190ملین پائونڈز کیس کا فیصلہ۔عمران خان کو 14، بشری بی بی کو 7سال قید ِبامشقت کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
احتساب عدالت نے 190 ملین پائونڈز کیس کا فیصلہ سنا دیا، جس میں عمران خان کو 14 اور بشری بی بی کو 7 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190ملین پائونڈز کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔30دن سے محفوظ فیصلہ سنائے جانے کے بعد بشری بی بی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔احتساب عدالت نے 190 ملین پانڈز کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 6 ماہ قید کاٹنے کی سزا سنائی ہے۔اسی طرح عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بشری بی بی پر جرم میں معاونت کا الزام ثابت ہوتا ہے۔ انہیں سزائے قید کے ساتھ 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 3ماہ قید ہوگی۔قبل ازیں عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پانڈز کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا اڈیالہ جیل پہنچے۔اہم کیس کی سماعت کے موقع پر بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور بشری بی بی بھی عدالت میں پہنچے۔ اس سے قبل نیب پراسیکیوشن ٹیم کے 3 ارکان عرفان احمد،سہیل عارف،اویس ارشد اڈیالہ جیل پہنچنے تھے جب کہ ملزمہ بشری بی بی کے بیٹی اور داماد بھی عدالت پہنچ چکے تھے۔ اسی طرح بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان بھی جیل عدالت پہنچیں۔سماعت کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں کو بھی بلایا گیا تھا۔ اس موقع پر جیل کے باہر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے،ایلیٹ کمانڈوز بھی جیل کے باہر سکیورٹی کا حصہ تھے۔ پولیس کی جانب سے اہم کیس کی سماعت کے موقع پر اڈیالہ جیل کی دیوار اور سامنے کھڑی تمام گاڑیوں کو بھی ہٹوا دیا گیا تھا۔190ملین پائونڈز کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین اور بیرسٹر گوہر بھی اڈیالہ جیل پہنچے۔ 190ملین پائونڈ کرپشن ریفرنس کا فیصلہ4بارموخر کیا جا چکا ہے۔ عدالت نے فیصلہ سنانے کے لیے بشری بی بی کو بھی جیل عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا جبکہ عمران خان کو بھی دن 11 بجے کیا گیا۔احتساب عدالت نے 190 ملین پائونڈ ریفرنس کو سماعت مکمل کر کے 18 دسمبر کو محفوظ کیا تھا۔ا س کے بعد فیصلہ سنانے کی پہلے 23؍دسمبر پھر 6جنوری، پھر 13جنوری اور اس کے بعد 17؍جنوری تاریخ دی گئی تھی۔ریفرنس کی سماعت میں 35گواہ پیش کیے گئے اور 24 گواہ ترک کیے گئے ۔ ریفرنس کے 6ملزمان بیرسٹر شہزاد اکبر،زلفی بخاری ،فرحت شہزادی گوگی اشتہاری ڈکلیئر ہیں۔ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ کرپشن کی رقم نجی ہاسنگ سوسائٹی کے جرمانے میں ایڈجسٹ کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ کیس میں وفاقی کابینہ سے حقائق چھپا کر جبری منظوری لینے کا الزام ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ملین پائونڈز کیس احتساب عدالت بشری بی بی کو عمران خان کو کیس کا فیصلہ اڈیالہ جیل پی ٹی آئی کی سماعت کو بھی کی سزا
پڑھیں:
دہشت گردوں کیلئے معافی یا سزا میں کمی کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ
کوئٹہ:بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک اہم اور تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء (ATA) کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی خصوصی یا عام معافی کے قانونی حق دار نہیں، دفعہ 21-ایف کے تحت دہشتگردی کے مجرموں کے لیے معافی یا سزا میں کمی کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور اس شق میں کسی قسم کی تشریح یا نرمی نہیں جاسکتی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2023ء اور 2024ء میں دائر متفرق آئینی درخواستوں پر مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے تمام پٹیشنز خارج کر دیں۔
فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کی معافی اور پاکستان جیل قوانین 1978 کے تحت عام یا خصوصی رعایت کا حق حاصل ہے تاہم عدالت نے قرار دیا کہ 2001 میں دفعہ 21-ایف کے اضافے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو ہمیشہ کے لیے معافی کے دائرے سے خارج کیا جائے۔
عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون سازی عوامی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں شعوری اور دانستہ طور پر کی گئی تھی۔ عدالت کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے جو عام قوانین، بشمول جیل ایکٹ 1894، پر فوقیت رکھتا ہے۔
عدالت نے اس موقف کو بھی مسترد کر دیا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو معافی سے محروم رکھنا آئین کے آرٹیکل 25 (قانون کے سامنے مساوات) کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے تمام مجرم ایک علیحدہ قانونی طبقہ تشکیل دیتے ہیں، اس لیے ان پر یکساں قانون کا اطلاق امتیازی نہیں بلکہ معقول درجہ بندی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے معروف مقدمات شیروانی کیس، حکومتِ بلوچستان بنام عزیز اللہ اور ڈاکٹر مبشر حسن بنام فیڈریشن آف پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معقول بنیاد پر کی گئی درجہ بندی آئینی طور پر درست ہے۔
فیصلے میں محکمہ داخلہ، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات اور متعلقہ سپرنٹنڈنٹس کو ہدایت کی گئی کہ قانون کے منافی دی گئی تمام معافیاں فوری طور پر واپس لی جائیں اور متعلقہ قیدیوں کی سزاؤں کا ازسرِنو تعین کیا جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ کسی بھی معافی یا رعایت کے اجرا میں تمام قانونی تقاضوں کی مکمل پاس داری کی جائے، بصورتِ دیگر ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دو رکنی بینچ کے معزز ججز نے ہدایت دی کہ فیصلے کی مصدقہ نقول سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون و انصاف، ایڈووکیٹ جنرل، پراسیکیوٹر جنرل، سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور، سیکرٹری قانون بلوچستان اور آئی جی جیل خانہ جات کو فوری طور پر ارسال کی جائیں تاکہ عدالتی احکامات پر بلا تاخیر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ تمام سزا یافتہ قیدی خواہ وہ عمرقید کے ہوں یا قلیل مدتی سزا والے، اپنی بنیادی سزا کا کم از کم دو تہائی حصہ لازمی کاٹیں، یہ اصول پاکستان جیل قوانین 1978ء کے قاعدہ 217 کے تحت لازم ہے اور اس سے صرف وہی قیدی مستثنیٰ ہوں گے جنہیں قانون کے مطابق غیر معمولی معافی دی گئی ہو۔
عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات بلوچستان کو یہ بھی ہدایت کی کہ قیدی عجب خان کو دی گئی بی کلاس سہولت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور صوبے بھر میں بی کلاس حاصل کرنے والے تمام قیدیوں کی فہرست عدالت میں پیش کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بعض قیدیوں کو دی گئی قبل از وقت رہائیاں اور برائے نام فہرستیں من مانی، امتیازی اور غیر قانونی ہیں، جو آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 25 کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں عبدالمالک بنام ریاست (PLD 2006 SC 365) اور نذر حسین کیس (PLD 2010 SC 1021) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صدرِ پاکستان کو آرٹیکل 45 کے تحت سزا معاف یا کم کرنے کا اختیار حاصل ہے، مگر یہ اختیارات اسلامی اصولوں اور ریاستی پالیسی سے ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں، قتل، زنا، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو معافی کے دائرے سے خارج کرنا نہ صرف قانونی بلکہ پالیسی کے لحاظ سے درست ہے۔
عدالت نے سخت تشویش کا اظہار کیا کہ متعدد قیدیوں کو اصل سزا سے کہیں زیادہ معافیاں دی گئیں۔ مثال کے طور پر ایک قیدی سونا خان نے صرف 9 سال 4 ماہ سزا کاٹی مگر 15 سال سے زائد معافی حاصل کی، جبکہ امان اللہ نے 8 سال قید کے بعد 9 سال سے زائد رعایت پائی۔ عدالت نے اسے قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات انصاف کے بنیادی اصولوں کو مجروح کرتے ہیں۔