہو گئے تھے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں تجارتی جنگ کے حل کے لیے جاری مذاکرات کو ختم کر سکتی ہیں، ایک ایسی جنگ جس نے عالمی سپلائی چین کو متاثر کیا ۔
ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس نے ملاقات کے بارے میں فوری طور پر اپنی تفصیلات جاری کیں لیکن چینی فریق نے اس بات پر کوئی مفصل بیان جاری نہیں کیا ۔چین کی سرکاری کمپنی سی او ایف سی او نے اجلاس سے ایک دن پہلے امریکا سے 3سویابین کارگو خریدے تھے جسے تجزیہ کاروں نے ایک خیر سگالی کے اشارے کے طور پر دیکھا تھا، یہ بیجنگ کی جانب سے تجارتی کشیدگی میں کسی غیر مستحکم اضافے سے گریز کی خواہش کی علامت تھا۔
کچھ مارکیٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ سویابین کی تجارت کے جلد معمول پر آنے کے امکانات کم ہیں۔ایک بین الاقوامی تجارتی کمپنی کے تاجر نے کہا کہ ہمیں توقع نہیں کہ اس تبدیلی کے بعد چین کی جانب سے امریکی مارکیٹ میں کوئی خاص طلب پیدا ہو گی، برازیل کی قیمتیں امریکا سے سستی ہیں اور غیر چینی خریدار بھی برازیلی کارگو خرید رہے ہیں۔