پی ٹی آئی وفاقی آئینی عدالت میں مقدمات چلانے کے حوالے سے فیصلہ نہ کر سکی
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تاحال وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) میں اپنے مقدمات کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے، جسے 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قائم کیا گیا تھا۔ پارٹی کے متعدد کیسز سپریم کورٹ سے ایف سی سی منتقل ہو چکے ہیں، تاہم قانونی ٹیم میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا انہیں عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے یا نہیں۔
پارٹی کے ایک وکیل نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اکثریتی رائے یہی ہے کہ ایف سی سی کے سامنے پیش ہو کر قانونی اعتراضات اٹھائے جائیں، لیکن حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔
سلمان اکرم راجہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے گزشتہ روز ایف سی سی کے چھ رکنی بنچ کے سامنے بتایا کہ انہوں نے اپنے موکل کو عدالت کی آزادی اور اس سے جڑے تحفظات پر مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا:میرے موکل کو اب میرے مشورے پر غور کرنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں یا متبادل قانونی نمائندگی کا انتظام کریں گے۔”
وکلاء کی ایکشن کمیٹی نے بھی گزشتہ میٹنگ میں وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ پر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکی۔
اسی حوالے سے بیرسٹر صلاح الدین احمد نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وہ ایف سی سی میں حکومتی مقدمات کی نمائندگی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ فورم میں تبدیلی اور عدالتی تقرریوں پر حکومت کے حد سے زیادہ کنٹرول سے مختلف وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کی وجہ سے وہ اس عدالت میں اپنا کردار ممکن نہیں سمجھتے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایف سی سی
پڑھیں:
آئینی ترمیم اور قومی سمت ایک فکری جائزہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-3
آئین کسی ریاست کا محض قانونی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ وہ قومی بصیرت، اجتماعی سمت اور فیصلہ سازی کے بنیادی تصور کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں ماضی کی آئینی ترامیم جیسے چوبیسویں، پچیسویں اور حالیہ ستائیسویں ترمیم ہمیشہ کسی نہ کسی انتظامی، سیاسی یا وفاقی ضرورت کو سامنے رکھ کر کی گئیں، مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ترمیم صرف الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل کا اشارہ ہوتی ہے، اور اس کی کامیابی اس وقت مکمل مانی جاتی ہے جب وہ قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ فکری اتفاقِ رائے کا حصہ بھی بن جائے۔ حالیہ ترمیم پارلیمانی اکثریت سے منظور ضرور ہوئی، تاہم اس کے بعد جس نوعیت کا مکالمہ سامنے آیا، اس نے یہ پہلو نمایاں کیا کہ قانونی طور پر فیصلہ مکمل ہو جانے کے باوجود، اس کی حقیقی قبولیت تب تک قائم نہیں ہوتی جب تک وہ ادارہ جاتی توازن، عدالتی خودمختاری اور عوامی اعتماد کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔
سرکاری موقف کے مطابق اس ترمیم کا مقصد نظم و نسق کو بہتر بنانا اور جدید ریاستی تقاضوں کے تحت فیصلہ سازی کو مؤثر کرنا ہے، مگر آئینی و قانونی حلقوں میں یہ بحث بھی شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا یہ تبدیلی اختیارات کی ساخت میں ایسا رخ متعین کر رہی ہے جو مستقبل میں اداروں کے درمیان توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بعض اعلیٰ آئینی شخصیات کی جانب سے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے اصولی موقف نے بھی اس بحث کو مزید گہرائی دی، جسے کچھ اہل ِ فکر نے اس تناظر میں دیکھا کہ آئین پر اعتماد صرف قانونی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی توازن سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر عوام براہِ راست ایسے مباحث میں شامل نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کی ترجیحات معاشی دباؤ اور روزمرہ زندگی کے تقاضوں سے وابستہ ہوتی ہیں، تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ فیصلے جو کسی قوم کی لاعلمی میں قبول ہو جائیں، ان کا اثر سب سے پہلے اسی معاشرے کی روزمرہ زندگی پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہی سوال اب سامنے آ رہا ہے کہ آیا یہ ترمیم مستقبل میں ہم آہنگی اور مؤثریت لائے گی یا کسی نئے فکری موڑ کا آغاز کرے گی۔
قومی پالیسی کے فیصلے اس وقت دیرپا ثابت ہوتے ہیں جب وہ صرف پارلیمانی اکثریت کے زور پر نہیں بلکہ ذمے دارانہ سوچ، اجتماعی شعور اور اداروں کی باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کیے جائیں۔ نئی نسل اگر آئینی عمل کو جذباتی ردِعمل کے بجائے تجزیاتی نقطہ ٔ نظر سے دیکھے، تو یہی مباحث آئندہ اصلاح اور فکری بلوغت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
آخرکار، آئین تبدیل ہو سکتا ہے لیکن سمت وہی بدلتی ہے جب فیصلہ شعور کے ساتھ کیا جائے، کیونکہ بعض اوقات ایک ترمیم قانون سے بڑھ کر آنے والے وقت کی سوچ کو تشکیل دیتی ہے، اور ایسے لمحوں میں قلم صرف اظہار کا ذریعہ نہیں رہتا بلکہ راستے متعین کرنے کی امانت بن جاتا ہے۔