انسان ہوں فرشتہ نہیں، ندا یاسر نے فوڈ ڈلیوری رائیڈرز سے معافی مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
پاکستان کی نامور مارننگ شو میزبان ندا یاسر نے اپنے متنازع بیان پر فوڈ ڈلیوری رائیڈرز سے معافی مانگ لی۔
گزشتہ کئی برسوں سے اپنے پروگرام کے ذریعے مقبول رہنے والی ندا یاسر حال ہی میں فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز کے بارے میں ایک سخت بیان دینے کے باعث شدید تنقید زد میں تھیں۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز اکثر جان بوجھ کر کھلے پیسے نہیں رکھتے تاکہ انہیں زیادہ ٹپ مل سکے‘۔ ندا نے مشورہ دیا کہ لوگ یا تو پہلے سے کھلے پیسے رکھیں یا رائیڈر سے اضافی رقم ساتھ لانے کا کہہ دیں۔
ان کے اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا صارفین سمیت فوڈ ڈلیوری رائیڈرز نے بھی شدید ردِعمل دیا تھا اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اب ندا یاسر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے بیان سے متعلق وضاحت پیش کرتے ہوئے فوڈ دلیوری رائیڈرز سے معافی مانگ لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا ایک ذاتی تجربہ آپ سے شیئر کیا تھا جو واقعاً برا تجربہ تھا لیکن وہاں مجھ سے لفظوں کے چناؤ میں کوتاہی ہوگئی۔
ندا یاسر نے کہا کہ ایسی کوتاہی عام زندگیی میں ہوجاتی ہے، میرا شو لائیو ہوتا ہے، ریکارڈڈ نہیں۔ میں نے جب رائیڈرز سے متعلق اپنا برا تجربہ شیئر کیا تو اس میں یہ لفظ کہنا چاہیے تھا کہ ’کچھ لوگ ایسا کرجاتے ہیں‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ میں نے پوری رائیڈرز کمیونٹی کو برا نہیں کہا۔ زیادہ تر ایسے رائیڈرز ہیں جو بہت ایماندار ہیں اور محنت مشقت کرکے پیسے کمارہے ہیں۔
ندا یاسر نے مزید کہا کہ میں یہاں کسی کا دل دکھانے نہیں بیٹھی، لیکن میں انسان ہوں فرشتہ نہیں ہوں، اس لیے کبھی کبھار لفظوں کے ہیر پھیر کی وجہ سے دل کی بات غلط انداز میں زبان پر آجاتی ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ میری وجہ سے میرے رائیڈرز بھائیوں کا دل دکھا ہے تو میں ان سے سچے دل سے معذرت کرتی ہوں، پلیز اپنی بہن کی چھوٹی سی غلطی سمجھ کر معاف کردیے گا۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ندا یاسر نے رائیڈرز سے انہوں نے سے معافی
پڑھیں:
انسان اور چھوٹی کائنات (پہلا حصہ)
یہ انسان جو اپنے آپ کو بہت طرم خان، عقل کُل اور ہمہ دان سمجھتا ہے ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور پوری کائنات کو فتح کرنے کا مدعی ہے۔
اتنا نادان اتنا ناسمجھ اور اتنا بے خبر ہے کہ باہر باہر دور دور اس وسیع کارخانہ قدرت کو ایک طرف کردیجیے کہ پہاڑ کے مقابل چیونٹی بھی نہیں ہے، کائنات میں موجودات، ستاروں اور سیاروں کہکشاؤں کے بارے میں تو کیا جانے گا کہ خود اپنے جسم کی اس چھوٹی کائنات کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔
مثال کے طور پر انسان کو اپنے بارے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں خود اس کائنات کا ایک چھوٹا سا نمونہ یا ماڈل ہوں اور میرے اندر بھی ایک وسیع کائنات موجود ہے۔
