Jasarat News:
2025-12-04@22:29:33 GMT

عافیہ کیس، لا علمی، نااہلی یا سازش

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251205-03-4

ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کے مختلف محکموں میں جہالت اور نااہلی کا مقابلہ ہورہا ہے اور یہ واحد مقابلہ ہے جس میں تمام ادارے پوری دلجمعی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس میں اپنی پوری صلاحیت صرف کررہے ہیں بلکہ جھونک رہے ہیں۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے اس کام میں ید طولیٰ رکھتے ہیں لیکن جن اداروں کو بین الاقوامی معاملات دیکھنے ہوتے ہیں وہ بھی ایسے لطیفے کرتے رہتے ہیں۔ تازہ واردات پاکستان کے موقر ادارے اٹارنی جنرل آفس کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کی ہے، انہوں نے برسوں سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے میں یہ دعویٰ کرڈالا کہ عافیہ امریکی شہری ہے اوراس کا مقدمہ بھی امریکا میں چلا ہے پاکستان امریکی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا، اسے عرف عام میں بھنڈ مارنا کہا جاتا ہے لیکن یہ تو اس سے بھی بڑی چیز ہوگئی ہے۔
قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ حکومتی اداروں کا رویہ سنگین مذاق بلکہ سنگدلی ہے کہ بائیس سال گزرنے کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ امریکی شہری ہے اسے سزا بھی امریکا میں ہوئی ہے، ہم امریکی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ اس سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں حکومتی اداروں کی لاعلمی، انسانیت سے عاری ہونے اور بے حسی کا اظہار ہوتا ہے، کم سے کم الفاظ میں اسے غیر انسانی رویہ کہا جاسکتا ہے، ڈاکٹر عافیہ کی پاکستانی شہریت کسی بھی سوال سے بالا اور ریکارڈ پر ہے، سارا مقدمہ اسی بنیاد پر چلایا گیا کہ عافیہ پاکستانی شہری ہے، اٹارنی جنرل کے دفتر کی لا علمی بلکہ جہالت کا یہ بہت بڑا ثبوت ہے، خود اسلام آباد ہائیکورٹ میں عافیہ کے مقدمے میں اٹارنی جنرل آفس برسوں حاضری دیتا رہا ہے، اس کے نمائندے خود عدالت سے جھڑکیاں کھاتے رہے، اپنی نا اہلی سے حکومت کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کروا دیا، اور عدالت کا کوئی حکم تسلیم نہیں کیا، اب عافیہ کو امریکی شہری قرار دیکر اسلام آباد ہائی کورٹ کی بھی توہین کی ہے کہ وہ کئی سال سے مقدمے کو سمجھے بغیر احکامات جاری کرتی رہی۔ جب سنگل بنچ، اور جسٹس اعجاز اسحاق نے احکامات دیے اس وقت بھی اٹارنی جنرل آفس نے عافیہ کے امریکی ہونے کی بات نہیں کی، اور اب جبکہ لارجر بنچ نے بھی ایمائکس بریف تیار کرنے کا حکم دے دیا تو کہا جارہا ہے کہ عافیہ امریکی شہری ہے، اگر ایسا ہوتا تو عافیہ کے گھر والے اور عافیہ موومنٹ پاکستانی عدالتوں میں کیوں درخواست دیتے، یہاں سر پھوڑنے کے بجائے، براہ راست امریکا کی عدالت چلے جاتے اور اب تک عافیہ رہا بھی ہوچکی ہوتی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ، ادارے یا مدعا الیہ کمزور موقف رکھتے ہوں، دلائل نہ ہوں یا ان کی نیت میں خرابی ہو تو وہ اچانک عدالت کے دائرہ اختیار ہی کو چیلنج کردیتے ہیں، اس معاملے میں تو ساری ہی چیزیں لگ رہی ہیں، موقف مضبوط بلکہ ہے ہی نہیں، دلائل بھی تب ہی لاتے جب موقف مضبوط ہوتا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ نیت ہی میں خرابی ہے۔ اس معاملے میں ہم نے عافیہ موومنٹ سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ نہایت نامعقول بات کہی گئی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ عافیہ موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اور ہمیں یقین ہے کہ عدالت اٹارنی جنرل آفس کا ریکارڈ بھی درست کروادے گی۔ لہٰذا کہیں بھی جذبات کو قابو سے باہر نہ ہونے دیا جائے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے سازش بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اٹارنی جنرل آفس حکومت کا ترجمان ہے، اس کے افسران حکومت کی زبان ہوتے ہیں از خود کچھ نہیں بولتے لہٰذا ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بیان کو صرف حماقت نہیں سمجھا جاسکتا، سازش کا پہلو پیش نظر رہنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت عافیہ کیس سے پہلے ہی جان چھڑانا چاہتی ہے، بہت کچھ کرلیا اور سب کچھ کرلیا بھی کہہ چکی ہے۔ چنانچہ اس غیر حقیقی بیان کے ذریعے شبہات پیدا کیے گئے ہیں، ہوسکتا ہے یہ کوشش بھی کی جائے کہ عافیہ کے پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت طلب کیا جائے اور اس چکر میں مزید وقت ضائع کردیا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ بائیس برس سے ظلم جاری ہے اس کی باگرام میں موجودگی کا انکشاف کرنے والے عمران خان وزیراعظم بھی بنے ساڑھے تین سال پارلیمنٹ سے جی ایچ کیو تک سب کی مکمل سرپرستی کے باوجود عافیہ ان کی ترجیح نہیں رہی، ان کے علاوہ پیپلزپارٹی کو اور نواز شریف کو بھی دودو مواقع ملے اب شہباز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم ہیں، لیکن سب نے بالاتفاق بار بار عافیہ میری بیٹی میری بیٹی کی تکرار کی، لیکن عافیہ کو کوئی نہ لاسکا۔ البتہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہی فرمایا تھا کہ عافیہ امریکی شہری ہے پھر بھی ہم نے اسے وکیل کرکے دیا تھا، یہ اور بات ہے کہ وکیل شاید سزا یقینی بنانے کے لیے تھا عافیہ کو رہا کرانے کے لیے نہیں، چنانچہ عافیہ کو چھیاسی برس کی سزا ہوگئی۔ مسلم لیگ کی حکومت ہے میاں نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کے گھر آکر ان کی والدہ سے کہا تھا کہ عافیہ میری بچی ہے اسے میں لاؤں گا۔ لیکن بار بار موقع ملنے کے باوجود وہ عافیہ کو نہیں لائے، تو ڈاکٹر عافیہ کی والدہ نے توجہ دلائی کہ میاں صاحب جہاں تشریف رکھتے تھے، ان کے سر کے عین اوپر قرآن کی یہ آیت درج تھی کہ ’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں‘‘ اور میاں صاحب اس آیت کے مصداق یہی کرتے رہے۔ اب بھی اگر حکومت مین ذرہ برابر بھی حیا ہو تو فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کی درخواست، ایمائکس بریف تیار کرے اور امریکی عدالت میں جمع کرادے۔
چند حقائق تازہ کر لیے جائیں: 1، عافیہ پاکستانی شہری ہے، اس نے امریکی شہریت کی درخواست بھی نہیں دی۔ 2، عافیہ کا پاکستانی پاسپورٹ اور قانونی دستاویزات جیو ٹی وی کے حامد میر کے پروگرام اور عدالتوں میں بھی پیش کی جاچکیں۔ 3، عافیہ کو پاکستان سے بچوں سمیت اغوا کیا گیا۔ 4، جنرل پرویز مشرف نے عافیہ کی فروخت کا خود اعتراف کیا۔ 5، عافیہ پر جو الزامات لگے امریکی عدالت میں بھی ان مین سے کوئی ثابت نہ ہوسکا۔
نہ بندوق پر کوئی نشان، نہ ٹرائگر پر کوئی نشان، کسی فوجی کو گولی نہیں لگی، کمرے میں گولیوں کے کوئی نشان نہیں، گن سے گولیاں فائر کرنے کا ثبوت بھی نہیں ملا، اور حیرت انگیز طور پر عافیہ کو گولیاں لگ گئیں۔ امریکی عدالت میں بھی دفاع کی کوئی اجازت نہیں ملی اور یکطرفہ طور پر 86 سال کی سزا سنادی گئی۔ ویسے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم امریکی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے، ان سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر پاکستان میں امریکی مداخلت کیوں قبول کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایڈیشنل اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل ا فس پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ عدالت میں کی عدالت عافیہ کے عافیہ کی عافیہ کو

پڑھیں:

وزیراعلیٰ پختونخوا سے امریکی قونصل جنرل کی ملاقات، دوطرفہ تعاون پر گفتگو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-08-9
پشاور (مانیٹر نگ ڈ یسک ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی سے امریکی قونصل جنرل تھامس ایکرٹ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اہم ملاقات کی۔ ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری، معدنیات، توانائی اورسیکورٹی تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات میں تعاون پر بھی گفتگو ہوئی۔ تھامس ایکرٹ کا کہنا تھا کہ تجارتی سفارتکاری امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے، اقتصادی سفارتکاری کے فروغ سے مجموعی امن و استحکام کو تقویت ملے گی، معدنیات اور توانائی کی شراکت داری اقتصادی سفارتکاری کو مضبوط کرے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • عافیہ صدیقی کیس، خارجہ پالیسی و قانونی پیچیدگیاں، سماعت20 جنوری تک ملتوی
  • عافیہ امریکی شہری ہیں ،سزا بھی وہیں ہوئی، امریکی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
  • عافیہ امریکی شہری ہیں سزا بھی وہیں ہوئی، امریکی نظام میں مداخلت نہیں کرسکتے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: عافیہ صدیقی کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی
  • وزیراعلیٰ پختونخوا سے امریکی قونصل جنرل کی ملاقات، دوطرفہ تعاون پر گفتگو
  • پشاور، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے امریکی قونصل جنرل کی اہم ملاقات
  • وزیراعلیٰ کے پی سہیل آفریدی سے امریکی قونصل جنرل تھامس ایکرٹ کی ملاقات
  • پینشن کی عدم ادائیگی پر سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت
  • پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے امریکی قونصل جنرل کی اہم ملاقات