1971 کی جنگ میں بہاری کمیونٹی پر مظالم کی داستان دوبارہ منظرِ عام پر
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
سن 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بہاری کمیونٹی پر ڈھائے گئے مظالم کی ہولناک داستانیں ایک بار پھر سامنے آ گئی ہیں، جن میں مکتی باہنی اور دیگر مسلح گروہوں کی جانب سے کیے گئے تشدد، قتل و غارت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر شامل ہے۔
متاثرین میں شامل بہاری کمیونٹی کے محمد علاؤالدین نے اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ بھارتی سرپرستی میں سرگرم مکتی باہنی کے مسلح گروہوں نے اس دور میں عام شہریوں، خصوصاً بہاری آبادی، کو نشانہ بنایا اور ان پر ناقابلِ بیان مظالم کیے۔
ان کے مطابق چٹاگانگ میں ایسے حالات تھے کہ ہم نے 45 ڈرمز میں سربریدہ لاشیں اکٹھی کیں، اور بے شمار لاشیں سڑکوں سے اٹھا کر خود دفن کیں۔ انہوں نے بتایا کہ مکتی باہنی کے حملوں کے باوجود انہوں نے اپنی کمیونٹی کی حفاظت کی بھرپور کوشش کی۔
علاؤالدین کے مطابق پاکستانی فوج جب ان کی مدد کے لیے پہنچی تو مکتی باہنی کے مسلح افراد نے انہیں روکنے کی کوشش کی، تاہم بعدازاں جنرل ٹکا خان کی آمد کے بعد علاقے میں کچھ بہتری آئی۔
انہوں نے بتایا جنرل ٹکا خان نے کہا کہ آپ سب نے ہمارا بہت ساتھ دیا، پھر ہمیں فوج میں بھرتی کیا گیا اور تین ماہ کی ٹریننگ دی گئی۔
علاؤالدین نے دعویٰ کیا کہ اُس وقت مکتی باہنی، شانتی باہنی اور لال باہنی جیسے گروہوں نے پورے خطے میں دہشت کا جال بچھا رکھا تھا جبکہ دوسری جانب بھارتی افواج کی کارروائیاں بھی جاری تھیں۔ تاہم ان کے مطابق بہاری کمیونٹی نے تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان سے اپنی وفاداری ترک نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ آج بھی لگ بھگ 6 سے 7 لاکھ بہاری بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے ہیں جو اب بھی پاکستان سے محبت اور وابستگی رکھتے ہیں۔ علاؤالدین کے مطابق ہندوستانی پروپیگنڈا حقائق کے برعکس ہے اور ان داستانوں سے اصل صورتحال واضح ہوتی ہے۔
سن 1971 کے واقعات سے متاثرہ افراد کی یہ تازہ گواہیاں اس دور کی خونریز تاریخ پر نئی روشنی ڈالتی ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس عرصے کے انسانی المیے آج بھی یادوں اور زخموں کی صورت زندہ ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: 1971 کی جنگ میں بہاری کمیونٹی پر مظالم کی داستان دوبارہ منظر عام پر بہاری کمیونٹی مکتی باہنی کے مطابق انہوں نے
پڑھیں:
گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر سینیئر صحافی منظر شگری کا انٹرویو
اپنے انٹرویو میں منظر شگری نے بتایا کہ نگران وزیراعلیٰ کی فہرست میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوا ہے اور انہی کی ہی پوزیشن سب سے مضبوط ہے۔ منگل تک نگران وزیراعلیٰ کا تقرر ہو جائے گا۔ سابق سیکرٹری وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان شاہد اللہ بیگ کی پوزیشن سب سے مضبوط بتائی جاتی ہے۔ متعلقہ فائیلیںگلگت بلتستان حکومت کی مدت پوری ہونے میں 4 دن باقی رہ گئے ہیں، تاہم ابھی تک نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ نگران وزیراعلیٰ کی دوڑ میں بڑے کھلاڑی میدان میں ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے سے اسلام آباد میں لابنگ میں تیزی آئی ہے، گذشتہ روز ہنزہ سے تعلق رکھنے والے راجہ نظیم الامین کو نگران وزیراعلیٰ کے طور پر فائنل کرنے کی خبریں سامنے آئیں، تاہم پیپلزپارٹی کے شدید تحفظات پر ان کا نام ڈراپ ہونے کی اطلاع ہے۔ اسوقت صورتحال کیا ہے؟ کون سے امیدوار کی پوزیشن مضبوط ہے؟ کس پارٹی کی حمایت حاصل ہے، اسلام آباد کے ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے؟ اسلام ٹائمز نے اس حوالے سے گلگت بلتستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار منظر شگری سے انٹرویو کیا ہے۔ منظر شگری گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں، جی بی کے ایشوز پر وسیع عبور رکھتے ہیں، مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial