اسرائیلی آرمی چیف کی ہٹ دھرمی، مقبوضہ یلو لائن کو غزہ کی نئی سرحد قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
اسرائیلی آرمی چیف ایال زمیر نے کہا ہے کہ غزہ میں امن معاہدے کے تحت متعین کی گئی یلو لائن دراصل اسرائیل اور غزہ کے درمیان ایک نئی سرحد کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے اس بیان نے خطے کے مستقبل کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آرمی چیف ایال زمیر نے غزہ میں موجود ریزرو فوجیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یلو لائن نہ صرف ایک نئی سرحدی حد بندی ہے بلکہ یہ اسرائیلی آبادیوں کے لیے ایک جدید دفاعی لائن کا کردار بھی ادا کرے گی۔
واضح رہے کہ اس وقت اسرائیلی فوج غزہ کے 53 فیصد علاقے پر قابض ہے، جب کہ 10 اکتوبر 2025 کو نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فورسز اس لائن سے پیچھے ہٹ جائیں گی۔ تاہم معاہدے کے باوجود اسرائیلی فوج کی جانب سے خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔
رپورٹس کے مطابق جنگ بندی کے دوران ہی صیہونی فورسز اب تک 373 فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہیں، جس پر عالمی سطح پر اسرائیل کے طرزِ عمل پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا تک غزہ میں جنگ بندی مکمل نہیں ہوگی، قطری وزیراعظم
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں گزشتہ دو ماہ سے جاری جنگ بندی اُس وقت تک مکمل نہیں مانی جا سکتی جب تک امریکی اور اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ امن منصوبے کے مطابق اسرائیلی فورسز فلسطینی علاقے سے پوری طرح واپس نہیں چلی جاتیں۔
دوحہ میں ہونے والے سالانہ دوحہ فورم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم ایک نہایت نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ “جنگ بندی کا حقیقی مطلب اسی وقت پورا ہوگا جب غزہ میں مکمل انخلا اور امن بحال ہو جائے گا۔”
امریکا، قطر اور مصر کی مشترکہ کوششوں سے 10 اکتوبر سے غزہ میں جنگ بندی نافذ ہے، جس کے دوسرے مرحلے میں اسرائیل کو اپنی پوزیشنیں خالی کرنی ہیں، عبوری انتظامیہ نے حکومت سنبھالنی ہے اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کی تعیناتی ہونی ہے۔
تاہم عرب اور مسلم ممالک اب بھی اس فورس کا حصہ بننے پر تذبذب کا شکار ہیں، کیونکہ خدشہ ہے کہ انہیں فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ترکیہ کے وزیرِ خارجہ ہکان فدان نے فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فورس کی قیادت، ڈھانچے اور رکن ممالک جیسے اہم معاملات ابھی تک طے نہیں ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فورس کا اولین مقصد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا ہونا چاہیے، پھر دیگر مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ حماس کو غیر مسلح ہونا ہوگا۔ وہ ارکان جو ہتھیار ڈال دیں گے انہیں غزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی، تاہم حماس اس تجویز کو کئی بار مسترد کر چکی ہے۔
ترکیہ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ استحکام فورس میں شامل ہونا چاہتا ہے، مگر اسرائیل اس پر ناخوش ہے کیونکہ اس کے خیال میں انقرہ حماس کے بہت قریب ہے۔
وزیراعظم قطر نے کہا کہ قطر، ترکیہ، مصر اور امریکا مل کر اگلے مرحلے کے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں، لیکن ان کے مطابق یہ اگلا مرحلہ بھی عارضی ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ صرف گزشتہ دو سال کے واقعات کا حل کافی نہیں، دونوں قوموں کے لیے انصاف پر مبنی پائیدار حل ناگزیر ہے۔
فورم کے موقع پر مصری وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے بھی قطری وزیراعظم سے ملاقات کی، جس میں غزہ کی زمینی صورتحال اور جنگ بندی پر عملدرآمد پر بات ہوئی۔ مصر نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کے لیے 5 ہزار پولیس اہلکاروں کو تربیت دے گا اور استحکام فورس میں اپنے دستے بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