اب یہ جو ہم سانس لیتے ہیں ہم اتنا تو جانتے ہیں کہ اس سے ہم زندہ ہیں لیکن کیوں کیسے؟یہ جو ہم سانس لیتے ہیں یہ ایک نہیں دو ہیں اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف متضاد اور الگ الگ ہیں، یوں کہیے کہ ان میں بھی کائنات کا بنیادی نظام ازواج یا ثنویت یا منفی و مثبت کا زوج کار فرما ہے۔
جو سانس ہم اندر کھینچتے ہیں وہ آکسیجن ہوتی ہے اور جو باہر نکالتے ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے، یوں کہیے کہ آکسیجن زندہ جسم کا’’فیول‘‘ ہے اور کاربن دھواں ہے، خوراک ہے زندگی ہے
یہ آکسیجن پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہوجاتی ہے پھر پھیپھڑے اسے دل کو دیتے ہیں اور دل اس صاف’’خون‘‘ کو جسم میں پمپ کرتا ہے اور اس کی جگہ استعمال شدہ کاربن سے بھرا ہوا خون کھینچ کر پھیپڑوں کو صفائی کے لیے بھیجتا ہے، پھیپھڑے اس سے کاربن نکال کر باہر نکال دیتے ہیں اوراس کی جگہ خون میں آکسیجن بھر کر دل کو واپس بھیجتے ہیں۔
اس مرحلے میں ان دو عضویات دل اور پھیپھڑوں کی کارکردگی کا ذکر ضروری ہے۔ پھیپھڑے تو دوسرے انسانی اعضا اور کائنات کی ہر چیز کی طرح دو کا زوج ہیں لیکن دل جو بظاہر ایک دکھائی دیتا ہے’’ٹو ان ون‘‘ ہے یعنی اس کے بھی دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ جو پھیپھڑوں سے تازہ آکسیجن سے بھرا خون لے کر جسم کو پمپ کرتا ہے اور دوسرا جسم سے کاربن بھرا خون کھینچ کر پھیپھڑوں کو صفائی کے لیے بھیجتا ہے۔
یوں جسم میں آکسیجن اور کاربن کا توازن برقرار رہتا ہے اور انسان جب آرام سے بیٹھا ہوتا ہے تو تب بھی اس کی سانس ہموار رہتی ہے، آکسیجن اور کاربن اپنا اپنا کام کررہی ہوتی ہیں توازن کے ساتھ۔لیکن کوئی انسان متحرک ہوتا ہے تو آکسیجن تیزی سے خرچ ہوکر کاربن میں بدلنے لگتی ہے آکسیجن کی کھپت زیادہ ہونے کا لازمی نتیجہ کاربن کا بڑھ جانا ہوتا ہے، جسم جتنا زیادہ متحرک ہوتا ہے اتنا ہی آکسیجن زیادہ خرچ ہوتی ہے اور کاربن بڑھتی ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سخت کام کرنے والوں اور بھاگ دوڑ کرنے والوں کی سانس پھول جاتی ہے ایسے میں انسان شعوری طور پر یہ کرتا ہے کہ رُک جاتا ہے، کام چھوڑ کر آرام کرتا ہے۔لیکن جسم کا نظام خود بھی خودکار طریقے پر کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔
کیونکہ ضروری نہیں کہ رُکنے، بیٹھنے لیٹنے آرام کرنے کا موقع جسم کو میسر ہو۔ چناں چہ وہ گانے لگتا ہے آوازیں نکالنے لگتا ہے ہنسنے لگتا ہے اور کسی طرح کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس سے کاربن نکلے اور آکسیجن آئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ملاح، مزدور، مسافر وغیرہ اونچی آواز میں گاتے ہیں ہلہ ہلہ ہاو ہو کرتے ہیں ،ہنستے ہیں ایک دوسرے کا مذاق اڑاکر قہقہے لگاتے ہیں اور یہ سب لاشعوری طور پر جسم کا خودکار نظام کرتا ہے آکسیجن اور کاربن کا توازن برقرار رکھنے کے لیے۔
صرف انسان ہی نہیں جانور اور چرند پرند بھی ایسا کرتے ہیں آوازیں نکالتے ہیں، کتے بھونکتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں باقی جانور بھی کوئی نہ کوئی آواز نکالتے ہیں۔یہ سب ان کے جسموں کا خود کار نظام کرتا ہے اور مسئلہ وہی ہے آکسیجن کھینچنے اور کاربن نکالنے کا۔
کیونکہ آکسیجن اور کاربن قوت ہے عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی بستیوں میں دن کو تو سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں لیکن شام کو کسی جگہ اکٹھے ہوکر گاتے بجاتے ہیں، کھیلتے ہیں مذاق کرکے ہنستے اور قہقہے لگاتے ہیں، ناچتے ہیں یا ہلکے پھلکے کھیل کھیلتے ہیں ، جب کہ خانہ بدوش اور مسافر لوگ کہیں بیٹھ کر گاتے بجاتے ہیں، ہنستے مسکراتے ہیں یا آلاؤ کے گرد ناچتے یا اور کوئی دلچسپ مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہ سب ان سے ان کے جسموں کا خودکار نظام کراتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتے ہیں یا دن میں سخت کام نہیں کرتے وہ جمائیاں لیتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔انھی چیزوں نے آخر ان سرگرمیوں کو جنم دیا جنھیں ہم ’’ثقافت‘‘ یا کلچر کہتے ہیں۔
اگرچہ زمانے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام کام جو ابتدا میں تفریح تھے کاروبار اور پیشے بھی ہوتے چلے گئے لیکن ابتدا بہرحال اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔اور اگر ہم بہت پیچھے جاکر تحقیق کریں تو ابتدا میں اکثر آلات موسیقی پھونک اور سانس والے تھے پہلے صرف سیٹیاں پھر ہلہ ہلہ آ آ۔
اور پھر بانسری نفیری شہنائیاں وغیرہ۔اس سلسلے میں ’’شنک‘‘ یعنی آبی جانوروں کی سیپیاں اور شیل جانوروں کے سینگوں سے بنائے گئے آلات لفظ’’قرتا‘‘ قرن یعنی سینگ سے ہے۔ ہندیوں کے دیوتا شیو کو اسی لیے سنکر (شینک بجانے والا بھی کہتے ہیں)کہ پیالہ تیرے نام کا۔
یہ ’’پیالہ‘‘ بھی ایک خاص پس منظر رکھتا ہے جس پر کبھی تفصیل سے لکھیں گے۔’’حدی خوان ‘‘ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو قافلوں میں چلتے چلتے گایا کرتے تھے اور الفاظ بہت کم لیکن آوازیں بلند ہوتی تھیں ۔کچھ ہی عرصہ پہلے ہم نے خود دیکھا ہے کہ جب کوئی اجتماعی کام ہوتا تھا جیسے بوائی کٹائی اور گہائی تو ایک ڈھول والا ڈھول بجاتا تھا اور کام کرنے والوں میں سے کوئی ناچنے لگتا باقی اس کے گرد کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے اور گاتے یا ہاہو کرتے اور آوازیں نکالتے۔
خلاصہ ان ساری باتوں کا یہ ہے کہ گانا بجانا ہنسنا مسکرانا قہقہے لگانا اور آوازیں نکالنا ایک سانس والی مخلوق کی فطری ضرورت ہیں اوراسی کو اکثر مدنیت، ثقافت، اجتماعیت اور کلچر کہتے ہیں جو غلط ہے۔
بہتر ہوگا کہ ہم اس سلسلے میں استعمال ہونے والے ان الفاظ کا بھی تھوڑا سا تجزیہ کرلیں جو اکثر غلط استعمال کیے جاتے ہیں ثقافت، تمدن، تہذیب وغیرہ جسے انگریزی لفظ کلچر میں بھی ادا کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف الگ الگ الفاظ ہیں بلکہ ان کے معانی و مفاہیم بھی الگ ہیں، سب سے پہلے ثقافت جو عربی لفظ ’’ثقف‘‘سے بنا ہے، ثقات عرب میں اسے بہت معنی دیے گئے ہیں لیکن مجموعی اور متفقہ معنی ہیں کسی کام یا چیز یا ہنر میں مہارت حاصل کرنا اور اس میں جیت حاصل کرنا ممتاز ہونا خاص ہونا۔ (جاری ہے)