Jasarat News:
2025-11-28@02:15:42 GMT

یہی اصل پیغام ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جماعت اسلامی پاکستان کا تاریخی اجتماع عام ختم ہوچکا ہے‘ یہ محض ایک اکٹھ نہیں تھا اور نہ ہجوم اور کسی پر دھاک بٹھانے کا کوئی پروگرام تھا۔ یہ ایک فکری بیداری کی تحریک تھی، نظریاتی استقامت کی بے مثال کوشش اور اجتماعی شعور عظیم مظہر تھا۔ جس سے پاکستان کے معاشرے کی اصَاہ (امید؍ آرزو) کے لیے ایک نئی ارتعاش اور لہر پیدا کرنا تھی ’’بدل دو نظام‘‘ کا عنوان ہی بتاتا ہے کہ مقصد کیا تھا یوں کہہ لیجیے یہ روڈ میپ قوم کو روشنی میں لے آئے گا۔ روایتی سیاست، موروثی قیادت سے نجات دلائے گا اور استحصالی نظام دفن کرے گا۔ سب جانتے ہیں کہ قوموں کی تباہی کی جڑ صرف معاشی بدحالی یا انتظامی بے ترتیبی نہیں، بلکہ کرپٹ قیادت ہوتی ہے۔ جب قیادت کا تعین کردار کے بجائے تعلقات، اصولوں کے بجائے مفادات اور اہلیت کے بجائے نسب کے ذریعے ہونے لگے تو اسی پس منظر میں حافظ نعیم الرحمن کی آواز ایک تازہ ہوا کے جھونکا ہے۔

’’بدل دو نظام‘‘ ایک مربوط لائحہ عمل ہے جس نے قوم کے اندر امید کی نئی کرن روشن کی ہے یہ اجتماع عام روشن دلیل ہے کہ عوام اس فرسودہ، طبقاتی اور استحصالی نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں لوگ اب محض باتیں نہیں چاہتے بلکہ تبدیلی کا عملی منصوبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ قوم عارضی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب کی طلب گار ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے واضح کیا کہ پاکستان کا اصل نظریہ اللہ کی حاکمیت اور انسان کی نیابت پر مبنی ہے جب اسلام میں فاطمہ بنت ِ محمدؐ جیسی مقدس ہستی کو بھی قانون میں کوئی استثنیٰ حاصل نہیں، تو پھر ملک کا کوئی صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف یا بااختیار شخصیت قانون سے بالاتر کیسے ہو سکتی ہے؟

آج کا حکمران طبقہ امریکی مفادات کی تکمیل کو قومی مفاد پر ترجیح دیتا ہے ہمارے فیصلے اسلام کے مطابق نہیں بلکہ مراعات یافتہ طبقوں اور بیرونی طاقتوں کی خواہشات کے تحت کیے جاتے ہیں یہ اجتماع اس ذہنیت کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا۔ اجتماع کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ حافظ نعیم الرحمن نے تبدیلی کا عملی روڈ میپ دیا روڈ میپ میں واضح کیا گیا کہ کسان کو اور پسے ہوئے طبقے کو اْس کی محنت کا پورا حصہ دینا ہوگا، اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنائی جائے گی۔ بلدیاتی نمائندگی حقیقی جمہوریت کی پہلی شرط ہے، جبکہ پنجاب کا موجودہ بلدیاتی ایکٹ عوامی نہیں بلکہ سیاسی قبضے کا نمونہ ہے۔ اسی طرح یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے حافظ نعیم الرحمن دو ٹوک موقف اپنایا۔ 2 کروڑ 62 لاکھ بچوں کا اسکول سے باہر ہونا صرف حکومتی ناکامی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔

یہ وہ نکات ہیں جن پر آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے بات نہیں کی۔ روڈ میپ میں پسماندہ طبقات کی بحالی، خواتین کے حقوق، مزدور کی حفاظت، کسان کی عزت اور نچلے طبقے کے وقار جیسے نکات شامل ہیں۔ ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے تحت لاکھوں نوجوانوں کا رجسٹر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ نوجوان اس ملک کی تعمیر میں کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں، مگر ریاست اْن کے راستے مسدود کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی منفرد ہے، یہ واحد جماعت ہے جہاں قیادت کارکنان کے ووٹ سے آتی ہے، کسی خاندان کا اجارہ نہیں اور تبدیلی اجتماعی فیصلے کا نتیجہ ہوتی ہے سرمایہ دارانہ ذہنیت نے عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے جس میں عوام کی کوئی آواز نہیں۔ ’’بدل دو نظام‘‘ کا نعرہ پوری قوت کے ساتھ گونجا۔ یہ اجتماع عام ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اس میں ایک مکمل روڈ میپ بھی موجود تھا جس نے ثابت کیا کہ پاکستان عملی تبدیلی کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ معروف صنعتی ماہرین کی گفتگو اور لاکھوں افراد کا اجتماعی ردعمل بتا رہا تھا کہ قوم صرف تنقید نہیں چاہتی، حل چاہتی ہے، اور وہ حل سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کہتے ہیں کہ کارکنان اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے سب کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے، اور بہت جلد انقلاب آپ کے دروازے پر دستک دے گا۔ یہ دراصل ایک واضح پیغام ہے لاہور کے اس تاریخی اجتماع نے ثابت کر دیا کہ عوام تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ مگر تبدیلی صرف نعروں سے نہیں آتی، اس کے لیے نظریاتی قیادت، جمہوری مزاج، اجتماعی جدوجہد اور مسلسل استقامت درکار ہوتی ہے۔ بدل دو نظام‘ کا روڈ میپ قوم کے سامنے ہے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ قوم اس تبدیلی کا حصہ کب بنتی ہے؟ ملک ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم کو اس بدل دو نظام تحریک میں گلی محلوں اور ہر ہر سطح پر منظم ہو کر تحریک چلانے ہوگی یہی قومی ضرورت اور اجتماع عام کا پیغام ہے۔

جاوید الرحمن ترابی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمن روڈ میپ کے لیے کہ قوم

پڑھیں:

یہ تقسیم کیوں ؟

دنیا کے نقشے پر اگر کوئی ایسی لکیر کھینچی جائے جو امارت اور غربت کو ایک ساتھ دکھا سکے تو شاید وہ لکیر اتنی ہی گہری ہوگی، جتنی صدیوں سے محکوم انسانوں کے دلوں پرکھنچی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی میں ہم نے یہ خواب دیکھا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کی مشقت کم کرے گی۔ جب عالمی منڈیاں وسعت اختیارکریں گی، جب صنعتیں محنت کشوں کے خون اور زندگی کو نچوڑنے کے بجائے انصاف کے اصولوں پر چلیں گی تو شاید انسان کے درمیان موجود طبقاتی فاصلہ کم ہونے لگے گا مگر ہوا کیا؟

اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی یہ خواب ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اس دنیا میں جہاں خلائی جہاز مریخ پر اترنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، وہیں زمین پر انسان کے لیے اپنے گھرکا چولہا جلانا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک طرف چند سو افراد ہیں جن کی دولت پوری دنیا کے غریبوں کی مجموعی آمدن سے بھی زیادہ ہے اور دوسری طرف وہ کروڑوں انسان ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے دنیا کو دو طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طبقہ وہ جو طاقت کے اور دولت کے بل بوتے پہ کچھ بھی خرید سکتا ہے اور دوسرا وہ جو اگلے وقت کیا کھائے گا، اس فکر میں گرفتار ہے۔

سرمایہ داری نے شاید خود کو کبھی اتنا بے نقاب نہیں کیا، جتنا آج ہے۔ امیر ممالک میں کارپوریشنوں کا منافع بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ مزدوروں کی اجرتیں جمود کا شکار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ جیسے جیسے اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں، عام آدمی کا بجٹ سکڑتا جاتا ہے۔ یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں، یہ سیاسی بھی ہے اور سماجی بھی۔

آج کے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ غریب کی محنت سے دولت تو پیدا ہوتی ہے لیکن وہ دولت سیدھی طاقتوروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ وہی منطق ہے جس نے صدیوں پہلے غلامی کو جنم دیا تھا۔ آج غلامی کی شکل بدل گئی ہے مگر روح وہی ہے، محنت کش زندہ رہنے کے لیے کام کرتا ہے اور حکمران طبقہ امارت بڑھانے کے لیے۔

عالمی سرمایہ داری نے ایک طرف دولت کے پہاڑ کھڑے کیے ہیں اور دوسری طرف انسانیت بھوک سے نڈھال ہے۔ ایسے میں غربت محض کمیِ وسائل کا نام نہیں بلکہ طاقت کی تقسیم کا سوال ہے۔امریکا، یورپ چین سب نے اپنے اپنے سرمائے کے جھنڈے دنیا کے ہر خطے میں گاڑ دیے ہیں۔ بے شمار ایسی کمپنیاں ہیں جن کے منافع کئی ملکوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہیں۔ ان کارپوریشنوں کی قوت نے ریاستوں کو یرغمال بنا دیا ہے۔ آج قانون سازی عوام کی ضرورتوں کے تحت نہیں بلکہ سرمایہ کے مفاد کے تابع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور یونینوں کو کمزور کیا گیا اجرتوں کو منجمد رکھا گیا اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ورکنگ کلاس کی قوت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔

پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقی ممالک سبھی میں صورت حال یکساں ہے۔ یہاں کی حکومتیں آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دار اداروں کے سامنے اس طرح سرنگوں رہتی ہیں۔ آج ترقی پذیر ممالک کی معاشی پالیسیاں مقامی عوام کے لیے نہیں بلکہ قرض دینے والوں کی خواہشات کے مطابق بنتی ہیں۔مہنگائی وہ دیمک ہے جو عوام کے جسم و روح کو چاٹ رہی ہے۔ چاروں طرف بڑھتی ہوئی قیمتیں گرنے ہوئے معیارِ زندگی اور تنخواہوں کا وہ جمود جس نے عام گھرانوں کا سانس روک دیا ہے، یہ سب ایک عالمی بحران کی علامات ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ سکڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو رہا ہے۔ تنخواہیں جوں کی توں مگر کھانے سے لے کر تعلیم تک ہر خرچ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ایک پورا طبقہ بدلتے ہوئے نظام کے نیچے پس رہا ہے۔

 مہنگائی صرف اعداد و شمار نہیں، یہ ایک ماں کا خالی برتن ہے، ایک باپ کا شرمندہ چہرہ ہے، ایک بچے کی ادھوری خواہش ہے۔ یہ وہ اذیت ہے جسے کسی رپورٹ میں ناپا نہیں جا سکتا۔

آج جب دنیا مصنوعی ذہانت اور خود کار مشینوں کی طرف بڑھ رہی ہے محنت کش ورکرکو مزدور نہیں بلکہ اضافی انسان سمجھا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے خودکار ٹیکنالوجی کو اس طرح اپنایا ہے کہ منافع دوگنا ہو جائے۔

ریاستیں نوجوانوں سے کہتی ہیں۔

’’ زیادہ پڑھو، زیادہ محنت کرو، زیادہ مقابلہ کرو‘‘

مگر یہ نہیں بتاتیں کہ نوکریاں کم ہو رہی ہیں، تنخواہیں گھٹ رہی ہیں اور مستقبل اب محنت سے نہیں بلکہ تعلقات اور سرمایہ سے بنتا ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب تعلیم یافتہ نوجوان بھی خود کو بے اختیار محسوس کرتا ہے۔ یہ احساسِ محرومی کسی ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔جو نظام بار بار غریب کو مجرم بنا دے اور امیر کو معصوم وہ نظام انسانیت کا نہیں، طاقت کا نظام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی یہی ہوتا ہے۔ اگر بجٹ خسارہ ہو تو بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے۔اگر قرض بڑھ جائے تو ٹیکس غریب سے لیا جاتا ہے۔اگر غلط فیصلہ ہو تو سزا مزدور بھگتتا ہے۔طاقتور طبقہ ہر بحران کو اپنے لیے منافع میں بدل لیتا ہے اور غریب ہر بحران میں مزید غریب ہوتا جاتا ہے۔یہ دنیا کا وہ اصول ہے جو بدلنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ طاقت رکھنے والوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ کیا یہ دنیا ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟تاریخ کا پہیہ کبھی ایک سمت نہیں گھومتا۔جس طرح ظلم کی رات بڑی لمبی ہوتی ہے، ویسے ہی ایک دن تبدیلی ضرور آتی ہے۔ یہ دنیا تب ہی بدلتی ہے جب انسانوں کی اجتماعی تکلیف ایک طوفان میں بدل جائے۔

آج جب عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بڑھ رہی ہے، وہیں دنیا کے کئی حصوں میں نئی مزاحمت بھی جنم لے رہی ہے۔ ورکر یونینز دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔ طلبہ تحریکیں نظام کے خلاف سوال اٹھا رہی ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں بھی انسان اپنی آواز تلاش کر رہا ہے۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

دنیا ایک بار پھر ایک نئے سوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ کیا انسان کی قدر زیادہ ہے یا سرمایہ کی؟ کیا دنیا طاقت کے بل پر چلتی رہے گی یا انصاف کے بل پر؟جب دنیا کے امیر ترین لوگ چاند پر بستیاں بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اسی وقت زمین پر رہنے والے کروڑوں انسان غربت سے لڑ رہے ہیں۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ دولت کا پہاڑ آسمان چھو لے اور انسان کا وقار زمین میں دفن ہو جائے؟

یہ سوال ہمیں جھنجھوڑتا ہے اور شاید اسی سے وہ صبح جنم لے جو خواب دیکھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہے۔ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہے، اس تقسیم کو چیلنج کرنا ہے اس دنیا کو انسان کے شایانِ شان بنانا ہے کیونکہ اگر دولت چند ہاتھوں میں قید رہے گی تو انسانیت خطرے میں رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ملکی شمسی توانائی کی صلاحیت 2026ء تک بجلی کے مجموعی نظام کے 20 فیصد تک پہنچنے کی توقع: عالمی تحقیقی ادارہ
  • مینار سے میدان تک؛ امت کا عہد اور انقلاب کی نئی صبح
  • اجتماع عام: عظیم الشان کامیابیوں کے ریکارڈ
  • کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست
  • پاکستان ریلوے، نظام الاوقات
  • میانوالی میں بھی تبدیلی آ گئی: وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • بدحال ریلوے نظام اور بلٹ ٹرین کے دعوے
  • یہ تقسیم کیوں ؟
  • اداروں میں تعاون کے بغیر نظام میں تبدیلی ممکن نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی