یومِ کشمیر پر اپنے بیان میں چیئرمین ایم کیو ایم نے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی حمایت خطے میں طاقت کے استعمال کی مذمت اور اس عزم کا اعادہ کرتا ہے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خطے میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ کشمیر کی خودارادیت کو تاراج کرنا ہندو توا سوچ کا عکاس ہے، دہائیوں پر محیط بھارتی قبضے نے توسیع پسندانہ عزائم کو عیاں کیا ہوا ہے، بھارت کا جارحانہ رویہ امن کے ٹھیکیداروں کے چہرے پر طمانچے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ تمام تر ظلم و جبر جان مال اعضاء عصمت گھروں کی قربانی دینے کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے کو پست نہیں کیا جاسکا وہ روز اول کی طرح ظلم کے خلاف برسرِ پیکار اور دشمن کو دندان شکن جواب دے رہے ہیں، تمام سیاسی مذہبی سماجی جماعتیں آپسی گروہی اختلاف کو ختم کرکے کشمیر سے یکجہتی کا پیغام دیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی حمایت خطے میں طاقت کے استعمال کی مذمت اور اس عزم کا اعادہ کرتا ہے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خطے میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خالد مقبول صدیقی کے مطابق

پڑھیں:

آہنگِ قرآن،الفاظ کا درو بست

قرآن ایک حیرت انگیز( Amazing)  کتاب ہے۔اس کے کئی ایک پہلو ایسے ہیں،جن پر ابھی تک گفتگو بہت ہی کم ہوئی ہے۔ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب 20ویں صدی میں بر صغیر کی ایک بہت بڑی عالم فاضل شخصیت تھے۔دینِ اسلام کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں میں وہ بہت ممتاز مقام کے حامل تھے۔

آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پیرس فرانس میں گزرا۔ پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیر جناب محمود غازی صاحب نے اپنی کتاب محاضراتِ قرآن میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب نے انھیں بتایا کہ 1957  میں ایک فرانسیسی فرد ان کے پاس پیرس آیا۔ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ ان کی وہاں زندگی کا معمول تھا کہ تقریباً ہر روز دو چار افراد ان سے ملنے آتے،اسلام کے بارے میں کچھ معلومات لیتے،بعض اوقات کچھ بحث کرتے اور ان میں سے اکثر اسلام قبول کر کے رخصت ہوتے۔ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے شہادت دلوائی اور اسلام کی چند چیدہ چیدہ باتیں بیان کیں۔یہ کرنے کے بعد اسلام پر اپنی چند کتابیں اس کو دیں۔ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ وہ اسلام قبول کرنے والے سے یہ ضرور پوچھتے تھے کہ اسلام کی کس چیز نے اسے متاثر کیا۔عموماً یہ لوگ اسلام کے بارے میں اپنے جو تاثرات بیان کیا کرتے تھے،وہ ایک جیسے ہوتے تھے۔ان میں سے نسبتاً زیادہ اہم، انوکھی یا نئی باتوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے پاس قلمبند کر لیتے تھے۔

اُس دن اس شخص نے جو بات بتائی وہ بہت اہم اور انتہائی منفرد نو عیت کی تھی اور ڈاکٹر صاحب کے بقول بے حد حیرت انگیز تھی۔ اس نے جو کہا ڈاکٹر صاحب کے کہنے کے مطابق وہ اسے بالکل نہیں جانتے اور سمجھتے تھے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی رائے دے سکتے تھے۔

اس شخص نے بتایا کہ میرا نام زاک زیلبیر ہے۔ میں فرانسیسی بولنے والی دنیا میں ایک بہت مشہور اور مقبول موسیقار ہوں۔میری بنائی ہوئی دھنیں اور میرے گائے ہوئے گانے فرانسیسی بولنے والوں میں بہت ہی پسند کیے جاتے ہیں۔اس نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک عرب سفیر کے ہاں کھانے کی دعوت میں جانے کا موقع ملا۔میں جب وہاں پہنچا تو زیادہ تر مہمان آ چکے تھے اور نہایت خاموشی و توجہ سے ایک خاص انداز کی موسیقی سن رہے تھے۔

  جب میں نے وہ موسیقی سنی تو مجھے لگا کہ جیسے یہ موسیقی کی دنیا کی کوئی بہت ہی بلند چیز ہے۔میں نے خود جو دھنیں بنائیں اور ان کے جو نشیب و فراز ایجاد کیے،یہ موسیقی اس سے بہت آگے ہے بلکہ موسیقی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے ابھی مجھے بہت محنت کرنی ہو گی اور بہت وقت دینا ہو گا۔میں حیران تھا کہ آخر یہ کس شخص کی ایجاد کردہ موسیقی ہے اور کس نے اس کی دھنیں ترتیب دی ہیں۔

جب میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ یہ دھنیں کس نے ترتیب دی ہیں تو لوگوں نے مجھے اشارے سے چپ رہنے کو کہا۔ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اپنی کہانی بیان کر نے کے ساتھ ساتھ موسیقی کی کچھ اصطلاحات بھی استعمال کر رہا تھا جن سے میں واقف نہیں تھا کیونکہ موسیقی میرا میدان نہ تھا۔

قصہ مختصر جب وہ موسیقی بند ہوئی تو پھر زاک زیلبیر کو تحریک ہوئی اور اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا۔وہاں بیٹھے لوگوں میں سے ایک نے بتایا کہ یہ کوئی موسیقی نہیں تھی بلکہ اﷲ کی کتاب قرآنِ مجید کی تلاوت تھی۔یہ فلاں قاری کی آواز میں تلاوت کی ہوئی ہے۔موسیقار نے کہا یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ قرآن کی تلاوت ہے لیکن اس کی یہ دھنیں کس نے ترتیب دی ہیں۔وہاں موجود مسلمان حاضرین نے بیک زبان وضاحت کی کہ یہ دھنیں کسی کی بھی بنائی ہوئی نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قاری موسیقی کی تعلیم سے بہرہ ور ہے۔

موسیقار نے جواب میں کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی نہ ہوں لیکن اسے یقین دلوایا گیا کہ قرآنِ مجید کا کسی دھن سے یا فنِ موسیقی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔قرآن کی تلاوت کا یہ فن،فنِ تجوید اور فنِ قرات کہلاتا ہے اور یہ فنِ موسیقی سے بالکل الگ چیز ہے۔

اس نے پھر پوچھا کہ تلاوت و قرات و تجوید کا یہ فن کب ایجاد ہوا اور کس نے ایجاد کیا۔اس پر اسے بتایا گیا کہ یہ فن تو نزولِ قرآن کے ساتھ ہی رائج ہوا۔جیسا اﷲ کے رسول نے قرآن تلاوت کیا ویسا ہی اب تلاوت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔رسولِ کریم نے جب لوگوں کو قرآن مجید عطا فرمایا تھا تو فنِ تجوید کے ساتھ ہی عطا فرمایا تھا۔اس پر اس موسیقار نے کہا کہ اگر محمدﷺ نے اپنے لوگوں کو قرآنِ مجید اسی طرح سکھایا اور دیا تھا جیسا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں تو پھر یہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے اس لیے کہ فن موسیقی کے جو قواعد اور ضوابط اس طرز تلاوت میں نظر آتے ہیں وہ اتنے اعلیٰ و ارفع ہیں کہ دنیا ابھی تک وہاں نہیں پہنچی۔

ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس کی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔موسیقار کے بقول اس نے دعوت سے واپس آ کر اور قراء حضرات کی تلاوت سنی اور مختلف لوگوں سے قرآن پڑھوا کر بھی سنا ۔ کہنے لگا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ قرآن اﷲ کی کتاب ہے اور محمدﷺ یقیناً اﷲ کے رسول ہیں،اس لیے آپ مجھے مسلمان کر لیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وہ میرے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹی ریکس دوڑ: امریکا سے جاپان تک مقبول ہونے والا انوکھا تفریحی ایونٹ
  • زرعی شعبے سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی، اقوام متحدہ
  • بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار
  • پاک ‘بھارت سرحد کی بندش کے باوجود شہریوں کی واپسی جاری
  • آہنگِ قرآن،الفاظ کا درو بست
  • بلوچستان اور آزاد کشمیر میں دانش اسکولوں کا قیام: 19ارب25کروڑروپے منظور
  • پاک-بھارت سرحد کی بندش کے باوجود شہریوں کی واپسی کا سلسلہ جاری، 46 پاکستانی وطن پہنچ گئے
  • پاکستان سے لاپتا ہونے والے ہندو میاں بیوی کی لاشیں بھارتی ریگستان سے برآمد
  • غزہ میں انسانی امداد کی فوری فراہمی کی اجازت دی جائے: اقوامِ متحدہ کا مطالبہ
  • گورنر خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے ملاقات کو سازش سے عبارت کرنا درست نہیں، سینیٹر عرفان صدیقی